• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

سر پھوڑنے کی نہیں سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت

Updated: December 22, 2023, 1:06 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

وزیراعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں پارلیمنٹ کی سیکوریٹی میں چوک کو تشویشناک قرار دیا ہے مگر یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں کہا سنی نہ کی جائے بلکہ اسپیکر کے کئے گئے اقدامات پر توجہ دی جائے۔

Yesterday, yellow gas was released in the house, due to which yellow smoke spread everywhere. Photo: INN
گزشتہ روز ایوان میں پیلی گیس چھوڑ دی گئی جس سے ہرطرف پیلے رنگ کا دھواں پھیل گیا۔ تصویر : آئی این این

پارلیمنٹ کی ’وزیٹرس گیلری‘ سے کودنا اور دھواں  پھیلانا کوئی ایسا واقعہ نہیں  ہے کہ اس کو پارٹی مفاد کے حوالے یا ’’مَیں  اور تو‘ کی عینک سے دیکھا جائے۔ یہ پوری ہندوستانی قوم کا مسئلہ ہے اور اس کو پارٹی وابستگی سے اوپر اٹھ کر دیکھنا چاہئے۔ ابتدا میں  ہوا بھی یہی، سیکوریٹی عملہ، حکمراں  جماعت کے لوگ تو حرکت میں  آئے ہی، اپوزیشن کے اراکین بھی گیلری سے کودنے والے جوانوں  کو پکڑنے اور سیکوریٹی کے حوالے کرنے میں  منہمک رہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر نے بیان دیا کہ مَیں  کسی کو الزام نہیں  دیتا، لوگوں  نے بھی محسوس کیا کہ حکمراں  اور اپوزیشن کے اراکین ایک دوسرے کے رابطے میں  ہیں  اور مل جل کر میڈیا کو واقعے کی تفصیل بیان کر رہے ہیں  مگر ایک دن بھی نہیں  گزرا تھا کہ منظرنامہ بدل گیا اور ایسے بیانات دیئے جانے لگے جن کا تعلق پارلیمنٹ کی سیکوریٹی میں  ہوئی چوک سے کم اور دوسری باتوں  سے زیادہ تھا۔ اپوزیشن نے وزیر داخلہ کے بیان پر اصرار کیا اور حکمراں  جماعت نے اسپیکر کے توسط سے ۱۴؍ اراکین کو پارلیمنٹ سے معطل کرا دیا۔ ۱۸؍ دسمبر کو بھی ۷۸؍ اراکین معطل کئے گئے اور اس طرح معطل اراکین کی تعداد ۹۲؍ ہوگئی۔ تیسرے دن بھی یہی ہوا یعنی منتخب اراکین جنہیں  پارلیمنٹ میں  عوام کی نمائندگی کے لئے بھیجا گیا ہے معطل کئے جاتے رہے۔ کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ اور جمہوریت کا کیا تصور ہے۔ جس معاملے میں  اراکین کو معطل کیا گیا ہے وہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں  تھا کہ اس کو طول دیا جاتا۔ وزیر داخلہ یہی کہہ دیتے کہ اپوزیشن قبل از وقت بیان دینے پر اصرار کر رہا ہے تو بھی معاملہ اتنا نہ بگڑتا۔
 اخبارات کے ذریعہ عام ہندوستانیوں  تک جو اطلاعات پہنچی ہیں  وہ یہ ہیں  کہ کچھ نوجوان بے روزگاری، منی پور تشدد اور مہنگائی کی طرف لوگوں  کی توجہ یا حکومت کی توجہ مبذول کرانا چاہتے تھے اس لئے انہوں  نے یہ حرکت کی۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر ہمیں  نہیں  بھولنا چاہئے کہ اچھے مقاصد کے لئے بھی برا لائحہ عمل اختیار کرنا اچھے نتائج کا حامل نہیں  ہوسکتا اس لئے یہ کہنا غلط نہیں  کہ اگر واقعی پارلیمنٹ کی گیلری سے کودنے والوں  کے پیش نظر وہی مقاصد تھے جن کا وہ اظہار کر رہے ہیں  تو بھی انہوں  نے غلط کیا۔
