وزیراعظم نریندر مودی کو صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی دوستی مبارک، لیکن ٹرمپ صاحب ہندوستانی عوام کے دوست بالکل نہیں ہیں۔ ہاں یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکی عوام ہمارے دوست ہیں۔
EPAPER
Updated: February 25, 2020, 1:26 PM IST
|
Hasan Kamal
وزیراعظم نریندر مودی کو صدرِ امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی دوستی مبارک، لیکن ٹرمپ صاحب ہندوستانی عوام کے دوست بالکل نہیں ہیں۔ ہاں یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکی عوام ہمارے دوست ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی انگریزی ریلی ’ہائو ڈی مودی‘ کا گجراتی بھاشا میں جواب دینے کے لئے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ ’کیم چھو ٹرمپ‘ ریلی میں شرکت کے لئے احمدآباد ، پھر نئی دہلی تشریف لائے ہیں۔ مودی نے تو امریکن ریلی میں’ ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ دیکھنا ہے کہ ٹرمپ اس ’کیم چھو ٹرمپ‘ ریلی میں مودی کے لئے کیا نعرہ بلند کرتے ہیں اور کس زبان میں بلند کرتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سب کو معلوم ہے کہ نریندر مودی ڈونالڈ ٹرمپ کی مادری زبان پر اور ڈونالڈ ٹرمپ نریندر مودی کی مادری زبان پر کتنی قدرت رکھتے ہیں۔ بہر کیف ٹرمپ کے سواگت کے لئے کی جانے والی تیاریاں واقعی بے مثال ہیں۔ مثال کے طور پرجس راستے سے ٹرمپ کا کارواں اس نامکمل اسٹیڈیم کی طرف جا نے والا تھا، جس کا انہیںافتتاح کرنا تھا ، اس راہ میں غریب گجراتیوں کی ایک جھوپڑا بستی بھی واقع تھی۔ اس ڈر سے کہ کہیں ٹرمپ کی نظر اس جھوپڑ پٹی پر نہ پڑ جائے اور وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ جس گجرات ڈیولپمنٹ ماڈل کی ساری دنیا میں دھوم مچی ہوئی تھی، وہ ماڈل کہیںیہی تو نہیںہے، اسے چھپانے کے لئے سڑک اور اس سلم کے بیچ میں ایک چار سو میٹر لمبی اور ساڑھے سات فٹ اونچی دیوار اٹھا دی گئی۔ بس سواگت کرنے والے اپنے جوش میں ایک چھوٹی سی بات بھول گئے کہ آج کے دور میں چیزیں انسانوں کی نظروں سے تو چھپائی جا سکتی ہیں، لیکن ان سیٹیلائٹ کیمروں کی آنکھوں سے نہیں چھپائی جا سکتیں ، جو فضا میں تیر رہے ہیں۔ یوں بھی اس دیوار اور اس پر لکھی ہوئی غلط انگریزی تحریر کی تصویر اگلے ہی دن صرف دیسی میڈیا میں ہی نہیں ، امریکی میڈیا میں بھی جلوہ افروز نظر آ رہی تھی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ بقول ٹرمپ ان کے جگری دوست نریندر مودی نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ہوائی اڈے سے اسٹیڈیم تک ان کے استقبال کے لئے ۷۰ ؍لاکھ کی بھیڑ موجود رہے گی۔ معلوم نہیں کہ صدر ٹرمپ کو اس کا علم تھا یا نہیں کہ ایک تو احمدآباد کی کل آبادی ۵۶؍ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، دوسرے وزیر اعظم نریندر مودی ہر ہندوستانی واسی کے کھاتے میں پندرہ لاکھ روپے بھی ڈال چکے ہیں۔ رہی یہ بات کہ ٹرمپ کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ ان سے جس غریبی کو چھپانے کی کوشش کی گئی تھی، اس کی گواہی دنیا کی تمام مالیاتی ایجنسیاں، جن میں امریکی ایجنسیاں بھی شامل ہیں، اسی سال کئی بار دے چکی ہیں۔ ایجنسیاں یہ بھی بتا چکی ہیں کہ دنیا میں بے روزگاروں کی سب سے بڑی تعداد انڈیا یعنی ہندوستان میں ہی ہے۔ بر سبیل تذکرہ صدر ٹرمپ صرف تین گھنٹے کے لئے احمدآباد میں قیام فرما رہے۔ لیکن اس نہایت مختصر قیام کے دوران ان کے سواگت پر ۸۰؍ کروڑ کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ رقم ہمارے دیش کے ٹیکس دہندگان کی ہے۔
اس سے پہلے کہ ٹرمپ ہندوستان پہنچتے، چند بری خبریں ا?چکی تھیں۔ سب سے پہلے یہ معلوم ہوا کہ ٹرمپ کے وہ مالیاتی مشیر، جو ان کے دورے سے دس روز قبل آنے والے تھے، ان کا دورہ اچانک کینسل ہو گیا۔ کیوں ہوا؟ نہ یہ بتانے کی مودی سرکار کے ترجمانوں نے کوئی کوشش کی، نہ میڈیا کے بھکت اینکروں نے۔ بہر حال سمجھنے والے سمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔
گودی میڈیا یہ شور بھی مچائے ہوئے تھا کہ ٹرمپ انڈیا سے ایک بہت بڑی تجارتی ڈیل کرنے آرہے ہیں لیکن ٹرمپ نے اس ڈیل کو ہنستے ہوئے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ انڈیا سے ٹریڈ ڈیل ہوگی اور ضرور ہوگی۔ لیکن صدارتی الیکشن سے پہلے نہیں ہوگی۔ صدارتی الیکشن کے بعد کون صدر ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔ یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ’’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘‘کا مودی آ?شیرواد درست بھی نکلے گا یا نہیں۔ یہ سب جان کر اور سن کر بھی آخر ٹرمپ کی اتنی خوشامد کیوں کی جاری ہے، یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا اس لئے کہ ٹرمپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ انڈیا نے امریکہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ، لیکن نریندر مودی کو وہ بہت پسند کرتے ہیں۔ وہ ان کے بہت گہرے دوست ہیں۔ انڈیا نے امریکہ کے ساتھ کیا بد سلوکی کی، ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا۔ لیکن ہمیں یہ بہر حال معلوم ہے کہ ٹرمپ نریندر مودی کو کیوں پسند کرتے ہیں۔ دیکھئے نا، ایران سے ہمارا صدیوں پرانا تہذیبی اور تمدنی تعلق رہا ہے۔ اس وقت سے جب امریکہ نام کے کسی بر اعظم کا اس روئے ارض پر کہیں نام و نشان بھی نہیں تھا، ایران ہمیں تیل دے رہا تھا۔ دوسروں سے جو قیمت لیتا تھا، وہ قیمت بھی نہیں لے رہا تھا۔ بل کی ادائیگی میں دو ماہ کی مہلت بھی دے رہا تھا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ تیل کی قیمت ہم سے ڈالر میں نہیں انڈین کرنسی میں لے رہا تھا لیکن ٹرمپ نے گھڑکی دی کہ ایران سے تیل لینا بند کرو اور مودی نے ’اچھا میرے دوست‘ کہہ کر تیل لینا بند کر دیا۔ سستا تیل بھی ہاتھ سے گیا اور ایک صدیوں پرانا دوست بھی دور ہو گیا۔ مودی کو ٹرمپ کی خوشنودی ملی، لیکن ہمارے دیش کو کیا ملا؟اس خطہ میں ایران ہی ہمارا اکیلا دوست تھا، ہم اسے بھی کھو چکے ہیں۔
مودی کو ٹرمپ کی دوستی مبارک، لیکن ٹرمپ صاحب ہندوستانی عوام کے دوست بالکل نہیں ہیں۔ ہاں یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ امریکی عوام ہمارے دوست ہیں۔ ہمارے ملک میں کسی پر بھی نا انصافی ہوئی تو امریکی عوام کے اندر ہی سے احتجاج کی صدا بلند ہوئی۔ تازہ ترین مثال امریکی کانگریس برائے بین الاقوامی تحفظ مذہبی آزادی کی وہ رپورٹ ہے جو ٹرمپ کے دورے سے صرف تین دن پہلے ریلیز ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف ہندوتوا وادی قوتوں کی پرتشدد کارروائیوں میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔ مودی خود اس سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اٹھا رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سی اے اے کی وجہ سے یہ تاثر عام ہے کہ مسلمانوںسے شہریت چھیننے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس قانون کی وجہ سے انڈیا ایک بہت خطرناک موڑ پر آگیا ہے اور اس کی رنگارنگی کے ساتھ اس کی جمہوریت کو بھی سخت خطرہ لا حق ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی ایڈمنسٹریشن کو امیت شاہ اور دوسرے بی جے پی لیڈروں کے اشتعال انگیز بیانات کا نوٹس لیناچاہئے۔ ۲۱ فروری کے نیویارک ٹائمس میں بھی یہی کچھ کہا گیا ہے۔ ٹرمپ کے دورے کا غل مچاکر شاید مودی سرکار ان ہی باتوں کی طرف سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اسی کے ساتھ مودی سرکار کے لئے ایک بری خبر بھی ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے دوست سے انڈیا میں مذہبی آزادی کی کیفیت کی بابت پوچھ گچھ کر سکتے ہیں