موجودہ حالات کے پیش نظر احتیاط کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ ’’اخلاقِ محمدیؐ‘‘ کے بغیر ’’جلوس محمدیؐ‘‘ کا نکالا جانا ان کے حق میں خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔
EPAPER
Updated: October 06, 2023, 1:12 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
موجودہ حالات کے پیش نظر احتیاط کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ ’’اخلاقِ محمدیؐ‘‘ کے بغیر ’’جلوس محمدیؐ‘‘ کا نکالا جانا ان کے حق میں خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔
ہندوستان ا قوام متحدہ میں اقلیتی امور کے خصوصی نمائندے فرنانڈیز ڈی وارینس کے یوایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلجیس فریڈم میں دیئے گئے اس بیان کو خارج کرچکا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات اور تشدد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ کوئی بھی ذی شعور ہندوستانی کسی انٹرنیشنل فورم یا عالمی سطح پر ہندوستان کی بدنامی نہیں چاہتا اس لئے وہ ہندوستان کے اس موقف کی حمایت کرے گا۔ ابھی مہاراشٹر کے مسلمانوں نے عیدمیلادالنبیؐ پر نکالے جانے والےجلوس کی تاریخ ایک دن آگے بڑھاکر اور مہاراشٹر کی حکومت خصوصاً وزیراعلیٰ شندے نے جلوس کے دن چھٹی کا اعلان کرکے جس ہوشمندی کا معاملہ کیا ہے اس کی ہر طرف ستائش ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت چاہے تو بڑے سے بڑے ٹکراؤ کو ٹالا جاسکتا ہے مگر حکومت عموماً ایسا نہیں کرپاتی کہ یہاں کچھ جرائم پسندوں اور سیاستدانوں کو یقین ہے کہ ان کے اقتدار کا استحکام اس صورت میں ممکن ہے جب یہاں سماجی اور سیاسی استحکام نہ ہو۔ نفرت کی آندھی بھی اسی مقصد سے چلائی جاتی رہی ہے۔ لوک سبھا میں ایک رکن پارلیمان اورکشی نگر میں عیدمیلادالنبیؐ کے جلوس کے ساتھ جو ہوا وہ بھی اسی مقصد سے تھا۔
یہ تو ہوئی بات دوسروں کی ، مسلمانوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ ’اخلاق محمدی‘ کے بغیر جلوس محمدی کا نکالا جانا ان کے حق میں خطرناک نتائج کا حامل ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقت اس سال زیادہ شدت سے محسوس اس لئے ہوئی کہ راقم الحروف نے جمعہ (۲۹؍ ستمبر) کو اپنے گھر کے پاس جس مسجد میں نماز جمعہ ادا کی اس مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے بھی گیا۔ جمعہ سے پہلے کی تقریر میں امام صاحب نے تاکید کی تھی کہ جلوس میں شور شرابہ اور گاجا باجا نہ ہو بلکہ پوری شائستگی سے درود شریف پڑھتے ہوئے جلوس میں شرکت کی جائے مگر عملاً ہوا یہ کہ حسب معمول جلوس میں وہ شور شرابہ اور گاجا باجا شروع ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
نماز کے بعد ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا علماء کی آواز اور اپیل سب رائیگاں جارہی ہے؟راقم نے انہیں تو یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ علماء کی آواز موثر ہوتی تو بے نمازی مسلمانوں کی وہ تعداد نہ ہوتی جو ہے مگر دل سے یہ آواز آتی رہی کہ بے شک مسلمانوں کی جلوس محمدی سے جو وابستگی ہے وہ اخلاق محمدی سے نہیں ہے۔ اخلاق محمدی سے ان کی عملی وابستگی ہوتی تو جلوس محمدی کی تاریخ کو ایک دن آگے بڑھانے کے مسلمانوں کے فیصلے اور جلوس کے دن سرکاری چھٹی کے احکام کا ان کو فائدہ پہنچتا، مگر جلوس کے جاری رہتے جس قسم کا سوال پوچھا جارہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ذہنی آلودگی جو پہلے تھی وہی اب بھی ہے۔
یہ ذہنی آلودگی دورکیسے ہوگی؟ سیرت نبویؐ اور اخلاق محمدی ؐ کو عام کرنے کے جو پلیٹ فارم تھے وہ تو ایک کے بعد ایک ختم ہوتے جارہے ہیں ۔ یہ موقع تھا جب دنیا کو بتایا جاتا کہ حضورسرکاردوعالمؐ نے بنی نوع انسان کیلئے عموماً اور خواتین، مزدور، پسماندہ طبقات، غلام اور محکوم طبقوں کی فلاح کیلئے کتنے اہم کام کئے۔ یہ بھی بتایاجاتا کہ حضور سرکاردوعالمؐ نے انسانی اخوت اور پڑوسیوں سے حسن سلوک پر جس طرح اصرار کیا ہے انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حضورؐ نے جب ہجرت فرمائی تو مدینہ میں وہی مسائل درپیش تھے جو آج ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش ہیں مثلاً جان ومال کے تحفظ کا مسئلہ ، ثقافتی تشخص کا مسئلہ اور معاشی خوشحالی لانے کا مسئلہ ۔ مگران مسائل پر اظہار خیال تو دور سماجی اقتصادی مسائل کو سیرت نبویؐ کی روشنی میں حل کرنے کی تحریک بھی کم ہی دی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اصلی اور نقلی جو فرد جرم عائد کی جاتی ہے اس کا علم بھی ان لوگوں کی تحریکوں سے ہوتا ہے جو مسلمان ہونے کے مدعی نہیں ہیں ۔ وہی لوگ ان الزامات کی تردید بھی کرتے ہیں جو مختلف سطح پر مختلف گوشوں سے عائد کئے جاتے ہیں ۔ مسلمانوں میں جو لوگ اچھے کام کررہے ہیں ہم ان کے مداح ہیں مگر شہرت پسندی، گروہ بندی اور ہنگامہ پروری کی اس وبا سے بھی واقف ہیں جو ان میں پھیلی ہوئی ہے۔ اسلام نے گداگری کا انسداد اور ضرورتمندوں اورمحتاجوں کی کفالت کا حکم دیا ہے مگر عملاً ہویہ رہا ہے کہ گداگری کو اپنا پیشہ بنالینے والوں کی تعداد اور خوشحالی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک مخصوص وضع قطع محض اس لئے بنارکھی ہے کہ اس سے جھولی بھرنے میں مدد ملتی ہے۔ کفالت کا تصور ایک طبقے میں ختم ہوتا جارہا ہے اور دوسرے طبقے میں بے کام کئے ہوئے بہت کچھ پانے سے لیا جارہا ہے۔ مسلمانوں میں مدارس وجامعات کا جال پھیلا ہوا ہے، کچھ تنظیمیں اچھے کام بھی کررہی ہیں مگریہ بتانے والی شاید ہی کوئی تنظیم یا جماعت ہوکہ مسلمانوں میں واقعی کیا برائیاں ہیں اور فرد جرم میں کیا کیا جھوٹ ہے۔
ایسے لوگوں کی تعداد بھی بہت بڑھ رہی ہے جو سیرت کے جلسوں اورجلوسوں کو اپنی عقیدت کے اظہار یا اعمال میں سدھار کیلئے استعمال نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو اپنی مقبولیت کا فوٹو دکھاسکیں ۔ اس مضمون کا مطلب یا مقصد کسی کو معتوب کرنا نہیں بلکہ یہ احساس دلانا ہے کہ اخلا ق محمدی سے محرومی نے ہمیں کتنی پستیوں تک پہنچا دیا ہے۔ اب عقیدت و محبت کے اظہار کے جلسے جلوس بھی جگ ہنسائی کا موجب بننے لگے ہیں ۔ جو لوگ ایسے جلسے جلوس پر انگلی اٹھاتے ہیں ان سے بھی یہی گزارش کی جاسکتی ہے کہ انگلی اٹھانے کے بجائے اپنا کردار وعمل درست کریں ، معاشرہ خود بخود سدھرتا جائے گا۔ ہم ہرکام کو بدعت بھی نہیں کہتے مگر نجات، سنت کی اتباع واشاعت میں سمجھتے ہیں ۔ مسلمانوں سے یہ پوچھنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کیا انہیں خبر ہے کہ وہ کون لوگ اور کون سی تنظیمیں ہیں جو ان کی تاریخ اور اچھے کردارکو داغدار کرنے والوں کو لاجواب کردینے والا جواب دے رہی ہیں اور کیا انہیں خبر ہے کہ سویڈن کے جس مقام پر قرآن حکیم کو جلانے کی مذموم حرکت کی گئی تھی چند عرب نوجوانوں نے جگہ خرید کر وہاں مسجدبنانے اور صدائے تکبیر بلند کرنے کا آغاز کردیا ہے۔ مذموم فعل کا موثر جواب یہی ہے، عیدمیلادالنبیؐ کے جلوس میں ڈی جے بجانا نہیں ۔