 پولیس نے پٹیالہ ہاؤس کی عدالت میں  جو بیان دیا ہے وہ تو اور زیادہ خطرناک ہے۔ پولیس کے مطابق للت جھا کے پاس ’پلان بی‘ بھی تیار تھا جس کے ذریعہ اس کے مہرے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جو ملزمین گرفتار ہوئے ہیں  انہوں  نے واقعے سے پہلے کئی میٹنگیں  بھی کی تھیں ۔ وہ ملک میں  انتشار پھیلانا چاہتے تھے۔ للت جھا پوری سازش کا ماسٹر مائنڈ تھا اور اس نے دوسرے ملزمین کا موبائل لے کر بھی تباہ کر دیا تھا تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ بچے۔ اسی مقصد سے جے پور سے دہلی جاتے ہوئے اپنا موبائل بھی راستے میں  پھینک دیا تھا۔ ملزمین نے پارلیمنٹ میں  کودنے کے لئے جس دن کا انتخاب کیا تھا وہ بھی ایک سوال ہے۔ جوتوں  کے ذریعہ دھواں  پھیلانے کے لئے جو تکنیک استعمال کی گئی وہ کسی عام آدمی کی سوچ کا نتیجہ نہیں  ہوسکتی اس لئے اگر پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں  اس سمت میں  تحقیق و تفتیش کر رہی ہیں  کہ کہیں  ان کا تعلق کسی دہشت گرد تنظیم سے تو نہیں  یا بنگال پولیس یہ تفتیش کر رہی ہے کہ للت جھا کا این جی او کہیں  ماؤ وادیوں  سے تو تعلق نہیں  رکھتا تو دونوں  بہت صحیح کر رہی ہیں ۔ ان کو جانچ کرنا ہی چاہئے بس یہ دیکھنا اور ہر پل خیال رکھنا ضروری ہے کہ سیاسی دباؤ یا مفاد میں  یہ تفتیش کوئی خاص رخ نہ اختیار کرلے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ چونکہ وزیٹرس گیلری تک پہنچنے اور وہاں  سے نیچے کودنے والے میسور سے حکمراں  پارٹی کے رکن پارلیمنٹ کے دلائے ہوئے پاس کے ذریعہ وہاں  پہنچے تھے اس لئے تفتیش میں  نرمی برتی جائے۔
 وزیراعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں  پارلیمنٹ کی سیکوریٹی میں  چوک کو تشویشناک قرار دیا ہے مگر یہ بھی کہا ہے کہ اس معاملے میں  کہا سنی نہ کی جائے بلکہ اسپیکر کے کئے گئے اقدامات پر توجہ دی جائے۔ یہ معتدل بات ہے مگر یہی بات وزیر داخلہ پارلیمنٹ میں  کہہ دیتے تو کیا حرج تھا۔ اس کو اَنا کا مسئلہ بنانے اور کچھ اراکین پارلیمنٹ کو معطل کئے جانے سے شبہ ہو رہا ہے کہ کہیں  کسی کو بچانے اور کسی کو پھنسانے کی کوشش تو نہیں  کی جا رہی ہے؟ شبہات کو بڑھانے میں  وہ دھمکیاں  بھی مدد کر رہی ہیں  جو ملک سے باہر بیٹھے ’دہشت گردوں ‘ نے پارلیمنٹ اڑانے سے متعلق دی تھیں ۔ پہلے بھی ملک کی پارلیمنٹ پر حملہ ہو چکا ہے۔
 جو نوجوان پارلیمنٹ میں  کودے اگر کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہیں  رکھتے یا کسی بیرونی ملک سے ان کو امداد نہیں  ملتی تب بھی ہر صورت ان کو سزا بھگتنا ہے لہٰذا یہ سوچنا غلط ہوگا کہ مسائل سے دو چار نوجوانوں  نے اضطراری طور پر اس خطرناک حرکت کا ارتکاب کر لیا ہوگا۔ اس حرکت کے پس پردہ ایک منصوبہ بند ذہن اور سوچ کو عمل میں  بدلنے والی مشینری موجود ہوسکتی ہے۔ پولیس نے اس دکان تک راہ بنا لی ہے جہاں  سے نوجوانوں  نے دھواں  چھوڑنے والے جوتے خریدے تھے۔ بے روزگار نوجوان بارہ سو روپے کا جگاڑ کیسے کرسکتے ہیں  جن سے جوتے خریدے جاسکیں ؟
 ان تمام سوالات پر سنجیدگی سے ہی غور کیا جاسکتا ہے لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں  سے یہ درخواست کی جاسکتی ہے کہ یہ وقت ایک دوسرے کا سر توڑنے کا نہیں  آپس میں  سر جوڑ کر بیٹھنے اور غور کرنے کا ہے کہ کون ہندوستان کی جمہوریت اور سب سے بڑے جمہوری ادارے کو تباہ کرنے کے در پے ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK