فوجی کارروائی میں اب تک ہزاروں بے گناہ فلسطینی مارے جاچکے ہیں، جبکہ ان افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جو زخمی ہیں یا بے گھر ہوچکے ہیں۔
EPAPER
Updated: October 15, 2023, 1:06 PM IST | Jamal Rizvi | Mumbai
فوجی کارروائی میں اب تک ہزاروں بے گناہ فلسطینی مارے جاچکے ہیں، جبکہ ان افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جو زخمی ہیں یا بے گھر ہوچکے ہیں۔
اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی فوج کا جو رد عمل سامنے آیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اس جنگ کو دانستہ طور پر یہ شکل دینا چاہتا تھا۔ حماس کے خلاف انتقامی کارروائی کے نام پر اسرائیل جس طرح غزہ پر پے در پے حملے کررہا ہے، اس سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ اسرائیل اس جنگ کے بہانے غزہ کو پوری طرح اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے۔اس مقصد کے حصول کیلئے نیتن یاہو نے غزہ کے عوام کو جس انتہائی انسانیت سوز حالات میں پہنچا دیا ہے، اسے محض حماس کے حملے کا رد عمل نہیں کہا جا سکتا۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان اس حالیہ فوجی کارروائی سے قبل بھی غزہ کے حالات اطمینان بخش نہیں تھے۔ پوری دنیا میں حقوق انسانی کے تحفظ کیلئے کوشاں افراد اورتنظیمیں پہلے ہی غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قر ار دے چکے ہیں ۔ غزہ کی اس انتہائی ابتر صورتحال کو اس طور سے بیان کرنے والی تنظیموں اور اداروں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اس وقت یا تو کسی مصلحت کی بنا پر غزہ کے حق میں کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے یا اشاروں کنایوں میں اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں امن و انصاف کے نام پر جو بھی اقدامات کئے جارہے ہیں ان میں شفافیت بس اس حد تک ہی ہے جو ان اقدامات کی پہل کرنے والوں کے مفادات کو یقینی بنا سکے۔
فلسطین اسرائیل تنازع کے بعد سے اب تک ان ملکوں کے درمیان امن و انصاف کے نام پر جو بھی اقدامات ہوئے ان میں بھی ذاتی مفاد کے اس رنگ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ یہودیوں کو اس خطے پر آباد کرنے میں اقوام متحدہ سمیت مغرب کی وہ تمام طاقتیں شامل تھیں جو دنیا کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق چلانے پر یقین رکھتی ہیں لہٰذا انھوں نے بڑی عیاری کے ساتھ اس خطے میں یہودیوں کی آبادکاری کیلئے زمین کی تقسیم کا طرز اختیار کیا۔ اس کے نتیجے میں اس خطے میں ایسے سنگین حالات کا پیدا ہونا فطری ہے۔اس وقت حماس کے جنگجوؤں کے خلاف محاذ آرائی کے نام پر اسرائیل نے جس طرح غزہ کا قلع قمع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہے اسے کسی بھی طرح مناسب نہیں کہا جا سکتا۔اس کی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں بے گناہ فلسطینی مارے جاچکے ہیں اور ان اموات سے کہیں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو یا تو شدید طور پر زخمی ہیں یا اپنے گھربار سے محروم ہو گئے ہیں۔ غزہ کی جو تشویش ناک صورتحال سامنے آرہی ہے اس کا ذکر کرنے کا مقصد حماس کی کارروائی کیلئے جواز فراہم کرنا نہیں ہے۔ بلاشبہ حماس کی جارحانہ کارروائی بھی مہذب دنیا میں امن و انصاف کی فراہمی کی راہ کو پیچیدہ بنانے والی تھی لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس پیچیدگی میں غزہ کے بے گناہ عوام پھنس گئے ہیں اور دنیا میں انصاف کے علمبرداروں کے اندر وہ حوصلہ نہیں جو بغیر کسی جانبداری کے اس پورے معاملے میں اپنا موقف ظاہر کرسکیں۔
فلسطین اسرائیل تنازع کو جزوی طور پر یا مخصوص اوقات میں کئے گئے مخصوص اقدامات کے تناظر میں دیکھنے سے نہ تو معاملے کی اصل نوعیت واضح ہو سکتی ہے، نہ ہی یہ اندازہ ہوگا کہ گزشتہ تقریباً ۷۵؍ برس سے جاری اس تنازع میں زیادہ خسارہ کسے اٹھانا پڑا؟ جب تک ان بنیادی سوالوں کا غیر جانب داری کے ساتھ جائزہ نہ لیا جائے تب تک کسی ایک کے متعلق کوئی فیصلہ یا رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ سے زیادہ تباہ کن صورتحال اس ناقص اور خام جانکاری کے سبب پیدا ہو رہی ہے جس میں تاریخی حقائق کے بجائے مصنوعی معاملات کو حتمی سچائی کی شکل دے دی گئی ہے۔ اس جنگ پر اپنی فکرمندی کا اظہار کرنے والی دنیا کی آبادی کا بڑا حصہ اسی مصنوعی سچائی کے دام میں الجھا ہوا ہے ۔ یہ الجھاؤ اس قدر سخت ہے کہ امن اور انصاف کے ان نام نہاد نمائندوں کو غزہ میں مچی تباہی کے مناظر نہیں نظر آرہے ہیں ، نہ ہی وہاں کے بے گناہ عوام کی اس ابتر صورتحال سے انھیں کوئی سروکار ہے جس صورتحال پر انسانیت بھی شرمسار ہے۔
عالمی سطح پر امن و انصاف کا نعرہ بلند کرنے والی قوتیں بھی اس وقت مصلحت آمیز رویہ ظاہر کر رہی ہیں ۔ اس رویے سے نہ تو انصاف کی فراہمی ممکن ہے، نہ ہی قیام امن کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔امن و انصاف کو یقینی بنانے کیلئے ضروری یہ ہے کہ جارحیت اور تشدد کی پرزور مخالفت کی جائے تواور جو لوگ اس جارحیت کی زد پر ہوں ان کی حمایت کی جائے۔اگر اس تناظر میں اس جنگ کے متعلق عالمی سطح پر ہونے والے رد عمل کا جائرہ لیا جائے تو انتہائی افسوس کے ساتھ یہ ماننا پڑے گا کہ عالمی برادری ان سنگین حالات میں بھی اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جو حملے ہو رہے ہیں اور وہاں کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق جس انداز میں سلب کر لئے گئے ہیں ، ان پر کوئی یہ کہنے کی جرأت نہیں کر رہا ہے کہ غزہ کے خلاف اسرائیل کی یہ کارروائی عالمی قوانین کی رو سے بھی درست نہیں ہے۔غزہ کے عوام صرف صہیونی فوجی کارروائی کا ہی ہدف نہیں بن رہے ہیں بلکہ وہ زندہ رہتے ہوئے بھی موت سے بدتر زندگی جینے کو مجبور ہیں۔ جو لوگ بجلی ، پانی ، غذا اورخوراک سے محروم ہوں ان کی زندگی کس اذیت میں گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔
اس جنگ کے متعلق میڈیا کے ایک طبقے نے ٹی آر پی بڑھانے کے چکر میں اپنی نشریات کو پیش کرنے کا جو طرز اختیار کر لیا ہے وہ عالمی سطح پر کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا کر رہا ہے ۔مفاد پرست میڈیا کی جانب سے جو کچھ دکھایا جارہا ہے اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر عالمی سیاسی سازش کے تحت پناہ گزیں بن کر آنے والے یہودیوں پر ہمیشہ ظلم ہوتا رہا ہے اور وہ اب تک انصاف سے محروم ہیں ۔ فلسطین اسرائیل تنازع سے متعلق اس خام اور بے بنیاد تصور کو جس طرح تاریخی حقیقت بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے وہ بھی مضحکہ خیز ہے ۔اس خطہ پر بسنے کے بعد سے اب تک یہودیوں کی بس یہی کوشش رہی ہے کہ رفتہ رفتہ پورے خطہ پر اپنا قبضہ جما لیا جائے ۔ اب تک فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جو بھی امن معاہدے ہوئے ان میں سے بیشتر کی خلاف ورزی اسرائیل کی جانب سے ہوئی۔ اس ضمن میں حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کی ان حرکتوں پر امن و انصاف کے جھنڈابرداروں نے کوئی سخت موقف نہیں اختیار کیا۔
عالمی سیاسی بساط پر اپنی بلند قامتی کا رعب دکھانے والی طاقتوں کو اس تنازع میں اپنا سیاسی مفاد تلاش کرنے کے بجائے اس خطے پر بسنے والوں کی حقیقی فلاح و بہبود کیلئے فکر مند اورکوشاں ہونے کی ضرورت ہے۔یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی لہٰذا ہتھیاروں کے بل پر انصاف کی فراہمی اور قیام امن پر یقین رکھنے والوں کے اقدامات کی زد پر وہ بے گناہ عوام ہی بیشتر آتے ہیں جو اپنی زندگی کو واقعی امن اور سکون کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں ۔اس وقت غزہ میں ایسے ہزاروں لوگ بے بسی اور بیچارگی کے عالم میں زندگی گزار رہے ہیں جنھیں نہ تو پیٹ بھر غذا مل رہی ہے اور نہ ہی پینے کا پانی میسر ہے۔ اسرائیل نے اس خطے پر جس تیور کے ساتھ حملہ شروع کیا ہے اس میں مزید شدت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورت میں جنگ کا نتیجہ جو بھی نکلے یہ تو طے ہے کہ اس سے انصاف اور امن کے اس تصور کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا جس تصور میں کسی بھی تعصب اور جانب داری کی گنجائش نہیں ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جس تنازع کا آغاز آج سے ۷۵؍ برس پہلے ہوا تھا اس میں ان عناصر کی آمیز ش اس قدر روز افزوں رہی ہے کہ اب اسے بہ آسانی حل کر پانا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ عالمی طاقتیں اس تنازع کے حوالے سے اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے کو ترجیح دیتی رہی ہیں اور اس میں عرب و غیر عرب سب کسی نہ کسی طور سے شامل رہے ہیں ۔ فلسطین اور اسرائیل کی مقتدر شخصیات اور عالمی قوتیں جب تک یہ محسوس نہیں کریں گی کہ اس خطے میں جو بدامنی گزشتہ کئی دہائیوں سے برقرار ہے اس کی زد پر آنے والے عوام بے گناہ ہیں جو اپنی جان و مال اور بعض اوقات اپنے پورے خاندان کی تباہی سے دوچار ہونے کو مجبور ہیں ، تب تک اس مسئلے کا کوئی ایسا موزوں حل نہیں نکل سکتا جس کی بنا امن اور انصاف کا دعویٰ کیا جا سکے۔