• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بہت آگے گئی پھر بھی بہت پیچھے رہی دُنیا!

Updated: July 20, 2024, 11:09 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

بجٹ آرہا ہے، ایسا بجٹ جس کا کسی کو انتظار نہیں ہے۔ بڑی کمپنیوں اور تجارتی اداروں کو ہو تو ہو، عوام کو بالکل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بجٹ کے منصوبے عوامی زندگیوں پر مثبت اثر نہیں ڈالتے۔ تنگ دامنی کا شکوہ پہلے سے سوا ہوجاتا ہے۔

Nirmala Sitharaman. Photo: INN
نرملا سیتارمن۔ تصویر : آئی این این

مرکزی بجٹ پیش کئے جانے کا دِن قریب ہے۔ بجٹ کو عموماً بہت خشک سمجھا جاتا ہے۔ اب اسے خشک تر کہنا چاہئے۔ نت نئی معاشی اصطلاحات کے سبب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کیلئے بھی بجٹ کو سمجھنا یا اس میں کہی گئی باتوں کے مفہوم تک پہنچنا مشکل ہوگیا ہے۔ تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کو جانے دیجئے، وزیر مالیات جن اراکین پارلیمان کے روبرو یہ معاشی دستاویز پیش کرتا ہے، اُن میں بھی اکثریت، بجٹ کی باریکیوں کو نہ سمجھنے والے نمائندوں کی ہوتی ہے۔ اسی لئے بجٹ کی تقریر کے دوران بہت سوں کو اونگھتے ہوئے اور وزرائے مالیات کو، غیر دلچسپ کو دلچسپ بنانے کیلئے اُردو اشعارکا سہارا لیتے ہوئے کئی بار دیکھا گیا ہے۔
 بجٹ کو سمجھنا مشکل ہے مگر کوئی سمجھائے، بالخصوص ایسا شخص جسے فن خطابت میں بھی ملکہ حاصل ہو، تو بجٹ بجٹ نہیں رہ جاتا، آسان ہوجاتا ہے۔ یاد آتے ہیں مشہور قانون داں نانی پالکھی والا جن کا بجٹ خطاب غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوا کرتا تھا۔ پارلیمنٹ میں بجٹ پیش ہونے کے چند روز بعد پالکھی والا، ممبئی کے بریبورن اسٹیڈیم پر بجٹ کا  اتنے دلچسپ انداز میں تجزیہ کرتے تھے کہ اسٹیڈیم میں بیٹھے ہوئے ہر مکتب فکر اور معاشرہ کی ہر سطح کے لوگ نہایت دلچسپی سے اسے سنتے تھے۔ دہلی کے اہل اقتدار کو بھی اس کا انتظار ہوا کرتا تھا۔ خود وزرائے مالیات متجسس رہتے تھے کہ اُن کے بجٹ پر نانی پالکھی والا کیا فیصلہ سناتے ہیں۔
پالکھی والا نے بجٹ تجزیہ کی ابتداء ۱۹۵۸ء میں ممبئی کے گرین ہوٹل کے ایک چھوٹے سے ہال سے کی تھی۔ بلاشبہ، پہلی نشست میں اُن کے سامعین کم تھے مگر سال بہ سال ان میں اضافہ ہونے لگا اور پھر وہ وقت آیا کہ منتظمین کو جلسہ گاہ بدلنی پڑی۔ پہلے اسے کاوس جی جہانگیر ہال اور بعد میں  بریبورن اسٹیڈیم، چرچ گیٹ، منتقل کیا گیا۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پالکھی والا کا بجٹ خطاب کتنا دلچسپ اور اہم ہوتا تھاحالانکہ وزیر مالیات کی بجٹ تقریر تب بھی اُتنی ہی خشک ہوتی تھی جتنی کہ اب ہوتی ہے۔ ساڑھے تین دہائی بعد ۱۹۹۴ء میں پالکھی والا نے سالانہ خطاب کا سلسلہ موقوف کردیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ آزاد معیشت کے فروغ کی کوششوں کے بعد بجٹ کا تجزیہ بے معنی ہوگیا ہے۔ نئی عمر کے قارئین توجہ دیں کہ یہ وہ دور تھا جس میں ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیر مالیات تھے۔ اُنہوں نے معاشی اصلاحات کا بیڑا اُٹھایا او رمعیشت کو نئی رفتار عطا کی۔ اس کے بعد ہی سے قومی معیشت میں عالمی توقعات بڑھنے لگیں، روزگار کی نئی راہیں کھلیں، روزگار کیلئے بیرونی ملکوں تک رسائی آسان ہوئی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے ہندوستان پُرکشش ملک کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ ڈاکٹر سنگھ کے فلسفہ ٔمعاشی اصلاحات سے کتنا اتفاق کیا جاسکتا ہے اور کتنا نہیں یہ الگ بحث ہے مگر یہ اعتراف تو کرنا ہی پڑتا ہے کہ اُن سے پہلے ہندوستانی معیشت پیدل چل رہی تھی، اُن کے بعد دوڑنے لگی۔ بہرکیف، یہ مضمون نگار عرض کررہا تھا کہ جب جب بجٹ پیش ہوتا ہے، نانی پالکھی والا کی یاد آتی ہے۔
بجٹ خطاب کا سلسلہ موقوف کرنے کے بعد پالکھی والا کم و بیش آٹھ سال بقید حیات رہے مگر بجٹ پر کچھ نہیں کہا۔ تب ہی سے سناٹا ہے اور جس خلاء کے باعث ہے وہ کسی صورت نہیں بھرتا۔ بعد کے دور میں کسی نے ایسے خطاب کی کوشش نہیں کی جبکہ اتنے بڑے پیمانے پر نہیں تو چھوٹی چھوٹی نشستوں کے ذریعہ یہ ممکن تھا۔ خود مسلمانوں نے اس جانب توجہ نہیں دی جن کی معاشی اُمور سے رغبت افسوسناک حد تک کم ہے۔ جس معاشرہ میں سیاسی جلسوں اور تہنیتی نشستوں کی بہتات ہو اُس میں بجٹ کی تفہیم کا سلسلہ بھی ہونا چاہئے۔ کاش کچھ لوگ اس جانب پیش رفت کرتے! 
 بجٹ سے معیشت کا اور معیشت سے بجٹ کا براہ راست تعلق ہے او رجب معیشت یا معاشیات کا ذکر ہو تو اس سے لگی بندھی اور بھی کئی باتیں ذہن پر دستک دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
 معیشت کی کئی اقسام ہیں: روایتی (ٹریڈیشنل) معیشت، بازاری (مارکیٹ) معیشت، حکمیہ یا بند (کمانڈ) معیشت اور مخلوط (مسکڈ) معیشت۔ ان سب سے پہلے معیشت ِ مبادلہ یعنی بارٹر اکنامی ہوا کرتی تھی۔ اس میں شے یا اشیاء کا تبادلہ شے یا اشیاء ہی سے ہوتا تھا۔ پیسے کا کوئی کردار نہیں تھا۔یہ دورِ قدیم تھا مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس کے باقیات اب بھی ہیں۔ گوہاٹی سے کم و بیش پندرہ کلومیٹر کی مسافت پرموری گاؤں ضلع کے دیانگ بیلگوری نامی تاریخی مقام پر ایسا تین روزہ میلہ لگتا ہے جس کی روایت ۱۵؍ ویں صدی سے اب تک جاری ہے۔ یہ جونبیل میلہ (Jonbeel Mela) کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ اس کیلئے آسام کے پہاڑی علاقوں کے باشندے نیز شمال مشرق کے قبائل مثلاً گوا، کربی، کھاسی اور جینتیا، مقامی پیداوار، دیگر اشیاء اور خود تیار کردہ مصنوعات لے کر پہاڑوں سے اُترتے ہیں اور آسامی باشندوں سے ان اشیاء اور مصنوعات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ لین دین پیسے کے عوض بالکل نہیں ہوتا۔ حالیہ برسوں میں بھی اس میلے کے شرکاء کی تعداد چالیس ہزار بتائی گئی جبکہ اشیاء کی خرید و فروخت کا تخمینہ ایک کروڑ روپے کا ہے کہ اگر لین دین پیسے یا روپے کے عوض ہوتا تو یہ کتنے کا بیوپار کہلاتا۔ 
 غور کیجئے، مرکزی حکومت نے کووڈ کی وباء کے دور میں جس کیش لیس اکنامی پر خاصی توانائی صرف کی تھی، وہ کووڈ کے خاتمے کے بعد بھی مکمل طور پر کیش لیس نہیں ہوئی بلکہ آدھی پلاسٹک بیس ہوگئی۔ موجودہ دور آدھا کیش اور آدھا پلاسٹک منی کا ہے مگر، اپنے ہی ملک میں، مذکورہ بالا جونبیل میلہ صحیح معنوں میں کیش لیس ہے، یہ الگ بات ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کم کم ہی جانتے ہیں۔
ایک بجٹ کے بعد دوسرا بجٹ، ایک معیشت کے بعد دوسرے طرز کی معیشت، آپ اس پوری تاریخ کامطالعہ کرلیں، اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ کل تک اشیاء کم تھیں مگر اطمینان زیادہ تھا، پیسہ کم تھا مگر انسان خواہشات کا غلام نہیں تھا، غربت تھی مگر غربت کو شومی ٔ قسمت سمجھنے کا رواج نہیں تھا، لوگوں کا دامن تنگ ہوتا تھا مگر کسی کو تنگ دامنی کا شکوہ نہیں تھا، نیند ایسی تھی کہ بیداری رشک کرتی تھی اور شامیں ایسی کہ صبحیں ناز کرتی تھیں۔ زندگی تو اُنہی اَدوار میں جی گئی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK