• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہندوستان اور پاکستان کے صدرعلی گڑھ کے سابق طلبہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور ایوب خان تھے

Updated: November 10, 2024, 12:23 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai

’ ٹائمز آف انڈیا‘ کے سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر محمد وجیہہ الدین کی کتاب ’میکنگ آف دی ماڈرن انڈین مسلم: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘ کا جائزہ، یہ کتاب یونیورسٹی کے ماضی، حال اور ممکنہ مستقبل کو بیان کرتی ہے اور سرسید احمد خان کو خراج عقیدت بھی پیش کرتی ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا جہاں سے دو دن قبل ایک جزوی فیصلہ آگیا ہے۔ اس کاحتمی فیصلہ اب سپریم کورٹ کی ایک سہ رکنی بنچ کرے گی۔ اِس یونیورسٹی کا قیام، انتظام وانصرام سب کچھ مسلمانان ہند کی کوششوں کا نتیجہ ہے،  یہ بات کسی روشن آفتاب کی طرح عیاں ہے، لیکن قانونی موشگافیوں کے ذریعہ اسکو عثمانیہ یونیورسٹی جیسی بنا دینے کی تیاری تھی۔ معروف قانوں داں، فیضان مصطفیٰ  نےگزشتہ  ہفتے  اپنی لیگل اویئرنیس ویب سیریز  کے ذریعہ  لگاتار چار لیکچرز  میں  یونیورسٹی کے تاریخی سفر اور اس کے اقلیتی کردار پر سیر حاصل بحث کی ہے۔  اس موقع پر اس مبصر نے مناسب سمجھا کہ محمد وجیہ الدین کی کتاب ’میکنگ آف دی ماڈرن انڈین مسلم: علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی‘( جدید ہندوستانی مسلم کی تشکیل: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کا جائزہ  پیش کیا جائے ۔ یہ کتاب یونیورسٹی کے ماضی، حال اور ممکنہ مستقبل کو  بیان کرتی ہے ۔
 محمد وجیہہ الدین اخبار ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ  بطور سینئر اسسٹنٹ ایڈیٹر منسلک ہیں اور تقریباً بیس برسوں سے ممبئی میں رہائش پزیر ہیں۔ وہ اخبار میں مسلم معاملات پر مضامین لکھتے ہیں۔ علی گڑھ میں انہوں نے کچھ  ہی عرصہ تعلیم حاصل کی، وہاں سے کوئی ڈگری حاصل نہیں کی ، جس کا انہیں افسوس ہے۔ علی گڑھ کے سحر میں وہ اب بھی گرفتار ہیں۔کتب بینی کے شوقین ہیں۔ آمدنی کا اچھا خاصہ حصہ کتابوں پر صرف کرتے ہیں ۔ ممبئی کے مِلّی حلقوں سے قریبی رابطے میں رہتے ہیں۔ جلسوں اور کانفرنسوں میں اظہارِ خیال کیلئے مدعو کئے جاتےہیں۔ دس ابواب پرمشتمل اپنی اولین کتاب  میں وجیہہ الدین نے اس عظیم تعلیم گاہ کے سو برسوں سے زائد کے سفر کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک طرح سے یہ ہندوستانی مسلمانوں کے فکری سفر کی کہانی بھی ہے۔
   ۱۸۵۷ء کی تباہی کے بعد، ملت کے دردمندوں نے  اُس کی بقاء کیلئے مختلف راستے تلاش کئے۔ ان میں سب سے زیادہ واضح اور مؤثر راستہ سر سید احمد خان کا تھا، جس کی عملی شکل  مدرسة العلوم تھی۔ مسلمانوں کی ترقی ماڈرن تعلیم کے بغیر ممکن نہ تھی، یہ نظریہ پورے زور و شور کے ساتھ اور ساری مخالفتوں کے باوجود سرسید نے پیش کیا۔۲۴ء مئی ۱۸۷۵ء کو مدرستہ العلوم مسلمان ہند کا قیام عمل میں آیا جو مسلم اینگلو اورینٹل کالج میں تبدیل ہوا لیکن ہدف مسلم یونیورسٹی تھا۔ سرسید نے ۱۸۸۶ء    میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ اُن کے انتقال کے بعد بھی کانفرنس کے کلکتہ۱۸۹۹ء، مدراس ۱۹۰۱ء، دہلی ۱۹۰۲ء، بمبئی  ۱۹۰۳ء کےجلسوں میں مسلم یونیورسٹی کی مانگ دہرائی جاتی رہی۔