Inquilab Logo

شارٹ اور فیچر فلم میں کینواس کا بہت بڑا اور نمایاں فرق ہوتا ہے

Updated: June 07, 2023, 5:27 PM IST | Abdul Karim Qasim Ali | Mumbai

فلم ہدایتکارپرساد کدم نے کہا کہ میں رام گوپال ورما کی فلموں کو زیادہ دیکھتا تھا کیونکہ وہ روایت سے ہٹ کر ہوتی تھیں اور اس میں مجھے سیکھنے کیلئے کچھ رہتا تھا

Prasad Kadam directed short films like Verses of War, Happy Birthday and Makhamli
ورسیز آف وار، ہیپی برتھ ڈے اور مخملی جیسی شارٹ فلموں کے ہدایت کار پرساد کدم

ممبئی میں پیدا ہونے والے پرساد کدم نے اپنے  پیشہ ورانہ کریئر میں بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ انہوں نے ایک پُر سکون زندگی کو خیرباد کہنے کے بعد شوبز انڈسٹری میں قدم رکھا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے شارٹ فلموں سے کریئر شروع کرتے ہوئے اب فیچر فلمیں بنانے کی طرف قدم بڑھا دیاہے۔ممبئی کے تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والے پرساد کدم نے ایم بی اے کیا ہے اور  دُبئی کی ایک معروف بینک میں ملازمت بھی کرچکے ہیں لیکن وہاں رہتے ہوئے بھی ان کی توجہ فلم انڈسٹری پر تھی اور وہ بھی اس مایانگری میں  اپنی قسمت آزمانا چاہتے تھے۔ اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ انہوں نے اپنی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا اور دُبئی میںجمع کی ہوئی پونجی سے اپنا پروڈکشن ہاؤس شروع کیا۔ ان کی شارٹ فلموں کو بین الاقوامی  تقاریب میں اعزاز سےبھی نوازا جاچکا ہے۔ انہوں نے اب تک ’ورسیز آف وار، ہیپی برتھ ڈے اور مخملی ‘ جیسی کامیاب شارٹ فلمیں بنائی ہیں۔نمائندہ انقلاب نے  ان  سے فلموں سے متعلق کئی اہم موضوعات بات چیت کی جسے یہاں پیش کیا جارہا ہے:    
آپ نے ایم بی اے کیا، بینکر رہے اور اس کے بعد فلم انڈسٹری سے کس طرح وابستہ ہوئے ؟
 ج:ہمارے گھرمیں سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ افرادہیں۔ میری دونوں بہنیں ڈاکٹر ہیں اور والدین بھی چاہتے تھے کہ میں بھی ان کی ہی طرح ڈاکٹر  بن جاؤں۔ میں بھی اسکول کا سب سے ذہین طالب علم تھا  اور اچھے فیصد آنے کی وجہ سے سبھی کہہ رہے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں  تاہم میں نے ایم بی اے کرنے کا فیصلہ کیا اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے دُبئی میں بینکر کی ملازمت مل گئی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ وہاں بینک ملازمین کو اچھی تنخواہ ملتی ہے۔وہاں جاکر میں نے کم برسوں میں بہت پیسہ کمالیا لیکن میں اس کام سے مطمئن نہیں تھا اور دیگر پیشے میں قسمت آزمانا  چاہتا تھا۔ اسکول کے زمانے ہی سے میری ڈراموں اور اسٹیج شوز میں دلچسپی تھی۔ اسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے میں نے دُبئی کی ملازمت کو الوداع کہہ کر ممبئی آگیا اور شوبز انڈسٹری میں کریئر بنانے کیلئے تگ ودو شروع کردی۔ 
آپ نے شروعات مختصر فلموں سے کی ، کوئی خاص وجہ تھی؟
 ج:مجھے فلم انڈسٹری کے بارےمیں زیادہ معلوما ت نہیں تھی۔جو روپے میں نے دُبئی میں کمائے تھے ان سے پروڈکشن ہاؤس توکھول لیا لیکن ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے میرے پروڈکشن ہاؤس کو اتنی حوصلہ افزائی نہیں ملی جتنی ملنی چاہئے تھی کیونکہ میرے پاس کوئی قلمکار اپنی کہانی بھی نہیں لارہا تھا۔ اس کے باوجود میں نے چھوٹے چھوٹے کچھ کام کئے اور میوزک ویڈیوز بنائے۔ شروعات میں میں نے کارپوریٹ ای ویز بھی بنائی تھی۔ تقریباً ۳؍ سال کے بعد شارٹ فلمیں بنانے کا سلسلہ شروع ہوا اورمیری پچھلی شارٹ فلم میں انوپم کھیر اور اہانہ کومرا نے کام کیا تھا۔  پہلی شارٹ فلم بنانے کیلئے مجھے کافی جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ 
آپ کی فیچر فلم کے بارے میں بتائیں ؟
 ج:میرے پروڈکشن ہاؤس کی پہلی فیچر فلم شروع ہونے جارہی ہے۔ حالانکہ اس کی کہانی وغیرہ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے لیکن اس کی اسٹار کاسٹ کا فیصلہ کیا جانا باقی ہے۔ اس سے قبل جب میںکسی بھی بینرکے پاس اپنی کہانی لے کر جاتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ آپ کہانی فروخت کر دیں ہم کسی اور ہدایتکار  کی مدد سے یہ فلم بنائیں گے ۔  میں نے ان سے کہا کہ جب میرے پاس تجربہ آجائے گا تب میں خود ہی کہانی لے کر آؤں گا۔  چند برسوں تک انتظار کرنے کے بعد اسی بینر کے پاس دوبارہ گیا تو انہوںنے مجھے ہدایتکاری کے فرائض انجام دینے کی اجازت دے دی۔  
فیچر اور شارٹ فلموں میں سے کس میں چیزوں
 کا انتظام کرنا زیادہ مشکل ہوتاہے ؟
 ج:دونوںفلمیں بنانے کا طریقہ ایک جیسا ہوتاہے اور اس کیلئے ایک ہی ٹیم کا استعمال کیاجاتاہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میرے پاس ایک اچھی ٹیم ہے۔ شارٹ فلم میں زیادہ شاٹس نہیں ہوتے ہیں اور وہ کم دنوں میں تیار ہوجاتی ہے۔ اس کے برخلاف فیچر فلم کیلئے ۵۰؍سے ۸۰؍  دنوں کا وقت لگتاہے اورہمیں کسی اداکار سے تاریخ حاصل کرنے کیلئے بہت کوشش کرنی پڑتی تھی۔ دوسری طرف فیچر فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ میں تھوڑی دقت پیش آتی ہے اور ایک بڑی ٹیم کے ساتھ شوٹنگ کرنا آسان نہیں   ہوتاہے۔ 
کیا آپ مستقبل میں اداکاری کا بھی ارادہ رکھتے ہیں ؟
 ج:میں انڈسٹری میں ہدایتکار بننے کی غرض سے آیا تھا اور میںنے اس میں قدم رکھ دیاہے۔ حالانکہ یہ میری شروعات ہے۔ مستقبل میں اگر اداکاری کا موقع ملا تب بھی اس میں قسمت نہیں آزماؤں گا۔ میں ایک ہدایتکارکی حیثیت سے بہت اچھا کررہا ہوں  اور اسے جاری رکھنا چاہتاہوں۔   
مہاراشٹرین ہونے کی نسبت سے کیا آپ مراٹھی انڈسٹری میں بھی کام کرنا چاہتے ہیں؟
 ج:میرے لئے زبان کی حد یا پابندی نہیں ہے۔ میں جنوبی ہند کی زبان کی فلموں میں بھی کام کرنا پسند کروں گا۔میں نے ابھی شروعات کی ہے اور پہلے بہت زیادہ تجربہ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ ہندی زبان کی پہنچ زیادہ ہے اسلئے میںپہلے یہاں کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہوں۔سب سے پہلے اپنی پہلی فیچر فلم کے بارے میں سوچنا اوراسے مکمل کرناہے۔ہاں اگر مستقبل میں  مراٹھی زبان میں اچھی کہانی ملتی ہے اور اچھے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں ضرور کام کروں گا۔ 
فلم شائقین کی سنیما کے تعلق سے سوچ تبدیل ہوئی ہے ؟
 ج:یہ بات بالکل صحیح ہے۔ صرف ہندوستانی فلمی شائقین کے سنیما دیکھنے کا مزاج نہیں بدلا ہے بلکہ عالمی سطح پر شائقین کے مزاج میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ آج سبھی اوٹی ٹی پر شوز اورفلمیں دیکھ رہے ہیں۔ موبائل ہاتھ میں ہونے اور انٹر نیٹ سستا اورفری ہونے کی وجہ سے یہ عوام کی پہنچ میں ہے۔ آج ہندوستانی انڈسٹری میں رومانوی کہانیوں کو بہت کم اہمیت دی جارہی ہے اور وی ایف ایکس جیسی فلموں کو زیادہ دیکھ جارہا ہے۔ مثلاً برہماستر جسےعوام نے پسند کیا ، اس میں بہت زیادہ گرافکس تھی۔ آپ  عالمی سطح پر مارولس کی فلمیں دیکھیں، انہیں بچے سے بڑے سبھی پسند کرتے ہیں۔  
کریئر میں کسی ہدایتکار سے متاثر ہوئے ہیں ؟
 ج: جب میں۹؍ویں جماعت میں تھا تو اس وقت یشراج بینر اور کرن جوہر کی  رومانوی فلمیں ریلیز ہوا کرتی تھیں جو مجھے پسند نہیں تھیں۔ میں انہیں دیکھتا بھی نہیں  تھا کیونکہ ان کی کہانی ایک سی ہوتی تھی۔ اسی دور میں رام گوپال ورما نے روایت سے ہٹ کر فلمیں بنانی شروع کر دیں۔ انہوں نے ستیہ ، کمپنی  اور رنگیلا جیسی کئی فلمیں بناکر ایک الگ سنیماکو پیش کیا۔ اس وقت میں رام گوپال ورما کی ہدایتکاری سے بہت متاثر ہوا تھا  اور ان کی فلمیں دیکھتا تھا کیونکہ اس میں سیکھنے کیلئے بہت کچھ ہوتا تھا۔ حالانکہ حالیہ دنوں میں ان کے رویے میں منفی  تبدیلیاں آئی ہیں۔ آج کے دور میں انوراگ کشیپ اور آدتیہ موٹوانے جیسے غیرروایتی ہدایتکاروں نے حقیقی کہانیوں پر مبنی فلمیں بناکر شائقین کے سنیما کے دیکھنے کے  ذوق و شوق کو برقرار رکھا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK