• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’بھوک کا پیٹ کچھ ایسا ہے کہ بھرتا ہی نہیں!‘‘

Updated: December 23, 2023, 1:24 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

وسائل زندگی جتنے بڑھ رہے ہیں، بے اطمینانی میں اُتنا ہی اضافہ ہورہا ہے،یہ الگ بات کہ انسان اُسی کو اطمینان سمجھ رہا ہے۔اس کے اپنے اسباب ہیں جن سے غافل نہیں رہا جاسکتا۔

This boy is looking at the price to buy goods. Photo: INN
یہ لڑکا سامان خریدنے کیلئے قیمت دیکھ رہا ہے۔تصویر: آئی این این

میرے ایک نوجوان غیر مسلم دوست، جو پیشے سے آرجے (ریڈیو جاکی) ہیں ، بڑے علم دوست انسان ہیں  اور اُردو سمجھتے ہیں ۔ پچھلے دنوں  بات چیت کے دوران اُنہو ں نے میرے چند معروضات پر کہا: ’’کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں  کہ سوویدھا بڑھ گئی اور سکھ گھٹ گیا ہے؟‘‘ مَیں  نے کہا ’’ہاں ، بلکہ یوں  کہئے کہ لوگ سکھ کے حقیقی معنی سے آگاہ ہی نہیں  ہیں ۔‘‘ اُنہوں  نے کہا: ’’ہاں ، یہ اس لئے سمجھ میں  آتا ہے کہ جو بات دادی کے حلوے میں  تھی، فائیو اسٹار ہوٹل کے ڈیزرٹ میں  نہیں  ہے۔‘‘ 
 میں  نے کہا ’’سکھ تو آپ جانتے ہیں ، اس میں  سمردھی کو بھی جوڑ لیجئے۔یہ سب ختم ہوگیا ہے۔ اب بہت کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں  ہے۔ ہوتا تو لوگ اپنی داخلی زندگی میں  پریشان نہ رہتے اور ان میں  سے کچھ خود کشی جیسے انتہائی قدم کی جانب راغب نہ ہوتے۔‘‘ 
 سوویدھا اور سکھ کے فرق کو کون سمجھے گا؟ کون سمجھائے گا؟ کم لوگوں  کویہ شعور ہے کہ جسے درس گاہ کہا جاتا ہے وہی درس گاہ نہیں  ہوتی یعنی مدرسہ، اسکول، کالج یا اور کوئی تعلیمی ادارہ بلکہ ہر وہ جگہ درس گاہ ہے جہاں  سے کچھ سیکھا جاسکتا ہے یا سیکھا جاتا ہے۔ اس زاویۂ نگاہ سے وہ صحبت بھی درس گاہ ہے جس میں  بیٹھنا اضافۂ علم کا سبب بنتا ہے یا وہ محفل بھی درس گاہ ہے جس کا فیضان قلب و نظر کو کشادگی عطا کرتا ہے۔ انسان ایک درس گاہ سے نکل کر دوسری درس گاہ میں  داخل ضرور ہوتا ہے مگر شومیٔ قسمت کہ وہ اول الذکر کو تو درس گاہ تسلیم کرتا ہے مگر دوسری درس گاہ کو نہیں ۔
  یہی وجہ ہے کہ وہ اول الذکر سے لکھنا پڑھنا سیکھتا ہے، چند مضامین کو ذہن نشین کرتا ہے، اُن کے امتحانی پرچے حل کرتا ہے، پاس ہوتا ہے اور اُسے ڈگریاں  مل جاتی ہیں ۔ اس کے بعد وہ ازخود دوسری درس گاہ میں  داخل ہو جاتا ہے جہاں  اُسے مطالعہ، مشاہدہ،   تجربہ اور غوروفکر کے معمول سے بہت کچھ سیکھنا چاہئے مگر نہیں  سیکھتا۔ اسی طرز عمل کے باعث دوسری درس گاہ کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی اور اب ایسا لگتا ہے کہ ختم ہوگئی یا ختم ہونے کو ہے۔ اس دوسری درس گاہ میں  صحبتوں  کی اہمیت سب سے زیادہ تھی مگر اب وہ بھی باقی نہیں  رہ ہے کیونکہ ’’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔‘‘ 
 اس کی وجہ سے ’’فراوانیٔ علم‘‘ کی اِس دُنیا کے کم و بیش ہر معاشرہ پر اُس کم علمی کا سایہ دراز ہے جو روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ کم علمی کی ماری یہ دُنیا نہیں  جانتی کہ سکون و اطمینان خارجی دُنیا سے کشید نہیں  کیا جاتا، اس کے سوَتے انسان کے داخلی یا باطنی نظام میں  از خود پھوٹتے ہیں  بشرطیکہ اس نظام پر محنت کی جائے۔ موجودہ زمانے میں  لوگ سکون و اطمینان کیلئے لاکھوں  روپے تفریحات پر خرچ کرتے ہیں ۔ تفریحات کی اہمیت سے انکار نہیں  مگر ان سے حاصل ہونے والی راحت و مسرت دیر پا نہیں  ہوتی۔ کوئی نہیں  سوچتا کہ یہ دیرپا کیوں  نہیں  ہے اور ایک تفریح کے بعد دوسری تفریح کا سہارا کیوں  لینا پڑتا ہے؟ کوئی نہیں  سوچتا کہ رفتہ رفتہ یہ معمول کیوں  بنتا چلا گیا۔
 لوگ سمجھتے ہیں  کہ خوشحالی کیلئے دولت چاہئے۔و ہ دولت کیلئے دن رات ایک کردیتے ہیں  مگر اُن پر یہ راز یا تو کھلتا ہی نہیں  یا بہت دیر میں  کھلتا ہے کہ دولت سے سامان تعیش تو خریدا جاسکتا ہے خوشحالی نہیں ، بالکل اُسی طرح جیسے پیسوں  سے کتابیں  خریدی جاتی ہیں  علم نہیں ۔ جن ملکوں  میں  معاشی اصلاحات کے سبب لوگوں  کی مالی حالت بہتر ہوگئی ہے، وہ اس خیال کے حامل ہیں کہ اُن کی زندگی پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر مشہور تحقیقی ادارہ ہے۔ اس نے اپنی ایک رپورٹ میں  کہا کہ دُنیا کے بہت سے ملکوں  کے لوگوں  کی اکثریت یہ کہتے ہوئے پائی گئی کہ پچاس سال پہلے اُن کی زندگی جیسی تھی، اب اُس سے کافی بہتر ہوگئی ہے۔ان میں  ویتنام، ہندوستان، جنوبی کوریا، جاپان، جرمنی اور ترکی جیسے تقریباً پچیس ممالک شامل ہیں ۔ مذکورہ ملکوں  کے علی الترتیب ۸۸؍ فیصد، ۶۹؍ فیصد، ۶۸؍ فیصد، ۶۵؍ فیصد اور ۶۵؍ فیصد لوگوں  کا کہنا تھا کہ اُن کی زندگی پچاس سال پہلے جیسی تھی، اب اُس سے کافی بہتر ہوگئی ہے۔ حالانکہ وینی زوئیلا، میکسیکو، اُردن، اٹلی، ارجنٹینا، لبنان اور یونان جیسے ممالک بھی ہیں  جن کے عوام اپنی موجودہ زندگی سے خوش نہیں  ہیں ۔ پیو ریسرچ سینٹر نے یہ سروے ۳۸؍ ملکوں  میں کیا اور ۴۳؍ ہزار افراد سے گفتگو کے بعد رپورٹ مرتب کی۔ زیادہ تر لوگوں  نے اپنی ’’بہتر زندگی‘‘ یعنی ’’خوشحالی‘‘ کا سبب معاشی بہتری بتایا۔ ان سے پوچھا جانا چاہئے تھا کہ ان کی نظر میں  بہتر زندگی یا خوشحالی کا کیا معنی ہے؟
 یہ سوال اس لئے ضروری تھا کہ اُنہوں  نے بہتر حالات زندگی کو روپے پیسے یعنی سامان تعیش یعنی سوویدھا سے جوڑا، اطمینان قلب سے نہیں  جوڑا۔ یہی مسئلہ ہے۔اگر حالات زندگی کے بہتر ہونے کی گواہی دینے والا اپنے دل کی طرف دیکھ کر جواب دے رہا ہے تب تو اس کی بات پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے مگر مال و اسباب کی بنیاد پر اظہار خیال کررہا ہے تو اس پر بھروسہ نہیں  کیا جاسکتا۔ آپ جانتے ہیں  کہ کل تک گھر کے دروازے پر کبھی قفل نہیں  لگتا تھا۔ اب فلیٹ کے دروازے پر تین تین قفل لگائے جاتے ہیں  اس کے بعد لوہے کے دروازے کو اچھی طرح بند کرنا اور اطمینان کرنا کہ بند ہوگیا ہے ، عادت بن گیا ہے۔ دولت سے اطمینان قلب میسر آتا تو ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا قفل لگانے کو ضروری نہیں  سمجھا جاتا۔ یہ عمل اطمینان نہیں  بے اطمینانی کا عکاس ہے۔ اس نکتے پر کتنے لوگ غور کرتے ہیں  کہ اسباب زندگی جتنے قیمتی ہیں  اُتنا ہی عدم تحفظ پیدا ہوا اور جتنا عدم تحفظ پیدا ہوا اُتنا خوف دل میں  سما گیا۔ 
 آج کل ای بینکنگ کا زمانہ ہے۔ جس کے پاس جتنے زیادہ روپے پیسے ہیں  اُسے اُتنا مطمئن ہونا چاہئے تھا مگر وہ اُتنی ہی بے اطمینانی محسوس کرتا ہے کہ کہیں  سائبر فراڈ کی زد میں  نہ آجائے۔ 
  روز بہ روز بڑھتی صارفیت ہل من مزید کی طرف لے جارہی ہے اور بقول شاعر ’’بھوک کا پیٹ کچھ ایسا ہے کہ بھرتا ہی نہیں ۔‘‘ یہ صورتِ حال کچھ تو انسانی نادانی کے سبب پیدا ہوئی اور کچھ اُس تشہیری نظام کی وجہ سے جو روزانہ خواب دکھاتا ہے، خواب دوڑاتا ہے،  تعبیر مل جائے تو وہ بھی کم ظالم نہیں ، وہ نئے خراب پیدا کرتی ہے، نیا خواب پھر دوڑاتا ہے اور بے اطمینانی کا یہ چکر چلتا رہتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK