عصری تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے طلبہ کو ضرور آگاہ کریں۔
EPAPER
Updated: December 22, 2023, 1:17 PM IST | Allama Ibtisam Elahi Zaheer | Mumbai
عصری تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے طلبہ کو ضرور آگاہ کریں۔
تعلیمی ادارے جو انسان کو علم سکھاتے ہیں ‘ ان میں دینی تعلیم سکھانے والے اداروں کا مقام اس اعتبار سے بلند ہے کہ وہ ایسے علم کی ترسیل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی سے متعلق ہے جبکہ دنیاوی علوم کو سمجھنا اس اعتبار سے لازم و مفید ہے کہ ان کے ذریعے انسان دنیاوی امور کو احسن طریقے سے سرانجام دے پاتا ہے۔ دینی اداروں کا کام جہاں علم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا ہے وہیں علم کے تقاضوں کو پورا کرنا اور طالب علموں کی تربیت کرنا بھی ان اداروں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اگر ایک دینی ادارے میں قرآن و سنت کی تعلیم تو دی جائے مگر طلبہ کو عمل، خلوص اور ریاکاری سے بچ بچا کر زندگی گزارنے کا راستہ نہ دکھلایا جائے تو سمجھ لیجئے ایسا ادارہ حقیقت میں اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ تعلیمی ادارےجو انسان کو دنیاوی اعتبارسے علم دیتے ہیں اور جہاں معاشرتی اور عمرانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کے حوالے سے طلبہ تک علم کی ترسیل کی جاتی ہے اُن اداروں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قرآن و سنت کی ان تعلیمات سے اپنے طالب علموں کو ضرور آگاہ کریں جن کا تعلق انسان کو ایک بہتر انسان بنانے سے ہے۔ اگر کوئی انسان دینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ تو ہو لیکن وہ علم کے تقاضوں کو پورا کرنے کے بجائے غلط راستے پہ چل نکلے اور غرور، تکبر، ریاکاری اور خود پسندی کا شکار ہو جائے تو ایسے تعلیمی ادارے کو کسی بھی طور پر مثالی تعلیمی ادارہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مثالی تعلیمی ادارے کی ذمہ داری جہاں انسان کو اچھے اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرنا ہے وہیں شرم و حیا کی دعوت دینا اور اس حوالے سے اس کی راہ نمائی کرنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ جب ہم شرم و حیا کے حوالے سے کتاب و سنت کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو حیا کا وصف بہت زیادہ پسند ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کی سورۂ بنی اسرائیل میں اس امر کا اعلان فرمایا ’’خبردار! زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ النور کی آیت نمبر ۱۹؍ میں ارشاد ہوا’’جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مندرہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔‘‘ سورۃ النور ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کا ارتکاب کرنے والوں کیلئے سنگین نوعیت کی سزا کا ذکر کیا ہے اور غیر شادی شدہ بدکار مرد اور عورت کے لئے سو کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جہاں برائی کا ارتکاب کرنے والے مرد اور عورت کا ذکر کیا وہاں قوم لوط کے فعل شنیع کا بھی ذکر کیا کہ جن کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس لئے تباہ و برباد کر دیا تھاکہ وہ ہم جنس پرستی جیسے گناہ کا ارتکاب کیا کرتے تھے، اُن پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی تھی جو ان کی ہلاکت کا سبب بنی۔
تعلیمی اداروں کا مقصد انسانوں کے کردار کو بہتر بنانا، ان کو اخلاقی اقدار کا پابند بنانا اور شرم و حیا کے راستے پر چلانا ہے۔ احادیث مبارکہ میں شرم و حیا کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ سنن ابوداؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں وعظ کر رہا تھا، اس پر آپﷺ نے فرمایا’’اسے چھوڑ دو، بلاشبہ حیا ایمان سے ہے۔‘‘
آیات ِ قرآنی اور احادیث مبارکہ سے یہ سمجھناکچھ مشکل نہیں کہ حیا کی کس قدر اہمیت ہے لیکن بدنصیبی سے ہمارے معاشرے میں اس وقت تعلیمی اداروں میں تعلیم تو کسی حد تک دی جا رہی ہے مگر تربیت کے معاملے میں بہت زیادہ کوتاہیوں کامظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ اس طرف توجہ دینا ضروری ہے۔