اس سال ہندوستان سمیت کئی ممالک میں کسی نہ کسی سطح کے انتخابات ہیں ، ان میں عوام کے پاس موقع ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی آمریت پر روک لگانے کا فیصلہ کریں۔
EPAPER
Updated: April 02, 2024, 4:27 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai
اس سال ہندوستان سمیت کئی ممالک میں کسی نہ کسی سطح کے انتخابات ہیں ، ان میں عوام کے پاس موقع ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی آمریت پر روک لگانے کا فیصلہ کریں۔
عالمی طور پر کئے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں دنیا کے ۲۵؍ممالک میں ہونے والے الیکشن کم آزادانہ اور کم منصفانہ تھے۔ دنیا جمہوریت کی طرف بڑھ رہی ہے یا مطلق العنانی کی طرف، اس حوالے سے جو ڈیٹا آیا ہے اسے ہم پریشان کن کہہ سکتے ہیں۔ جرمنی کی بیرٹلز مان فاؤنڈیشن کے تازہ ترین مطالعے کے نتائج تسلی سے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ اس نئی اسٹڈی کے نتائج کے مطابق پچھلے ۲۰؍ برسوں میں دنیا کے ۱۳۷؍ ممالک میں جمہوریت کا معیار گرا ہے۔ یہ تمام ممالک ایسی ریاستیں ہیں جنہیں ترقی پذیر یا ابھرتی ہوئی معیشتیں کہا جاتا ہے۔ ان ۱۳۷؍ ممالک میں سے آج ۶۳؍ جمہوریتیں ہیں اور ۷۴؍خود پسند حکمرانوں والی ریاستیں۔ اس رپورٹ کے مطابق مطلق العنان حکمران اپنے اقدامات کے دفاع میں یہ دعوے کرتے ہیں کہ جمہوری طریق کار بہت پیچیدہ اور سست رفتار ہوتے ہیں اور جمہوری طور پر منتخب حکومتیں بہت غیر لچک دار۔ ایسے حکمرانوں کا یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے کہ دراصل ان کے ممالک عالمی سطح پر صحت مند مقابلے میں انہی جمہوری طریقوں اور جمہوری حکومتوں کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس سروے کو تیار کرنے والی ٹیم کے مطابق خود پسند حکمرانوں کے ایسے دعوے غلط اور بے بنیاد ہیں کیونکہ جمہوریتوں کو مناسب انداز میں کام کرنے کا موقع دیا جائے تو وہ آمریت کے طرز حکومت والی ریاستوں کے مقابلے میں بہتر ثابت ہوتی ہیں۔ اس سروے کا ذکر ہم نے محض اس مقصد سے کیا کہ اس سال پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں انتخابات ہونے والے ہیں جن میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جہا ں جمہوریت پھل پھول رہی ہے تو وہ ملک بھی ہیں جہاں جمہوریت تو ہے لیکن رجحان آمریت کی طرف غالب ہے۔
یہ بھی پڑھئے: شہریت ترمیمی قانون بی جے پی کیلئے ماسٹر اسٹروک یا گلے کی ہڈی؟
دنیا میں جمہوریت کا نظام نافذ ہوئے ۱۰۰؍ یا ۱۲۰؍ سال ہی ہوئے ہیں۔ ہر چند کہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ اور یورپ کے کچھ ممالک میں جمہوریت ۱۹؍ ویں صدی میں ہی آچکی تھی لیکن اسے پوری دنیا میں قبولیت گزشتہ صدی میں ہی حاصل ہوئی اور یہ طرز حکومت کافی پھل پھول گیا لیکن اب مطلق العنانی دوبارہ سر اٹھارہی ہے۔ اس سے وہ ممالک بھی مستثنیٰ نہیں ہیں جہاں جمہوریت کا ہی دور دورہ ہے۔ جن ممالک نے اپنے ہاں قانون کی حکمرانی اور بہتر حکومتی فیصلوں کے ساتھ اپنے اپنے جمہوری نظام کو بہتر بنایا ہے ان میں جنوبی کوریا، کوسٹا ریکا، چلی، یوروگوئے، برازیل، متعدد یورپی ممالک اورکئی ایشیائی ممالک شامل ہیں۔ و ہاں بہتر سیاسی تبدیلیاں جمہوریت کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیم، صحت عامہ اور معیار زندگی کے شعبوں میں بھی واضح بہتری کا باعث بنی ہیں لیکن ان کے مقابلے میں وہ جمہوریتیں بھی ہیں جہاں کہنے کو تو جمہوری نظام ہے لیکن طرز عمل مطلق العنانیت کی طرف غالب ہے۔ اس میں ہم ہندوستان کی مثال بھی لے سکتے ہیں جہاں جمہوری طور پر منتخب حکومت نے ہر اس جمہوری ادارے کونقصان پہنچایا ہے جو جمہوریت کی بنیاد مضبوط کرنے میں اہم رہا ہو۔ ان میں الیکشن کمیشن، عدلیہ، تفتیشی ادارے، معاشی ادارے، تعلیمی ادارے، تعلیمی نصاب اور میڈیا شامل ہے۔ ان سبھی کو ایک ساتھ متاثر کرنے کی مہم تقریباً ہر اس ملک میں چلائی جارہی ہے جہاں پر جمہوریت مضبوط ہے لیکن کوئی سیاسی جماعت یا گروہ اسے ختم کرکے اپنا طرز حکومت نافذ کرنا چاہتا ہے۔
جمہوریت کو متاثر کرنے کے لئے ہر ملک میں کوئی نہ کوئی ایسی تنظیم اور ایسا فیکٹر ہوتا ہے جو اس طرز حکومت کوختم کرنے پر ہمیشہ آمادہ رہتا ہے۔ اس کے خود ساختہ افکار و نظریات کی بنیاد پر ایسے افراد تیار کئے جاتے ہیں جو جمہوریت کو بس برائے نام باقی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا میں انہیں جمہوری طور پر منتخب سربراہ کے طور پرقبولیت مل جائے اور وہ ہر وہ کام جائز ٹھہراسکیں جس سے جمہوریت کی بیخ کنی ہوتی ہو۔ ہندوستان میں یہ طرز حکومت گزشتہ ۱۰؍ سال سے قائم ہے اور وہ تنظیم یا فیکٹر جو جمہوریت مخالف ہے اسے آر ایس ایس کا نام دیا جاسکتا ہے۔ اس دوران سب سے پہلے میڈیا کو پنجرے میں قید کیا گیا۔ یہاں ایسے افراد کو بٹھایا گیا ہے جو سرکاری ’بھونپو ‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ انہیں سرکاری اشتہارات کے ساتھ ساتھ وہ تمام مراعات دی جاتی ہیں جن سے ایک عام صحافی یاغیر جانبدار نیوز چینل مستفید ہونےکا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں ! میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی جال پھینکا جاتا ہے۔ اس پر قابو پانا زیادہ آسان ہوتا ہے لیکن سوشل میڈیا دو دھاری تلوار بھی ہے کیوں کہ اس کا استعمال جہاں اپنے فائدہ کیلئے ہوسکتا ہے وہیں اسے استعمال کرکے نقصان بھی پہنچایا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا اور نیوز میڈیا کے قابو میں آنے کے بعدتفتیشی ایجنسیوں کو دام میں لایا جاتا ہے۔ یہ ادارے ویسے بھی ایگزیکٹیو کے زیر اثر ہوتے ہیں اس لئے انہیں آسانی سے اپنا دست نگر بنالیا جاتا ہے۔ قابو میں کرنے کے بعد انہیں جس پر جب چاہے تھوپ دیا جاتا ہے۔ ان کی کارروائیاں کافی اثر انداز ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے پاس قانون کاڈنڈا ہوتا ہے جسے یہ جب چاہے کسی پر استعمال کرلیتے ہیں۔ ان ۲؍ اداروں کے بعد عدلیہ میں بھی اپنے لوگ بٹھانے کی کوشش ہوتی ہے جو کسی حد تک ہی کامیاب ہوتی ہے لیکن اس سے ان کا مقصد بڑی حد تک پورا ہو جاتا ہے۔
تیسری کوشش الیکشن کمیشن کو قابو میں کرنے کی ہوتی ہے۔ یہ کوششیں کئی جمہوریتوں میں ہو چکی ہیں اور ممکن ہے کہ آگے بھی جاری رہیں جبکہ عوامی سطح پر دیکھا جائے تو انہیں اس بات کا بہت زیادہ احساس نہیں ہو تا ہے کہ الیکشن کمیشن واقعی کسی کے زیر اثر ہے یا نہیں۔ اسی بات کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ الیکشن کو متاثر کرنے کے لئے فنڈنگ کا استعمال بھی اہم ہے۔ ہندوستان میں اس کے لئے الیکٹورل بونڈ کا استعمال کیا گیا۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے بونڈس پر پابندی لگادی اور ہر وہ تفصیل جاری کرنے کا حکم دیا جس کے تحت بونڈس کی خریداری ہوئی ورنہ یہ تو طے تھا کہ اس الیکشن میں بونڈ سے حاصل کئے گئے سرمایہ کا ہی کھیل ہوتا اور جمہوریت کو ایک مرتبہ پھر شرمسار کیا جاتا۔
پوری دنیا کے پس منظر کو اگر ہم ہمارے ملک پر فٹ کرکے دیکھیں تو یہاں وہ ہر عنصر موجود ہے جس کی مدد سے جمہوریت کو متاثر کرکے مطلق العنانیت کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ سرکار کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اپوزیشن کو بے دست و پا کردیا جائے۔ اس کے لئے اسے انکم ٹیکس کا نوٹس بھیجا جارہا ہے، اس کے اکائونٹس منجمد کئے جارہے ہیں۔ اس کے لیڈروں کے پیچھے ایجنسیوں کو لگا دیاگیا ہے اور یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اپوزیشن متحد ہوکر الیکشن نہ لڑسکے۔ یہ حقیقت ہے کہ آمریت کی سوچ رکھنے والے حکمرانوں کے ساتھ عوام کبھی نہیں ہوتے۔ ان کی حمایت میں صرف چند فیصد افراد ہوتے ہیں لیکن وہ سرمائے کی بدولت اور حکومتی اداروں کو قابو میں کرکے پوری دنیا کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ انہیں قبول عام کا درجہ حاصل ہے۔ ملک میں اگلے ماہ سے تقریباً ۲؍ مہینے تک انتخابی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ اس دوران آمریت کی سوچ کے ساتھ بہت سے لوگ میدان میں اتریں گے اور عوام کو رجھانے کی کوشش بھی کریں گے۔ اب گیند عوام کے پالے میں ہے کہ وہ کس طرز حکومت کو منتخب کرتے ہیں۔ یہی پیغام ہم دنیا کے دیگر ممالک کے عوام کو بھی دے سکتے ہیں کہ وہ کس طر ز حکومت کو منتخب کرنا چاہتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے لیکن جمہوریت کو متاثر کرنے کی کوششیں تقریباً ہر ملک میں ہو رہی ہیں اور یہ بات عوام کو سمجھنی ہو گی اور پھر فیصلہ کرنا ہو گا۔