امریکہ میں ’الیکٹرس‘ منتخب کرنے کا نظام ۱۷۸۷ء میں نافذ کیا گیا۔ کچھ نمائندوں کا مطالبہ تھا کہ صدر کا انتخاب عوام کے ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر کیا جائے لیکن اس مطالبے کو منظور نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت امریکہ میں انسانوں کو غلام بنانے کا رواج تھا۔ امریکہ میں غلامی کا خاتمہ ہوچکا ہے مگر یہاں تمام رائے دہندگان کو مساوی اب بھی نہیں سمجھا جاتا۔
ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر : آئی این این
ڈونالڈ ٹرمپ جیت گئے مگر کیسے؟ جواب انتخاب کے طریقۂ کار اور عوامی رجحانات میں پوشیدہ ہیں۔ ۵؍ نومبر کو امریکہ میں صدارتی امیدوار کے انتخاب کا مرحلہ اختتام کو پہنچا اور اس کے ساتھ ہی یہ سوال پوچھا جانے لگا کہ انتخاب میں جیت کس کی ہوگی؟ بیشتر نے سوال کو سوال ہی رہنے دیا اور کچھ نے جواب بھی دیدیا کہ جس کو زیادہ ووٹ ملیں گے اس کی جیت ہوگی۔ امریکہ کے صدارتی امیدوار کی جیت کے پس منظر میں یہ جواب صحیح نہیں تھا۔ امریکہ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا شخص امریکی صدر نہیں بنتا۔ مثال یہ ہے کہ ۲۰۰۰ء میں الگور کو سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے تھے مگر جارج ڈبلیو بش کو الیکٹورل ووٹ سب سے زیادہ ملے تھے لہٰذا صدر کے منصب پر وہی فائز ہوئے۔ اسی طرح ۲۰۱۶ء میں ہلیری کلنٹن کو ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے ۳۰؍ لاکھ زائد ووٹ حاصل ہوئے مگر چونکہ ٹرمپ کو بڑی ریاستوں میں زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل ہوئے اسلئے ان کو فاتح قرار دیا گیا اور صدر کے منصب پر وہی فائز ہوئے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’الیکٹورل ووٹ‘‘ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عوام کچھ افسروں کو منتخب کرتے ہیں جنہیں ’’الیکٹرس‘‘ کہتے ہیں۔ تمام الیکٹرس مل کر الیکٹورل کالج بنتے ہیں۔ الیکٹر یا الیکٹورل کالج کے رکن ریاست کی آبادی کے لحاظ سے منتخب کئے جاتے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں ۵۳۸؍ الیکٹرس ہیں اور کسی کو بھی صدر بننے کیلئے ان میں سے ۲۷۰؍ کا ساتھ یا ہم نوائی ضروری ہے۔
امریکہ میں ’الیکٹرس‘ منتخب کرنے کا نظام ۱۷۸۷ء میں طویل بحث کے بعد نافذ کیا گیا۔ کچھ نمائندوں کا مطالبہ تھا کہ صدر کا انتخاب عوام کے ووٹوں کی اکثریت کی بنیاد پر کیا جائے لیکن اس مطالبے کو منظور نہیں کیا گیا کیونکہ اس وقت امریکہ میں انسانوں کو غلام بنانے کا رواج تھا۔ جنوبی حصے کی ریاستوں میں غلام زیادہ تھے اس لئے انہیں اصرار تھا کہ غلاموں کو بھی ووٹ دینے کا حق دیا جائے اور ایسا مطالبہ اس لئے کیا جاتا تھا کہ جنوبی ریاستوں کا دبدبہ قائم رہے مگر شمالی امریکہ کی ریاستیں اس کے حق میں نہیں تھیں۔ بالآخر ایک معاہدہ ہوا کہ پانچ غلاموں کے تین ووٹ سمجھے جائیں۔ امریکہ میں غلاموں کی تعداد زیادہ تھی اس لئے ووٹ دینے والوں کو خدشہ تھا کہ کہیں امریکی نظام حکومت پر غلام نہ قابض ہوجائیں۔ اس خدشے کے تحت ہی غلاموں کے ووٹوں کو کم قیمت تصور کیا گیا اور بالآخر یہی نظام رائج ہوگیا۔ اس نظام میں ایک تو یہی خامی ہے کہ انسانوں کو غلام اور آزاد کی اولاد میں تقسیم کیا جاتا ہے دوسری خامی یہ ہے کہ اس میں سب سے زیادہ ووٹ کے مقابلے کسی خاص ریاست کے ووٹ زیادہ معنی رکھتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اخوت و مساوات کے بزعم خود سب سے بڑے داعی امریکہ میں بحیثیت ووٹر بھی شہریوں کو ایک یا مساوی نہیں سمجھا جاتا۔
یہاں اب تک کوئی خاتون بھی صدر نہیں بن سکی ہے۔ اس بار ڈونالڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس میں کانٹے کا مقابلہ تھا۔ یہ پیش گوئی نہیں کی جاسکتی تھی کہ کون جیتے گا مگر جس طرح کملا ہیرس کے حق میں خواتین نے صف آرائی کی تھی وہ بذات خود بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ سابق صدر امریکہ بارک اوبامہ کی بیوی مشیل نے تو بیان دیا تھا کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ صدر بنے تو خواتین کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ انہوں نے اسقاط حمل کے معاملے کو صحت سے جوڑا تھا اور کہا تھا کہ اگر آپ نے یعنی امریکی عوام نے اس انتخاب میں صحیح امیدوار کو منتخب نہیں کیا تو اس کا خمیازہ آپ کی ماں، بیوی، بیٹی اور ہم خواتین کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ ہندوستان میں ٹرمپ نوازی کا مظاہرہ ہورہا ہے اور ٹرمپ نوازی میں سب سے آگے وہ پارٹیاں اور افراد ہیں جو یہاں سب سے بڑے مذہب کو تسلط اور فوقیت دلانے کی وکالت کرتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ کملا ہندوستان نژاد ہیں اور ان کا ننھیال بھی ہندوستان میں ہے مگر امریکہ میں جہاں صدر کا انتخاب ہونے والا تھا اور جہاں بڑی تعداد میں اکثریت نواز ہندوستانی رہتے ہیں ہندوستان کی حکمراں جماعت یا ایک خاص ایجنڈے اور ذہن کی ترجمانی کرنے والی پارٹیاں بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھیں مثال کے طور پر ’’ہندوز فار امریکہ فرسٹ‘‘ نامی تنظیم نے جہاں ڈونالڈ ٹرمپ کی حمایت کا فیصلہ سنایا تھا اور ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی کئی معاملات میں ہندوتوادیوں کا انداز اختیار کیا تھا وہیں ڈیمو کریٹک پارٹی کے ہندوستان نژاد رکن پارلیمان تھانیدار نے ہندو، بودھ، سکھ اور جین مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کا ایک الگ گروپ تشکیل دے کر کملا ہیرس کے حق میں مہم شروع کی تھی۔ ایسا ہی ایک اور گروہ بھی سرگرم تھا جس کا نام ’’ہندوز فار کملا ہیرس‘‘۔ محسوس کیا جا رہا تھا کہ ہندوستان میں حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست تنظیم ٹرمپ کی ہم نوا ہے تو امریکہ میں اس کا اثر پڑے گا مگر امریکہ میں اس کے ہم خیال یا ذیلی تنظیموں کے لوگ دو الگ خیموں میں بٹ گئے۔
مگر ان سب کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب کرلئے گئے اور وہ بھی واضح اکثریت سے۔ شاید اس لئے کہ:
(الف) کملا ہیرس کو ان کی پارٹی نے بہت تاخیر سے امیدوار بنایا۔ سابق صدر جو بائیڈن بڑھتی عمر کے سبب رائے دہندگان کو متاثر نہیں کرسکے۔ انہوں نے یہ فیصلہ بھی بہت تاخیر سے کیا کہ وہ صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے۔ کملا ہیرس کو عوام تک پہنچنے کا بہت کم وقت ملا۔
(ب) کملا ہیرس نے اسقاط حمل قانون کی بنیاد پر ٹرمپ کو گھیرنے کی کوشش کی تھی مگر ٹرمپ نے خواتین خاص طور سے سفید فام خواتین کو یہ سمجھانے میں کامیابی حاصل کی کہ اسقاط حمل واحد موضوع یا مسئلہ نہیں ہے۔
(ج) ڈونالڈ ٹرمپ رائے دہندگان کو یہ سمجھانے میں بھی کامیاب رہے کہ امریکہ اور امریکیوں کے مفادات کا تحفظ وہی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے امریکی نیشنلزم کی بات کی جو پہلے کبھی بھی موضوع بحث نہیں بنا تھا۔
(د) ٹرمپ یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب رہے کہ امریکہ میں ناجائز طور پر رہ رہے لوگوں کو وہی باہر بھگا سکتے ہیں اور امریکیوں کی معاشی بہتری کے اقدامات بھی تنہا وہی کرسکتے ہیں اور کریں گے۔
مضبوط قوم پرستی اور غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو بھگانے کا وعدہ دوسرے ممالک میں بھی مؤثر ثابت ہوتا رہا ہے مگر ۵؍ غلاموں کے تین ووٹ کا معاملہ دوسرے ملکوں میں نہیں تھا۔ یہ عجیب معاملہ ہے کہ امریکہ میں غلامی کا خاتمہ ہوچکا ہے مگر یہاں تمام رائے دہندگان کو مساوی اب بھی نہیں سمجھا جاتا شاید اسلئے کہ امریکہ میں غلامی ختم ہوگئی مگر دوسروں کو غلام بنانے کی ذہنیت اب بھی باقی ہے۔