ہمارا ملک ’’وشوگرو‘‘ کیسے بنا؟کل جب مورخ موجودہ دور کی تاریخ لکھنے کے مقصد سے حالات کا جائزہ لے گا تب اسے کس کس مشکل سے نبردآزما ہونا پڑے گا اس کا احساس ہی پریشان کردیتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 16, 2023, 1:27 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ہمارا ملک ’’وشوگرو‘‘ کیسے بنا؟کل جب مورخ موجودہ دور کی تاریخ لکھنے کے مقصد سے حالات کا جائزہ لے گا تب اسے کس کس مشکل سے نبردآزما ہونا پڑے گا اس کا احساس ہی پریشان کردیتا ہے۔
ہمارا ملک ’’وشوگرو‘‘ کیسے بنا؟کل جب مورخ موجودہ دور کی تاریخ لکھنے کے مقصد سے حالات کا جائزہ لے گا تب اسے کس کس مشکل سے نبردآزما ہونا پڑے گا اس کا احساس ہی پریشان کردیتا ہے۔ وشوگرو کی تاریخ لکھنے والا یہ کیسے سمجھ پائیگا کہ ہم (بزعم خود) ’’دنیا کی امامت ‘‘پر فائز تھے یا فائز ہونے کے خواہشمند تھے مگر کیا اتنا بھی نہیں جانتے تھے کہ عالمی جدول برائے بھوک (گلوبل ہنگر انڈیکس) ہمیں دنیا کے ایک سو پچیس ملکوں میں ایک سو گیارہویں مقام پر فائز کررہا تھا؟
جب وہ ہمارا ردعمل جاننے کی کوشش کریگا تو یقیناً اسے یہ علم ہوگا کہ ہم اس درجہ بندی سے مطمئن نہیں تھے اس لئے ہم نے اسے مسترد کردیا تھا۔ یہ جان کر اس کا تجسس اور بھی بڑھ جائیگا۔ اس کے ذہن میں سوال پیدا ہوگا کہ ہم کیسے وشو گرو تھے جو درجہ بندی کو مسترد کرنے کے باوجود دنیا کے سامنے ٹھوس حقائق پیش کرنے کی فکر نہیں کررہے تھے؟ وہ اخبارات اور دستاویزات کو چھاننے کی کوشش کریگا تب اسے علم ہوگا کہ اس سے قبل ’’ہنگر واچ‘‘ کی رپورٹ بھی ہمارے حالات کو طشت از بام کرچکی تھی۔ اس ادارے نے ۲۰۲۲ ءمیں اپنی دوسری رپورٹ میں کہا تھا کہ صرف چونتیس فیصد خاندان ایسے ہیں جن کے پاس سروے سے پہلے کے مہینے میں دالوں کی مناسب مقدار موجود تھی۔ یہ متعدد دیگر پیمانوں میں سے ایک پیمانہ ہے چھوٹے بڑے کنبوں کی غذائی دسترس کو جانچنے اور آنکنے کا۔ اس رپورٹ میں (جو کورونا کے بعد کے دور میں جاری ہوئی تھی) خاندانوں کی آمدنی کے محدود تر ہوجانے کا بھی اشارہ دیا گیا تھا۔ ہم نے تو پوری رپورٹ کو سطر بہ سطر نہیں پڑھا ہے مگر مورخ تو اسے سطر بہ سطر بھی اور بار بار بھی پڑھنا چاہے گا۔ وہ کتنا پریشان ہوگا، جتنے سوالوں کے جواب اسے ملیں گے اس سے زیادہ سوال پیدا ہوں گے۔ مثال کے طور پر وہ سوچے گا کہ کیوں نہ جدول برائے انسانی ترقیات کا جائزہ لے۔ یہاں بھی اس کے ہوش اڑ جائینگے۔ وہ دیکھے گا کہ ایک سو بیانوے ملکوں میں ہندوستان ایک سو بتیسویں مقام پر ہے۔اسی دوران وہ یہ بھی جاننا چاہے گا کہ ہندوستانی شہریوں کی فی کس آمدنی کتنی ہے؟اسے یہ دیکھ کر تعجب ہوگا کہ فی کس آمدنی کے معاملے میں بھی ہندوستانی شہری کافی پیچھے ہیں ۔ترقی یافتہ ملکوں کی بات تو دور کی ہے ایشیائی ملکوں میں بھی ہندوستان کا نمبر بعد ہی میں آتا ہے۔اُس کے ذہن میں سوال ابھرے گا کہ صنعتی مواقع حاصل کرنے میں ہندوستان نے کون سا کارنامہ انجام دیا تو اسے پتہ چلے گا کہ جب کئی کمپنیاں چین کی سرزمین کو خیر باد کہہ رہی تھیں تب انہیں اپنے یہاں بلانے میں ہندوستان کوئی بڑی پیش رفت نہیں کرسکا۔بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے ملکوں نے اس سنہرے موقع کا فائدہ اٹھا لیا۔ظاہر ہے کہ مورخ بہت کچھ سوچے گا، تحقیق کرے گا اور حاصل شدہ معلومات کا تجزیہ کرنے کے بعد اِس عہد کی تاریخ قلم بند کرے گا چنانچہ ہم محسوس کرسکتے ہیں کہ وہ کیا رُخ اختیار کرے گا۔سردست ہم مستقبل کے اس نادیدہ مورخ کو قارئین کے تصور کے حوالے کرتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ہم میں وشوگرو بننے کی بھرپور صلاحیت موجودہے۔اس کے امکانات بھی روشن ہیں مگر یہ سوال اپنے آپ سے کرنے کا ہے کہ کیا ہم اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اور بہترین استعمال کررہے ہیں ؟