یوم اساتذہ آیا اور گزر گیا، پھر آئے گا اور پھر گزر جائےگا۔ سماج اور معاشرہ اساتذہ کے تئیں جس رویہ کا حامل ہے شاید ہی اُس میں تبدیلی آئے۔ آثار تو دکھائی نہیں دیتے
EPAPER
Updated: September 07, 2024, 7:25 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
یوم اساتذہ آیا اور گزر گیا، پھر آئے گا اور پھر گزر جائےگا۔ سماج اور معاشرہ اساتذہ کے تئیں جس رویہ کا حامل ہے شاید ہی اُس میں تبدیلی آئے۔ آثار تو دکھائی نہیں دیتے
دو روز قبل ’’یوم اساتذہ‘‘ تھا۔ شاعری میں ’’اساتذہ‘‘ سے مراد وہ معتبر شعراء ہیں جن کے اشعار سے سند لی جاتی ہے۔ یوم اساتذہ پر خیال گزرا کہ کاش ایک دن، شاعری کے اساتذہ کیلئے بھی مختص کیا جاتا اور اُس دن ہر سخن فہم، خواہ غالب کا طرفدار ہو یا نہ ہو، کلاسیکی شعراء کے کلام کا مطالعہ کرتا، اسکولوں کالجوں میں بیت بازی کے مقابلے منعقد کئے جاتے جن میں شرط ہوتی کہ اساتذہ ہی کے اشعار پڑھے جائینگے، اُردو تنظیمیں سمینار اور مشاعرے کرتیں اور اس طرح اساتذہ کو یاد کیا جاتا جنہوں نے اُردو شاعری پر احسان کیا ہے۔
ایسا ہوتا تو نئی نسل کے افراد جانتے کہ میاں داد خاں سیاح کون تھے جن کا سب سے مشہور شعر (جس کا دوسرا مصرعہ ہے: ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو‘‘) بھی اب اتنا مشہور نہیں رہ گیا ہے جتنا کل تھا، یا، طلبہ دریافت کرتے کہ ’’کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا‘‘ میں، جس میں صنعت تلمیح ہے، حضرت ِ غالب نے کس تاریخی واقعہ سے استفادہ کیا ہے۔ ممکن تھا کہ کوئی دریافت کرلیتا کہ میر تقی میر نے ’’مَیں جو بولا، کہا کہ یہ آواز‘‘ کے دوسرے مصرعے میں ’’اسی خانہ خراب‘‘ کیوں کہا ہے؟ اگر یہ نہیں تو کوئی منچلا طالب علم فن کی گہرائی و گیرائی کو سمجھنے کی کوشش کئے بغیر اتنا ہی پوچھ بیٹھتا کہ اساتذہ کی سہل پسندی بھی مشکل پسندی جیسی کیوں لگتی ہے؟ کوئی اُس سے بھی زیادہ منچلا ہوتا اور اُس نے یو ٹیوب پر قوالی سن رکھی ہوتی تو کہتا کہ ساحر نے ’’ عشق عشق‘‘ میں ’’یہ کائنات عشق ہے اور جان عشق ہے‘‘ یا ’’عشق سرمد، عشق ہی منصور ہے‘‘ کیوں کہا تھا؟
مگر افسوس کہ شاعری کے اساتذہ کیلئے کوئی دن نہیں ہے، دن تو کیا (لوگوں کے پاس) وقت بھی نہیں ہے۔ اب تو وہ لوگ بھی کم ہی رہ گئے ہیں جو پُرانی فلموں کے نغمے سنتے اور اُن پر اس لئے سر دُھنتے تھے کہ اُن میں گلوکاری اور موسیقی کے علاوہ شاعری جیسی شاعری ہوتی تھی، اُردو جیسی اُردو ہوتی تھی اور اہل ذوق کو اُن کے ذریعہ بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔زبان بھی سیکھی جاسکتی تھی۔
خیر، عرض یہ کیا جارہا تھا کہ دو دن پہلے یوم اساتذہ تھا جو ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کی سالگرہ پر ہر سال منایا جاتا ہے۔ اُن کے شاگرد چاہتے تھے کہ اُن کی سالگرہ منائیں، ڈاکٹر صاحب نے منع کردیا اور مشورہ دیاکہ منانا ہی ہے تو یوم اساتذہ مناؤ۔ پھر کیا تھا، روایت پڑ گئی۔ اس طرح کم و بیش چھ دہائیاں گزریں، یہ دن منایا جارہا ہے مگر صاحب، غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یوم اساتذہ کی روایت جتنی پُرانی ہوتی جارہی ہے، اساتذہ کی عزت و توقیر اُتنی ہی متاثر ہورہی ہے۔ اگلے وقتوں میں استاد کا کہا پتھر کی لکیر ہوتا تھا۔ اب پتھر ہے نہ لکیر۔ ان کی جگہ یا تو ٹیب ہے یا موبائل، لیپ ٹاپ ہے یا کمپیوٹر۔ تختۂ سیاہ بھی نگاہوں سے اوجھل ہوا جاتا ہے کہ اس کی جگہ ڈجیٹل بورڈ لے رہا ہے (دیکھئے تصویر میں تختہ ٔ سیاہ ڈجیٹل بورڈ کے سامنے کیسے منہ بسور رہا ہے)۔ سنا جارہا ہے کہ اب کلاس روم میں استاد کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ گمان غالب ہے کہ ایسا ہوگا کیونکہ مصنوعی ذہانت ہے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ وہ دن دور نہیں جب مصنوعی ذہانت کے تماشا نما کارنامے یا کارنامہ نما تماشے جا بہ جا ہوں گے اور انسان کے پاس کام نہیں رہ جائیگا۔ شاید اس طرح ’’بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے‘‘ کی فراغت لوَٹ آئے۔ واضح رہے کہ یہ مضمون نگار مصنوعی ذہانت کا مخالف نہیں ہے، اس کے غیر ضروری اور حد سے زیادہ استعمال سے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہے کہ وقت کے ساتھ منفی استعمال بڑھتا نہ چلا جائے۔ اگر بڑھ گیا تو کیا ہوگا؟ کہا نہیں جاسکتا، تب تک بقید حیات رہیں تو ممکن ہے بہت سے لوگ ساحر کا نغمہ گنگنائیں:
تری دُنیا میں جینے سے تو بہتر ہے کہ مر جائیں
وہی آنسو، وہی آہیں، وہی غم ہے جدھر جائیں
کیا تب بھی یوم اساتذہ منایا جائیگا؟ نہیں کہا جاسکتا مگر جو آج منایا جارہا ہے اُس کا کیا؟ کتنا بے روح اور بے رس ہے! جیسے خانہ پُری مقصود ہو۔ ہوسکتا ہے ایسے اسکول بھی ہوں جہاں خانہ پُری بھی نہ ہوتی ہو۔ اسکول کے ارباب اختیار وہی دن دل لگا کر مناتے ہیں جن کا ’’حکم‘‘ نازل ہوتا ہے یعنی ڈپارٹمنٹ سے سرکیولر آتا ہے۔ پھر وسائل ہو ںنہ ہوں، دن منتا ہے اور خوب منتا ہے۔ ڈپارٹمنٹ کا بھروسہ اسکولوں پر کم اور تکنالوجی پر زیادہ ہے۔ وہ اسکولوں سے کہتا ہے کہ ویڈیو بنا کر بھیجیں جیسےبہت سے اسکولوں میں اساتذہ اسکول پہنچ کر اب حاضری کے رجسٹر میں دستخط نہیں کرتے، بایومیٹرک اَٹینڈنس لگاتے ہیں۔ اس سسٹم نے تاخیر سے اسکول پہنچنے کا سکھ چھین لیا ہے۔ بہت کچھ بدل رہا ہے، نظام تعلیم کی روح مجروح ہے اور تدریس پیشہ بن گیا ہے۔ ایسے میں وہی اساتذہ غنیمت ہیں جو محنت کرتے ہیں، قربانی دیتے ہیں اور اپنے طلبہ کے سامنے دل نکال کر رکھ دینے کے پُرانے طریقے کو اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آٹے میں نمک کے برابر ہی سہی مگر ایسے اساتذہ ہیں، آج بھی ہیں اور انہی کے دم خم سے کسی نہ کسی سطح پر عظمت ِ تدریس باقی ہے۔
یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ دورِ حاضر کے اساتذہ کے سامنے بڑے چیلنجز ہوں گے کیونکہ آج کا طالب علم ماضی کے طالب علموں جیسا نہیں ہے کہ جو اسکول آتا تھا تو اسکول کا ہوجاتا تھا، آج اندازہ نہیں کیا جاسکتا کہ اسکول آنے والے بعض طالب علموں کے ذہن میں کیا کیا چلتا ہوگا، اُن کی نفسیات کس حد تک متاثر ہوگی، وہ اپنی عمر سے کتنے سال بڑے ہوں گے اور کس بات پر اُن کا ردعمل کیا ہوگا۔ آج کے جو اساتذہ محنت اور لگن سے پڑھا رہے ہیں وہ پڑھا نہیں رہے، کمال کررہے ہیں۔ان کے ساتھ یہ ستم ظریفی بھی کچھ کم نہیں کہ اُن کی خدمات کو صحیح تناظر میں آنکنے والا کوئی نہیں ہے۔ کارپوریٹ دفاتر میں ’’ایپریزل‘‘ ہوتا ہے۔ تنخواہ تب ہی بڑھتی ہے جب کارگزاری اس قابل ہو۔ سال کی ابتداء میں ’’کے آر اے‘‘ کا التزام ہوتا ہے کہ آنے والے سال میں آپ کے اہداف کیا ہوں گے۔ سال کے آخر میں طے شدہ اہداف پورے ہوئے یا نہیں، ہوئے تو کتنے اور نہیں ہوئے تو کتنے، اس تجزیئے کے بعد حسب تجزیہ تنخواہ بڑھائی جاتی ہے۔ کارپوریٹ دفاتر کارکردگی کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔ اساتذہ کیلئے ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ یہ بہت سوں کیلئے اچھا ہوگا مگر جو قابل بھی ہیں اور محنتی بھی اور جو دل و جان سے پڑھاتے ہیں اُن کیلئے بالکل اچھا نہیں ہے۔ اُنہیں نیکی کرکے دریا میں ڈالنا ہوتا ہے۔ وہ روز نیکی کرتے ہیں اور روز دریا میں ڈالتے ہیں۔ کم ہی لوگوں کو اُن کی نیکی دکھائی دیتی ہوگی ۔ n