• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۱)

Updated: July 22, 2024, 12:23 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں سراج اورنگ آبادی کی اس مشہور غزل کا تجزیہ جو عارفانہ و متصوفانہ کیفیات کا بہترین اظہار ہے۔

Ahl Sufis emphasize on true love. Photo: INN
اہل تصوف کا زور عشق حقیقی پر ہوتا ہے۔ تصویر : آئی این این

سراج اورنگ آبادی (۱۷۱۵۔ ۱۷۶۳ء) کے کئی شعر لوگوں کی زبان پر ہیں مثلاً :
(۱)اس پھول سے چہرے کو جو کوئی یاد کرے گا
ہرآن میں سو سو چمن ایجاد کرے گا
(۲)تڑپناں ، تلملاناں ، غم میں جلنا، خاک ہوجاناں 
یہی ہے افتخار اپناں یہی ہے اعتبار اپناں 
(۳)شراب معرفت پی کر جو کوئی مجذوب ہوتا ہے 
در و دیوار اس کو مظہر محبوب ہوتا ہے
اوریہ تمام اشعار معنی وتاثیر سے پُر ہیں، انہیں ذہن میں محفوظ بھی ہونا چاہئے مگر وہ یہ اشعار نہ بھی تخلیق کرتے صرف ایک غزل ’’خبرتحیرعشق سن …‘‘ تخلیق کرتے تب بھی اردو ادب کی تاریخ میں زندہ رہتے۔ غزل یہ ہے:
خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی 
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی 
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباسِ برہنگی 
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی 
چلی سمت غیب سیں کیا ہوا کہ چمن ظہور کا جل گیا 
مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہو سو ہری رہی 
نظر تغافل یار کا گلہ کس زباں سیں بیاں کروں 
کہ شراب صد قدح آرزو خم دل میں تھی سو بھری رہی 
وہ عجب گھڑی تھی میں جس گھڑی لیا درس نسخۂ عشق کا 
کہ کتاب عقل کی طاق پر جوں دھری تھی تیوں ہی دھری رہی 
ترے جوش حیرت حسن کا اثر اس قدر سیں یہاں ہوا 
کہ نہ آئینے میں رہی جلا نہ پری کو جلوہ گری رہی 
کیا خاک آتش عشق نے دل بے نوائے سراجؔ کوں 
نہ خطر رہا نہ حذر رہا مگر ایک بے خطری رہی 

یہ بھی پڑھئے:بچپن کی یادیں

عشقیہ شاعری کی موسیقی و کیفیت، زباندانی اور تشبیہات و استعارات تو اس غزل میں ہیں ہی وہ باخبری بھی ہے جو عشق حقیقی میں مبتلا ہونے والوں کی بے خبری سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ وہ ’’برائے شعر گفتن تصوف خوب است‘‘ کے قائل نہیں تھے بلکہ ان کی وہ کیفیت جو شعر میں ڈھل گئی ہے تصوف سے عملی وابستگی اور دل کی لگی کے سبب تھی۔ وہ شاہ عبدالرحمٰن چشتیؒکے مرید وخلیفہ تھے۔ انہی کے حکم سے شعر گوئی ترک کردی تھی، پانچ سات سال ہی شعر کہے تھے مگر اس مختصر مدت میں بھی جو کہہ گئے وہ شعروادب میں ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔ وہ صرف بارہ سال کی عمر میں دیوانہ وار برہان الدین غریب کے روضے پر جا بیٹھے تھے۔ بے خودی وخود فراموشی ان کی زندگی کا بھی خاصہ تھی اور شاعری کا بھی۔ اوپر نقل کی ہوئی غزل کے مطلع میں ہی انہوں نے ’’تحیر عشق‘‘ کی خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی، نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا‘‘ ’’جورہی سو بے خبری رہی ‘‘ یعنی بے خبری کی خبر کے سوا انہیں کوئی خبر نہیں رہی۔ خبر اطلاع وآگاہی کو بھی کہتے ہیں اور ہوش وسدھ بدھ کوبھی۔ اسی طرح تحیر سے مراد تعجب بھی ہے اور پریشانی بھی۔ جنون بھی غصہ، دُھن، پاگل پن اور خبط یعنی کئی معنی میں استعمال کیاجاتا ہے۔ جنوں کے برعکس ’پری‘ کا لفظ البتہ غور طلب ہے۔ جنون دماغ کے خلل، کسی چیز کو پالینے کی دُھن یا کوئی چیز کھودینے کے غم کے سبب ہوتا ہے، جنون کی مختلف کیفیات میں بھیانک صورتیں بھی نظر آتی ہیں اوراچھی صورتیں بھی۔ یہاں بے خبری سے مراد سدھ بدھ کھودینے سے ہے۔ ظاہر ہے یہ جذب کی کیفیت ہے، جذب وجنون میں فرق ہے۔ جنون میں کچھ ہوش نہیں رہتا مگر جذب میں نماز کے اوقات میں ہوش میں آجانے اور فرض ادا کرنے کے ہزاروں واقعات ہیں۔ ا س لئے بے خبری سے باخبر ہونے کا دعویٰ بے معنی نہیں ہے۔ 
 دوسرے شعر میں بڑے شاعرانہ انداز میں اعلان کیا گیا ہے کہ ’شہ بے خودی‘ نے مجھے اس عالم میں پہنچا دیا ہے جہاں کسی کا عیب مجھ سے پوشیدہ ہے نہ ہنر۔ ’لباس برہنگی ‘ استعارہ ہے اور استعارہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ میں تحیر کی اس منزل میں ہوں جہاں خبر اور بے خبری میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا ہے، ’’سیں ‘‘ نے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کو علاقائی لہجہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مگر شاہ سراج کا لسانی شعوراتنا پختہ تھا کہ اپنی کلیات کی دوبارہ ترتیب کے دوران وہ ان الفاظ، تراکیب، تشبیہات اور استعارات کو نکال دینے کی کوشش میں تھے جو مترو ک قراردیئے جاچکے ہیں یا وسیع تر علاقے میں نہیں بولے جاتے۔ تیسرے شعر میں بھی ایسا ہی ایک لفظ ’’سیں ‘‘استعمال ہوا ہے مگر اس سے معنی کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑتی۔ بات صاف ہے کہ سمت غیب سے ایسی ہوا چلنے کا انہیں احساس ہے جس کے سبب جو کچھ ظاہر میں تھا سب ختم ہوگیا البتہ باطن میں ایک شاخ غم انہیں نہال کرتی رہی جو ہمیشہ ہری رہی یا جس پر وقت کا اثر مرتب نہیں ہوا یا جس منزل میں وہ غم سے بھی خوشی کشید کرتے رہے۔ 
  چوتھے شعر میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جس طرح ایک میان میں دو تلوار نہیں رہ سکتی اسی طرح ایک دل میں حرص و ہوس، طلب دنیا اور خالق دنیا کی یاد بیک وقت نہیں رہ سکتی۔ جب میرے دل میں حرص کی فراوانی ہے تو میں مالک وخالق کی عدم توجہی کی کس زبان سے شکایت کروں ’’ خم دل ‘‘ میں شراب صد قدح آرزو، کے بھری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دل تو ہزار قسم کی آرزؤں سے بھرا ہوا ہے اس میں محبوب حقیقی کی سمائی کیسے ہوسکتی ہے ؟
  پانچویں شعر میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عشق میں مبتلا ہوتے ہی عقل وخر دسے میرا رشتہ ٹوٹ گیا۔ اس پر بحث کی گنجائش ہے کہ عشق ہوجاتا ہے یا شعوری طورپر کیاجاتا ہے۔ اساتذہ نے دونوں طرح استعمال کیا ہے۔ میرے بزرگ دوست سید ہاشم رضا ہاشم نوگانوی نے ایک مصرع کہا تھا کہ ’’ گرا تو سکتا ہوں آنسو اٹھا نہیں سکتا‘‘ اس پر اعتراض ہوا تو میں نے دلیل دی کہ علامہ آرزو کا مصرع ہے ’’ آنسو گرا رہا ہوں جگہ چھوڑ چھوڑ کر‘‘ لغات میں بھی آنسوگرنا اور گرانا دونوں طرح لکھا ہوا ہے۔ 
  چھٹا شعر خالص عارفانہ شعر ہے کہ تجلی یا جلوۂ حق دیکھ لینے کے بعد کوئی صورت یا منظر تصور میں باقی نہیں رہتا۔ اصغر نے ایسی ہی کسی کیفیت میں کہا تھا کہ 
تر ے جلووں کے آگے ہمت ِ شرح وبیاں رکھ دی 
زبانِ بے نگہ رکھدی نگاہ بے زباں رکھ دی
 مقطع میں کہا گیا ہے کہ آگ کا کام سب کچھ جلاکر خاک کردینا ہے۔ سراجؔ کے دل میں بھی جو خواہشات تھیں وہ آتشِ عشق کی شدت کے سبب جل کر ختم ہوگئیں۔ اب ان کے دل میں خطرہ رہ گیا ہے نہ حذر( انکار، احتیاط، بچاؤ، پرہیز) مجذوب کے کلام کی تاثیر سے پُرشعر کو پڑھنے یا دہرانے سے اس کے معنی خود بخود واضح ہوجاتے ہیں۔ کیفیت کی ترسیل کی اگرکوئی صورت ہے تو یہ شعر بے خبری میں باخبر اور بے خطر کردینے کی حقیقت سے آگاہ کردینے کیلئے کافی ہے۔ سراجؔ کی شاعری ان کے ہروقت سرشار رہنے کی گواہ ہے۔ اس مفہوم کے ان کے کئی شعر ہیں :
مشتاق ہوں میں تیری فصاحت کا و لیکن 
رانجھاکے نصیبوں میں کہاں ہیر کی آواز 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK