اس ہفتے ملاحظہ کریں حق گوئی و بیباکی کے پیکر محمد علی جوہر کے کلام میں عشق وطن و آزادیٔ وطن اور تصوف ۔
EPAPER
Updated: August 26, 2024, 2:29 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
اس ہفتے ملاحظہ کریں حق گوئی و بیباکی کے پیکر محمد علی جوہر کے کلام میں عشق وطن و آزادیٔ وطن اور تصوف ۔
محمد علی جوہر مولانا تھے نہ معروف معنی میں صوفی، ہاں ان کے محب وطن اور مجاہد ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تصوف کی ایک روایت ظالم حکمرانوں کے خلاف اعلان حق بھی ہے اور محمد علی جوہر بیعت بھی تھے اس لئے ان کو ایک خاص معنی میں صوفی کہا جاسکتا ہے مگر عام طور سے صوفی اس کو سمجھا جاتا ہے جو گوشہ نشینی اختیار کرکے اذکارو اشغال میں مشغول رہتا ہے۔ محمد علی جوہر یہی نہیں کہ گوشہ نشین نہیں تھے بلکہ سیاست داں ، فٹ بال کھلاڑی، صحافی، سیاسی قائد اور مجاہد آزادی بھی تھے مگر ان کی ہر حیثیت پر عاشق صادق ہونے کی حیثیت غالب تھی۔ عاشق صادق بھی وطن اور آزادیٔ وطن نیز ملت اسلامیہ کے۔ شاعری میں وہ شاگرد داغ کے تھے مگر ذہنی مناسبت شبلی نعمانی سے تھی اس لئے ان کی شاعری میں شبلی کا احساس جمال تو ہے ہی عشق رسولؐ بھی ہے۔ اشعار میں یہ عشق بار بار ظاہر ہوا ہے۔
اللہ کے بانکوں کا بھی ہے رنگ نرالا
اس سادگی پہ شوخیِ خونِ شہدا دیکھ
کچھ بھی وہاں نہ خنجرِ قاتل کا بس چلا
روحِ شہید رہتی ہے نعش وکفن سے دور
مرنے کو یوں تو مرتے ہیں ہرروز سیکڑوں
اپنے لئے پیغام قضا ہو تو جانئے
کہتے ہیں نقد جاں جسے ہے عاشقوں پہ قرض
یہ قرض ہم سے جلد ادا ہو تو جانئے
مزید اشعار نقل کئے جاسکتے ہیں مگر جو اشعار نقل ہوئے ہیں ان سے بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ملک وملت کے جس عشق میں وہ مبتلا ہیں اس میں جان جانا اتنا حیرتناک نہیں جتنا حیرتناک جان کا نہ جانا ہے اس لئے ان کے شعروں میں شہادت، شوق شہادت اور متعلقات شہادت کا کسی نہ کسی صورت میں بار بار اظہار ہوا ہے۔
کرگئی زندۂ جاوید ہمیں
تیغِ قاتل نے مسیحائی کی
نہیں پالا پڑا قاتل تجھے ہم سخت جانوں سے
ذرا ہم بھی تود یکھیں تیری جلا دی کہاں تک ہے
ممکن ہے کہ مندرجہ بالا اشعار کو یا مندرجہ بالا اشعار کی قسم کے دوسرے اشعار کو تصوف یا تصوف کے مباحث میں شامل کرنے میں کسی کو تامل ہو مگریہ سچ ہے کہ ان شعروں میں جس قسم کے شوق شہادت کا اظہار ہے وہ اس کیفیت کو حاصل کرلینے کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے جس کو تصوف کہتے ہیں۔ جذبہ وجنوں کی کیفیت انہیں تصوف سے ہی حاصل ہوئی تھی، اس تصوف سے جس کا سرچشمہ عشق رسولؐ ہے۔ یہاں دو غزلیں نقل کی جارہی ہیں جن کا ہر ایک شعر ایک خاص کیفیت میں نہ صرف ڈوبا ہوا ہے بلکہ پڑھنے والوں کو بھی اسی کیفیت سے سرشار کرتا ہے۔
دور حیات آئے گا قاتل قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
جینا وہ کیا کہ دل میں نہ ہو تیری آرزو
باقی ہے موت ہی دل بے مدعا کے بعد
تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد
لذت ہنوز مائدۂ عشق میں نہیں
آتا ہے لطف جرم تمنا سزا کے بعد
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
تم یوں ہی سمجھنا کہ فنا میرے لیے ہے
پر غیب سے سامان بقا میرے لیے ہے
حوران بہشتی کی طرف سے ہے بلاوا
لبیک کہ مقتل کا صلا میرے لیے ہے
کیوں جان نہ دوں غم میں ترے جب کہ ابھی سے
ماتم یہ زمانہ میں بپا میرے لیے ہے
سرخی میں نہیں دست حنا بستہ بھی کچھ کم
پر شوخیٔ خون شہدا میرے لیے ہے
کیوں ایسے نبی پر نہ فدا ہوں کہ جو فرمائے
اچھے تو سبھی کے ہیں برا میرے لیے ہے
اے شافع محشر جو کرے تو نہ شفاعت
پھر کون وہاں تیرے سوا میرے لیے ہے
اللہ کے رستہ ہی میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لیے ہے
باطن کی پاکیزگی اور ایمان کی روشنی کے بغیر اس جوروستم کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا جاسکتا تھا جو جوہرؔنے انگریزوں کے خلاف کیا تھا۔ قرآن حکیم کا درس شبلی سے انہوں نے اس وقت لیا تھا جب دونوں علی گڑھ میں تھے۔ بیشتر اشعار آمد کا نتیجہ ہیں مگر ان میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو ایک اچھے شعر میں ہونی چاہئیں۔ سرفروشی کی جس تمنا سے وہ سرشار تھے وہ تمام وکمال ۱۹۳۱ء میں اس وقت جلوہ گر ہوئی جب خرابیٔ صحت کے باعث احباب واعزہ کے روکنے کے باوجود وہ راؤنڈٹیبل ( گول میز) کانفرنس میں شرکت کیلئے عازم سفر ہوئے اور غلام ہندوستان میں واپس آنے پر لندن میں مرجانے کو ترجیح دی۔
ان کی شاعری کو شہادت کے جذبے نے خوبصورتی عطا کی ہے۔ انہوں نے کربلا، منصور اوراس قسم کے دوسرے لفظوں کو قومی اور سیاسی مفہوم میں بھی استعمال کیا ہے۔ اسلامی معتقدات سے مکمل وابستگی کے ساتھ قومی اور ملی اتحاد پر اصرار کیا ہے۔ قاتل، فنا، بقا، اناالحق، قتلِ حسین، مرگ یزید کلاسیکی غزل میں کثرت سے استعمال ہوئے ہیں ۔ مولانا جوہر کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان الفاظ وتراکیب کو استعارہ کے طورپر استعمال کیا ہے۔ ان سے ان کے اس جذبہ ٔ عشق کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے جس کا تعلق عقیدت سے بھی ہے اور وطن وآزادی ٔ وطن کے عشق سے بھی۔ جہاں تک عشق کی مذہبی جہت یا عشق حقیقی کا تعلق ہے ان کے دوسرے شعروں کے ساتھ ان دو شعروں کو خاص طورپر پیش کیاجاسکتا ہے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دوعالم سے خفا میرے لئے ہے
کیا ڈر ہے اگرساری خدائی ہو مخالف
کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے
وطن ا ور آزادی وطن سے عشق کا حال شعروں میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ ان میں اشاریت کا بھی احساس ہوتا ہے اور وضاحت کا بھی۔
یاد وطن نہ آئے ہمیں کیوں وطن سے دور
جاتی نہیں ہے بوئے چمن کیا چمن سے دور
سینہ ہمارا فگار دیکھیے کب تک رہے
چشم یہ خونابہ بار دیکھیے کب تک رہے
ہم نے یہ مانا کہ یاس کفرسے کم تر نہیں
پھر بھی تیرا انتظار دیکھیے کب تک رہے
کئی اشعار ایسے بھی ہیں جن میں ایسی تلمیح کے استعمال کے ساتھ جو ان کے مطالعے کی وسعت کا پتہ دیتی ہیں ان کے اس اعتماد کا بھی اظہار ہے کہ مظلوم کی دعا ردنہیں ہوتی۔
مست مئے الست کہاں اور ہوس کہاں
طرز وفائے غیر ہے اپنے چلن سے دور
آخر کو لے کے عرش سے فتح و ظفر گئی
مظلوم کی دعا بھی کبھی بے اثر گئی
محمد علی جوہر کی شہرت اگرچہ ان کے محض چند شعروں کی وجہ سے ہے مگر ان کی شاعری میں لفظی اور معنوی محاسن کی کمی نہیں ہے۔ ایسے اشعار بھی کئی ہیں جو ان کے پاکبازو پاک باطن ہونے کا سراغ دیتے ہیں ۔ یہی معرفت حق ہے جو تصوف کا مقصود ہے۔