ممکن ہے وہ سوچ سمجھ کر بے سوچے سمجھے بیانات دے رہے ہوں تاکہ دُنیا کو کنفیوژ کیا جائے! مگر اس کا امکان کم ہے البتہ وہ رعب قائم کرنے یا خوف پیدا کرنے کیلئے ایسا کررہے ہوں تو اس کا امکان زیادہ ہے۔
EPAPER
Updated: February 14, 2025, 5:23 PM IST | Mumbai
ممکن ہے وہ سوچ سمجھ کر بے سوچے سمجھے بیانات دے رہے ہوں تاکہ دُنیا کو کنفیوژ کیا جائے! مگر اس کا امکان کم ہے البتہ وہ رعب قائم کرنے یا خوف پیدا کرنے کیلئے ایسا کررہے ہوں تو اس کا امکان زیادہ ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ پہلی بار صدر نہیں بنے ہیں۔ پہلی چار سالہ میعاد مکمل کرنے کے بعد، چار سال کے فرق سے یہ اُن کی دوسری میعاد ہے۔ بہ الفاظ دیگر اُنہیں عہدۂ صدارت کا خاصا تجربہ ہے۔ اس عہدہ پر فائز رہتے ہوئے کن مصلحتوں کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے، وسیع تر مفاد کیلئے کیا کیا جانا چاہئے، کن فیصلوں کی اجازت امریکی قانون دیتا ہے، کن فیصلوں سے پہلے عالمی قوانین کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے اور عالمی منظر نامہ میں کہاں کیا ہورہا ہے اور کیا کرنے سے کس قسم کا ردعمل سامنے آسکتا ہے اس کا اُنہیں بخوبی اندازہ ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ بے سوچی سمجھی باتیں کررہے ہیں تو اس کی منطق ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ ممکن ہے وہ سوچ سمجھ کر بے سوچے سمجھے بیانات دے رہے ہوں تاکہ دُنیا کو کنفیوژ کیا جائے! مگر اس کا امکان کم ہے البتہ وہ رعب قائم کرنے یا خوف پیدا کرنے کیلئے ایسا کررہے ہوں تو اس کا امکان زیادہ ہے۔ اُن کا کبھی پناما کو دھمکانا، کبھی میکسیکو کے خلاف بولنا، کبھی گرین لینڈ کے خلاف رائے دینا، اس طرح کبھی کچھ اور کبھی کچھ کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہم نے اسی کالم میں غزہ جنگ رُکوانے کا سہرا اُن کے سر باندھا تھا مگر تب کی بات اور ہے۔ غزہ جنگ رُکوانے کا اُن کا مقصد یہ تھا کہ وہ ایسے وقت میں عہدۂ صدارت کا حلف نہ لیں جب غزہ اسرائیلی جارحیت کی منہ بولتی تصویر بنا ہو۔ اب یہ مقصد پورا ہوچکا ہے مگر اب وہ جنگ کی کمان خود اپنے ہاتھوں میں لینے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ غزہ خالی کردیا جائے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اہل غزہ (جو تعمیر نو کیلئے اپنے علاقوں کو چھوڑکر دوسرے علاقوں کا رُخ کریں گے اُنہیں واپس نہیں آنے دیا جائے گا۔ اب تک اُنہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر خدانخواستہ غزہ اُن کے ہاتھ لگ گیا تو وہ کیا کریں گے مگر شاید یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ وہ اسرائیل اور صہیونیت نوازوں کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مَیں آپ کا وہ کام کرکے دوں گا جس کی اُمید امریکہ کے کسی صدر سے آج تک نہیں کی گئی۔
اُن کا بیان منظر عام پر آیا ہی تھا کہ چوطرفہ تنقیدیں شروع ہوگئیں۔ اگر وہ باز نہیں آئے تو اُن کی مخالفت مزید بڑھے گی۔ پھر بھی باز نہیں آئے تو چہار جانب احتجاج شروع ہوسکتا ہے۔ دیگر ملکوں میں تو لوگ مخالفت میں سڑکوں پر آئینگے ہی، خود امریکہ میں ایسا ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے غزہ کی ہلاکتوں کے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں غیر معمولی احتجاج ہوچکا ہے۔ مانا کہ ڈونالڈ ٹرمپ اس وقت سب سے طاقتور صدر ہیں مگر کیا وہ چوطرفہ احتجاج کو روک سکیں گے؟ کیا اُن پر الگ الگ ملکوں کے سربراہان دباؤ نہیں ڈالیں گے؟ کیا عالمی تنظیمیں چپ بیٹھیں گی؟ کیاب حقوق انسان کے دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے کارکنان اس ظلم کو ہوتا دیکھیں گے اور کچھ نہ کہیں گے؟ یقیناً جو بات اُنہوں نے کہی وہ کہنا آسان ہے، کرنا مشکل ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی ایسا نکتہ نہیں ہے جو وہ خود یا اُن کی ٹیم نہ سمجھتی ہو اور ہمیں سمجھانا پڑے۔ مگر، سوال یہ ہے کہ جب وہ خو د ایسے کسی اقدام کے عواقب سے واقف ہیں تو بے سر پیر کی غزہ پالیسی پر سے پردہ کیوں اُٹھا رہے ہیں ؟
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس کے ذریعہ خلیجی ملکوں سے وہ چاہتے ہوں جسے انگریزی میں ’’فال اِن لائن‘‘ کہا جاتا ہے یعنی بے چوں چرا ہر بات مان لینا۔ اُنہیں اپنے عزائم میں کتنی کامیابی ملے گی یہ تو وقت بتائیگا مگر فی الحال اتنا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی گیدڑ بھپکیوں میں زیادہ ہی بڑھے چلے جارہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اُن کے بیانات اُن کا منہ چڑانے لگیں اور صدرِ امریکہ پوری دُنیا میں شرمسار ہو۔