ڈونالڈ ٹرمپ اعتماد، اطمینان یا اُمید کا نام ہے یا اضطراب اور خوف کا؟ اس سوال کے جواب سے اکثر لوگ واقف ہیں اور اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے ہیں بالخصوص اُن کے سابقہ دورِ اقتدار اور اس کے اختتام کی روشنی میں جب وہ منتقلی ٔ اقتدار پر آمادہ نہیں تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این
ڈونالڈ ٹرمپ اعتماد، اطمینان یا اُمید کا نام ہے یا اضطراب اور خوف کا؟ اس سوال کے جواب سے اکثر لوگ واقف ہیں اور اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرسکتے ہیں بالخصوص اُن کے سابقہ دورِ اقتدار اور اس کے اختتام کی روشنی میں جب وہ منتقلی ٔ اقتدار پر آمادہ نہیں تھے۔ وہ پرانی بات ہوچکی ہے اور اب ہماری توجہ اُس نئی بات پر ہونی چاہئے جو ہوسکتی ہے اور جس کا اعلان نومنتخب صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی کردیا تھا۔ وہ ہے امریکہ میں تارکین وطن کا پیچ و تاب کھانا کہ صدر موصوف نہ جانے کون سا فیصلہ صادر فرمادیں کیونکہ تارکین وطن کی مخالفت اُن کے منشور کا حصہ پہلے بھی تھا، اب بھی ہوگا۔ اس دوران ایسی خبریں منظر عام پر آئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں نے غیر ملکی طلبہ سے، جو سرمائی وقفے کے دوران اپنے وطن گئے ہوئے ہیں، کہا ہے کہ وہ نئے صدر کے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی کیمپس میں لوَٹ آئیں اور اپنے کاغذات پر خاص توجہ دیں۔ یہ اعلامیہ ہی اُس فکر و تشویش کا غماز ہے جس کا ذکر اِن کالموں میں کیا جارہا ہے۔اِس سے قبل جب انتخابی عمل اپنے ابتدائی مرحلے میں تھا، میکسیکو کی سرحد پر سیکڑوں تارکین وطن غیر قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہونے کیلئے کوشاں تھے۔ ان لوگوں کی کوشش تھی کہ انتخابات مکمل ہونے سے پہلے پہلے امریکہ میں داخل ہوجائیں کیونکہ اس کے بعد تو صرف ٹرمپ کا حکم چلے گا جو تارکین وطن مخالف شخصیت ہیں۔ اس نوع کے واقعات بھی ’’خوفِ ٹرمپ‘‘ کے مظہر تھے۔ اب جبکہ موصوف کے باقاعدہ صدر بننے میں محض ۲۵؍ دن باقی ہیں، امریکی معاشرہ میں بالخصوص تارکین وطن میں اگر خوف نہیں تو بے چینی اور بیقراری تو ضرور ہوگی۔
یاد رہنا چاہئے کہ امریکہ میں موجود غیر ملکی شہریوں کی آبادی کم نہیں ہے۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق یہ تعداد ۵؍ کروڑ ۱۶؍ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ان میں میکسیکو کے لوگ سب سے زیادہ (ایک کروڑ ۷؍ لاکھ) ہیں مگر ان کے بعد ہندوستانی برادری سب سے بڑی ہے جو ۲۸؍ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد چین اور فلپائن کا نمبر آتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مسئلہ غیر قانونی طور پر مقیم لوگوں کا ہے، قانونی طور پر امریکہ میں داخل اور برسرکار ہونے کا نہیں ہے خواہ وہ کسی ملک کے لوگ ہوں مگر ٹرمپ کیا رُخ اختیار کرینگے اس کی پیش گوئی مشکل ہے۔یہ غیر یقینیت نہ ہوتی تو امریکہ میں موجود تارکین وطن میں بے چینی کیوں پیدا ہوتی اور یونیورسٹیاں کیوں اپنے غیر ملکی طلبہ کے لئے اعلامیہ جاری کرتیں؟
ڈونالڈ ٹرمپ نے ابھی صدارت نہیں سنبھالی ہے مگر اُن لوگوں کو نامزد کردیا ہے جو اُن کے عملے میں اہم عہدوں پر فائز ہونگے۔ ان میں سے ایک ہیں تھامس ہومن جن کا انتخاب امیگریشن چیف کے طور پر کیا گیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ تھامس (ٹام) ہومن جنوب میں میکسیکو اور شمال میں کنیڈا تک امریکی سرحدوں کے نگہبان ہوں گے۔ تارکین وطن کے خلاف ٹرمپ کے جوش اور فعالیت کو دیکھ کر امریکن امیگریشن کونسل بھی متفکر دکھائی دیتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کرنا کسی بھی صدر کی ترجیحات میں شامل ہوسکتا ہے مگر صدر نشین کے پیش نظر یہ بھی رہے کہ اس پر بھاری رقم خرچ ہوگی لہٰذا ایسا کرنا امریکی معیشت کیلئے نقصاندہ ہوسکتا ہے۔ اس بات کا شاید ہی کچھ امکان ہو کہ ٹرمپ ایسے کسی انتباہ کی پروا کرتے ہیں یا آئندہ کرینگے۔ n