۱۹۱۰ء کی ناگپور کانفرنس میں سر آغا خان نے یونیورسٹی کے حق میں پوری قوت لگا دی اور ایک تاسیسی کمیٹی تشکیل پائی۔ ریلوے کے  ایک خاص ڈبے میں ملک بھر کا سفر کرتے ہوئے آغا خان اور مولانا شوکت علی نے چندے کی خطیر رقم جمع کی۔ اس کے بعد حکومت سے گفت و شنید کا ایک طویل دور چلا۔بالآخر۱۹۲۰ء میں ایم اے او کالج، یونیورسٹی بنا۔ یہ مسلمانوں کی سخت محنت اور جدوجہد کا نتیجہ تھا۔ عبوری دور کی روداد کو پڑھتےہوئے قاری  اپنے ماضی میں جھانکنے کا موقع پاتا ہے اور محسوس کرتا ہےکہ کیا گردوں تھا جس کا وہ ایک ٹوٹاہوا تارا ہے۔ ندامت سامنے آکر پوچھتی ہے کہ وہ تو تمہارے آبا تھے ، تم کیاہو ؟  

یہ بھی پڑھئے: ’’ہم اپنی زندگی ایک بڑے موقع کے انتظار میں گزار دیتے ہیں ‘‘

قیام کے کچھ عرصے بعد جب آپسی گروپ بازی اور کرپشن کی وجہ سے یونیورسٹی کی ساکھ مجروح ہونے لگی تو چانسلر، بیگم سلطان جہاں فرماںروا بھوپال نے رحمتﷲ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اس بات پر زور دینے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں اے ایم یو کو کس قدر چاہتی ہوں۔ ہم سرسید کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکے، افسوس کہ ہم علی گڑھ کو مشرق کا قرطبہ نہ بنا سکے۔ ہم اندرونی لڑائیوں اور اختلافات میں اپنی توانائیاں ضائع کر رہے ہیں جو ہمیں اپنے مقصد سے دور لے جا رہے ہیں۔‘‘
تعلیم کے معیار میں گراوٹ کی وجہ سےسرسید کے پوتےسر راس مسعود کو بحیثیت وائس چانسلر بلایا گیا۔ کیا باکمال  شخصیت تھی ۔ اس سے قبل راس مسعود عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد  کے قیام میں اہم رول ادا کرچکےتھے۔ نئی ذمہ داری  پر انھوں نےخطاب کیا  کہ’’ آج میں ایک ایسی جگہ  سے بول رہا ہوں جہاں سے اس اِدارے کے بانی اپنے  زمانے کے لوگوں تک اپنا  پیغام پہنچاتے تھے ۔ وہ آدمی جس کا خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے یہاں سے چند قدموں کے فاصلے پر مدفون ہے... میں وہ شخص نہیں جو جوانوں کے خالی خولی خوابوں کو  اہمیت  نہ  دے... مجھے ہمیشہ نوجوانوں کی خواہشات  سے ہمدردی رہی ہے ... میں یہ ماننے سے انکارکرتا ہوں کہ مسلمان بحیثیت قوم مر چکے ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ ایک زندہ معاشرے کے نوجوان شاندار خوابوں اور گلابی امنگوں کے بغیر نئی دنیا نہیں بنا سکتے... میں آپ سب پر واضح کر دوں کہ جب تک یونیورسٹی کی زمام کار میرے ہاتھ میں ہے، دوم  درجے کی کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔  میں یہاں سب کچھ اول درجہ کا دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘سر راس مسعود نے اپنی میعادِ کار میں دنیا کے  اعلیٰ ترین دانشوروں کو یونیورسٹی  میں خطبات کیلئے مدعو کیا۔ دنیا کے بہترین اذہان کو یونیورسٹی کی جانب متوجہ اور راغب کرنے کی کوشش کی۔عظیم سائنسداں البرٹ آئنسٹائن کی مدد بھی حاصل کی۔  ہمارے تعلیمی اداروں کو آج ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
 ۳۰؍ دسمبر ۱۸۹۳ءکا بڑا بھلا منظر کتاب میں پیش کیا گیا ہےجب راجہ جے کشن داس  کے زانو پر بیٹھے ننھے مسعود  نے بسم ﷲ پڑھی۔ اس مجلس رسمِ بسم ﷲ میں ہندو مسلمان  اور انگریز سب موجود تھے۔سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سرسید نے جو کلمات کہے وہ اُس دور میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی عمدہ تصویر کشی کرتے ہیں۔
 اے یم یو سیاسی افکار کا گہوارہ رہی ہے۔ ایک دور گزرا جب مسلم لیگ کا وہاں خوب زور و شور رہا۔ اس کے بر خلاف علی گڑھ نے نیشنلسٹ قیادت بھی پیدا کی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ وجود میں آیا۔ مصنف لکھتا ہے کہ طلبہ علی گڑھ میں اگر دو قومی نظریے کے پیشوا، لیاقت علی خان (سابق وزیراعظم پاکستان)تھے تو متحدہ قومیت کے علمبردار،خان عبدالغفار خان بھی رہے۔ علی گڑھ نے عالم ِسیاست کو بہت بڑے افراد فراہم کئے۔ ایک زمانہ تھا جب ہندوستان اور پاکستان، دونوں ملکوں کی  صدارتیں  ، علی گڑھ کے دو سابق طلبہ،  بالترتیب ڈاکٹر  ذاکر حسین  اور فیلڈ مارشل ایوب خان نے سنبھال رکھی تھیں ۔ علی برادران، سیف الدین کچلو، رفیع احمد قدوائی، راجہ مہندر پرتاپ، چودھری خلیق الزماں، ای ایم خواجہ اور ڈاکٹر سید محمود نہ جانے کتنے سیاسی رہنما علی گڑھ کی دین ہیں۔ عارف محمد اور اعظم خاں بھی ہیں۔ فہد احمد اور مشکور عثمانی جیسے نوجوان بھی اپنا مقام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تازہ اضافہ صبا حیدر کا ہے جوگزشتہ دنوں امریکہ کےالیکشن میں کامیاب ہوئیں ہیں۔علمی، سماجی،  سائنسی، کاروباری، ادبی اور صحافتی دنیا میں دھوم مچانے والے علیگ لاکھوں کی تعداد میں دنیا بھر میں پھیلے ہیں ۔
  ماضی قریب کی تاریخ سے واقعات اور کردار  چُن چُن کر مصنف اس طرح پیش کرتا ہے جیسے کسی فلم کے مناظر ایک کے بعد ایک نظروں کے سامنے آرہے ہوں ۔۱۹۴۵ء میں مولانا آزاد کے ساتھ طلبہ علی گڑھ کے بیہودہ سلوک  سے ہوتے ہوئے ۲۰۱۷ء میں ممبئی میں اے ایم یو کے مہاراشٹر کیمپس کی بیہودہ مخالفت تک ،سیکڑوں واقعات کا ایک سلسلہ کتاب میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح رشید احمد صدیقی ، تھیوڈور  بیک ،راجہ محمودآباد ،سید حامد ، ضمیرالدین شاہ، عرفان حبیب اور سابق نائب صدر حامد انصاری تک کتنے کرداروں کا تذکرہ بھی ہے۔مصنف ،خواجہ احمد عباس سے انو بھو سِنہا تک ،  مجاز سے جاوید اختر تک سب کو چھو کر گزرنے کی کوشش کرتا ہے۔ فلم ’میرے محبوب‘ کےمناظر ونغموں  سے ہوتے ہوئے تبلیغی جماعت اور جماعت اسلامی کے کیمپس پر اثرات تک، مصنف مصور بن کر  ایک وسیع کینواس پر رنگوں کو بکھیرتا  ہے۔
 مصنف جا بجا راج موہن گاندھی اور انِل مہیشوری کی کتابوں سے اقتباسات نقل کرتا ہےاور فرخ وارث اور ظفر محمود سے گفتگو کے حوالے بھی۔ ماضی کی اس شاندار میراث میں موجودہ مسائل کی بھی نشاندہی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل کی جانب کچھ اشارے بھی دیتا ہے۔ مصنف لکھتا ہے کہ یونیورسٹی نے نہ صرف تعلیم کا انتظام کیا بلکہ تربیت پر بھی زور دیا۔’’ میں نے  وہیں پر مروجہ اصولوں پر سوال اٹھانا اور مختلف انداز سے سوچنا سیکھا۔ اس کتاب کے ذریعے میں سرسید اور ان کے ورثہ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ ورثہ جو اینٹ پتھر کی عمارتوں کی شکل میں موجود ہے اور وہ بھی جو ان کے افکار و خیالات کی صورت میں  ہمارے سامنے آتا ہے۔‘‘سرسید اور مسلمانوں کی تعلیم اور ترقی میں دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہئے۔ قیمت نہایت مناسب ہے اور آن لائن آرڈر کی جاسکتی ہے ۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK