• Fri, 20 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۵)

Updated: August 05, 2024, 5:17 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں صوفی منش اور درویش صفت شاعر امیر مینائی کی عارفانہ شاعری کا دلکش تجزیہ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

امیر مینائی صوفی منش، درویش صفت، خانقاہ نشین بزرگ اور قادرالکلام شاعر تھے۔ سلسلۂ نسب شاہ مینا سے ملتا تھا جن کا آستانہ لکھنؤ میں مرجع خلائق ہے۔ امیر شاہ رام پوری کے مرید وخلیفہ تھے۔ شاعری میں اسیر لکھنوی کے شاگرد تھے۔ سلوک میں سلسلہ ٔ صابریہ چشتیہ میں تربیت ہوئی تھی۔ وحدۃ الوجود کے نظریے کی پاسداری رند مشرب غالب نے بھی کی تھی اور پارساوپاکباز امیر مینائی نے بھی۔ فرق یہ تھا کہ امیر کا شمار ان چند شعراء میں ہے جنہوں نے محرم راز ہوکر وحدۃ الوجود کے موضوعات ( خودی، بے خودی، ہستی نیستی، فنا وبقا، حسن وعشق اور معرفتِ ذات ) موزوں کئے ہیں۔ ان کے کئی شعرنہ صرف مشہور ہیں بلکہ سند کے طورپر پیش کئے جاتے ہیں مثلاً :
(۱)دریائے معرفت سے جو دل آشنا ہوا
ترک خودی سفینۂ اہلِ فنا ہوا
(۲)جنت میں روح جسم ہے نیچے مزار کے 
کشتی ہماری ڈوب گئی پار اتار کے
(۳)خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ 
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
پارسائی اور پاکبازی کے باوجود وہ پارسائی اور پاکبازی کے دعوے سے بہت دور تھے اور سمجھتے تھے کہ انسان ہے تو گناہ تو ہوگا ہی، ہاں گناہ کے بعد اس کی تکرار، عذراور اصرار سے گریز لازم ہے۔ 
فرشتے آکے جہاں میں گناہ گار ہوئے
کئے گناہ جو ہم نے تو کیا گناہ کیا
امیرؔ اس خرقہ وعمامہ کو تم وقف مے کردو
ابھی تم پر نہیں پھبتا یہ جامہ پارسائی کا 
اردو شاعری اور تصوف دونوں میں عشق مجازی کی روایت کو بڑی مقبولیت حاصل رہی ہے۔ بعض لوگوں نے عشق مجازی پر سخت اعتراض کیا ہے اور بعض نے بڑی خوبصورت تاویل کی ہے مثلاً میرؔکا شعر ہے
صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا 
ہے عشق سے بتوں کے مرا مدعا کچھ اور 
امیر کی غزلیں بھی چونکاتی ہیں کہ جبہ ودستار کے باوجود یہ انداز بیان؟ مگر جب امیرؔ کے بعض شعروں کے ذریعہ ان کا اصل رنگ طبیعت اور روحانی مقام ومرتبہ سامنے آتا ہے تو سوال کرنے یا چونکنے والوں کو اپنی کوتاہ بینی کا احساس ہوتا ہے:
ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں 
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں ؟
میرانیس ؔ نے ایسی ہی کسی کیفیت میں کہا تھا کہ 
پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیالِ صنعتِ صانع ہے پاک بینوں کو
سیماب کا بھی شعر ہے کہ 
نظر کی منزلِ مقصود مہروماہ نہیں 
یہ جلوہ گاہ کے پردے ہیں جلوہ گاہ نہیں 
یہ تو شاعری کی مثالیں ہیں۔ راہِ سلوک اختیار کرنے والوں کو تو ایسی کیفیات سے بھی گزرنا پڑتا ہے جس میں انہیں کچھ آوازیں اور آہٹیں سنائی دینے کا احساس ہوتا ہے۔ بعض صورتیں بھی نظر آنے کا گمان گزرتا ہے۔ وہ جب اپنی سنی ہوئی آہٹوں اور آوازوں کو یا دیکھی ہوئی صورتوں کو لفظوں میں بیان کرنا چاہتے ہیں تو الفاظ نہیں ملتے۔ ایسے میں وہ ایسے ہی لفظوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو عام طورسے دنیاوی محبوب اور منظر یا آہٹ کے بیان کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ امیر مینائی کی غزلوں میں دنیاوی محبوب کے انداز میں اپنے محبوب کا ذکر اسی سبب ہے۔ ان کی اصل زندگی میں ان کے کسی حریف نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے ان کے کردار یا کسی عادت کے خراب ہونے کا گمان گزرتا ہو۔ ان کے کردار کی پاکیزگی کے سبب نواب واجد علی شاہ نے ان کو اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا تھا۔ یہاں نقل ہے ایک مکمل غزل جس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ ایک خاص کیفیت نے اس پاکباز وپاک طینت شخص سے کیسے کیسے شعر کہلائے ہیں۔ 
چاند سا چہرہ نور کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
طرفہ نکالا آپ نے جوبن ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
گل رخ نازک زلف ہے سنبل آنکھ ہے نرگس سیب زنخداں 
حسن سے تم ہو غیرت گلشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
ساقی ٔ بزم روز ازل نے بادۂ حسن بھرا ہے اس میں 
آنکھیں ہیں ساغر شیشہ ہے گردن ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
قہر غضب ظاہر کی رکاوٹ آفت جاں درپردہ لگاوٹ 
چاہ کا تیور پیار کی چتون ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
غمزہ اُچکا عشوہ ہے ڈاکو قہر ادائیں سحر ہیں باتیں 
چور نگاہیں ناز ہے رہزن ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
نور کا تن ہے نور کے کپڑے اس پر کیا زیور کی چمک ہے 
چھلے کنگن آکے جوشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
جمع کیا ضدّین کو تم نے سختی ایسی نرمی ایسی 
موم بدن ہے دل ہے آہن ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
واہ امیرؔ ایسا ہو کہنا شعر ہیں یا معشوق کا گہنا
صاف ہے بندش مضموں روشن ماشاء اللہ ماشاء اللہ 
یہ پوری غزل ایک خاص کیفیت میں تخلیق ہوئی ہے۔ بظاہر اس میں دنیاوی محبوب کے حسن کے جلوے اور اس کا سراپا ہے مگر حقیقت میں مثالوں کے ذریعہ اس محبوب سے دوسروں کو متعارف کرانے کی کوشش ہے جو زبان وبیان کی گرفت میں آہی نہیں سکتا۔ ’’ نور کاتن ہے نور کے کپڑے… ‘‘ کہہ کر انہوں نے واضح بھی کردیا ہے کہ جس محبوب کے جلوے ان کی آنکھوں کے علاوہ روح کو بھی سرشار کررہے ہیں وہ عام محبوب نہیں ہے۔ 
امیر مینائی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے مولود کی کوئی کتاب تصنیف کی تھی جس میں غیر مصدقہ روایات در آئی تھیں۔ امیر مینائی نے اس مسئلہ کو اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ باقاعدہ معذرت کی کہ ان کی تصنیف یا تالیف میں غیر مصدقہ روایات جگہ پاگئی ہیں ۔ وہ تصوف کی جس حقیقت اور رسم سے تعلق رکھتے تھے اس میں شریعت اور طریقت میں کوئی تضاد نہیں ہے مگر وہ ان گندم نما جَو فروشوں سے ناواقف بھی نہیں تھے جو دین ومذہب کی مخالفت یا اپنی بے عملی کی پردہ پوشی کے لئے تصوف کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ کتنا خوبصورت مصرعہ کہا ہے انہوں نے ایسے لوگوں کو بے نقاب کرنے کے لئے:
پہلے پڑھیں نماز تو پیچھے وضو کریں 
اور پھر انہیں یہ احساس بھی تھا کہ عقیدہ کی آفاقیت برحق ہے لیکن چونکہ مقامی ماحول و معاشرے کے اثرات بھی ذہنوں پر مرتب ہوتے ہیں اس لئے شاعر ہو کہ صوفی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ 
اپنی غزلوں میں انہوں نے عقیدہ وفلسفہ بھی بیان کیاہے مگر غزل کے مزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ 
کیونکر جہاں ہو، جو جہاں آفریں نہ ہو
پھندا مرے گلے میں ہے حبل الورید کا 
حسبِ ارشادِ نبی فقر حقیقت میں ہے فخر
بارگاہِ حق سے ہر طاعت کی ملتی ہے جزا
مشکل تشبیہات واستعارات ناپید ہیں۔ آسان زبان میں وجدانی کیفیت کا اظہار ہے اس لئے امیر مینائی صوفی اور شاعر دونوں لحاظ سے قابل اعتبار ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK