• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۴)

Updated: August 05, 2024, 5:13 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کی غزل اور اس میں موجود فطرت ِانسانی کے عناصر کاتجزیہ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

غالب جب تک مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کی پسندیدگی حاصل نہ کرلیتے اپنی فارسی غزل دیوان میں درج نہیں کرتے تھے لیکن خود شیفتہ ؔنے غالب کی نہیں، مومن کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۸۵۲ء میں مومن کا انتقال ہوگیا تب بھی وہ غالب کے شاگرد نہ ہوئے۔ شیفتہ نے مومن کا شاگرد ہوتے ہوئے بھی غزل کی زبان کو پرپیچ انداز سے جس کو نازک خیالی اور مضمون آفرینی کہا گیا ہے اور غالب کا مداح ہوتے ہوئے بھی تعقیدوناہمواری سے بچایا ہے۔ ان کی غزلوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ مبالغہ آرائی سے خالی ہوتے ہوئے بھی سپاٹ اور پھیکی نہیں ہیں۔ تصوف سے ان کے استاذ مومن ؔکو کوئی ذہنی مناسبت تھی نہ ان کو لیکن شیفتہ کی غزلوں میں ز ندگی اور زندہ قوتوں کی ناپائیداری کے ساتھ ذاتی زندگی کے غموں پر جہاں روشنی پڑی ہے وہاں تصوف کا رنگ پیدا ہوگیاہے۔ ذیل کی غزل انہی کی ہے۔ 
آرام سے ہے کون جہانِ خراب میں 
گل سینہ چاک اور صبا اضطراب میں 
سب اس میں محو اور وہ سب سے علاحدہ
آئینہ میں ہے آب نہ آئینہ آب میں 
معنی کی فکر چاہے صورت سے کیا حصول 
کیا فائدہ، موج اگر ہے سراب میں 
نے بادِ نوبہار ہے اب نے شمیم گل 
ہم کو بہت ثبات رہا اضطراب میں 
حیرت ہے کیا نقاب ہیں رنگ رنگ کے 
نیرنگِ جلوہ سے ہے تنوع نقاب میں 
فرصت کہاں کہ اور بھی کچھ کام کیجئے
بازی میں جمعہ صرف ہے شنبہ شراب میں 
ذات وصفات میں بھی یہی ربط دیکھیے
جو آفتاب و روشنیِ  آفتاب میں 
قطع نظر جو نقش و نگار جہاں سے ہو
دیکھ وہ آنکھ سے جو نہ دیکھا ہو خواب میں 
طوبیٰ لبم جو کشتۂ عشق عفیف ہیں 
کیا شبہ اس گروہ کے حسن مآب میں 
مرنے کے بعد بھی کہیں شاید پتا لگے
کھویا ہے ہم نے آپ کو عہدِ شباب میں 
پھر ہے ہوائے مطرب و مئے ہم کو شیفتہؔ 
مدت گزر گئی ورع و اجتناب میں 
مطلع کے پہلے مصرع میں شاعر نے ایک سوال کیا ہے کہ اس جہاں میں کیا کوئی آرام سے ہے؟ پہلے ہی مصرع میں جہان خراب کہہ کر جواب بھی دیدیا ہے کہ یہ جہاں ’’ آرام ‘‘ کی جگہ ہے ہی نہیں اور دوسرے مصرع میں گل کے سینہ چاک اور صبا کے ہمیشہ مضطرب رہنے کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اس شعر میں آفاقیت ہے لیکن اس آفاقیت تک ان کی رسائی ذاتی مسائل ومشکلات کے ذریعہ ہوئی تھی۔ انگریزوں نے انہیں ۱۸۵۷ء کے ناکام انقلاب میں ملوث بتایا تھا۔ ہجوم نے ان کی جائیداد اور مکانات نذر آتش کردیئے تھے۔ جہانگیر آباد کے ان کے قلعہ یا محل پر بھی قبضہ کرلیا تھا لہٰذا یہ شعر ذاتی نوعیت کا ہے اس کے باوجوداس کے دائمی قدرکا حامل ہونے سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ’’ چاک گل ‘‘ اور ’’ صبا کے اضطراب‘‘ کے ذریعہ سیاسی خلفشار، بدامنی اور سماجی بدنظمی اور لاقانونیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس میں شاعر کے باطنی کرب کا اظہار بھی ہے اس لئے اس پر تصوف کا گمان ہوتا ہے مگر واقعتاً شیفتہ کا تصوف سے تعلق تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ 
تصوف میں دونظریوں ’’ہمہ اوست ‘‘ اور ’’ ہمہ ازوست ‘‘ کی بحث عام طورپر چھڑی رہتی ہے۔ دوسرے شعر میں ’’ ہمہ ازوست ‘‘  یعنی وحدۃ الشہود کی بازگشت ہے مطلب یہ کہ کائنات کے خالق کا وجود تو ہے ہی جب کائنات وجود میں آگئی تو اس کا وجود بھی ہے مگر ’’ خالق ‘‘ و ’’ مخلوق‘‘ کا جود ایک جیسا نہیں ۔ آئینہ اور آب کی تمثیل سے بہتر تمثیل نہیں ہوسکتی تھی جو اس حقیقت کو واضح کرسکے۔ 
تیسرے شعر میں صورت ومعنی اور موج سراب کے استعارے سے کام لے کر بھی اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے۔ صورت وسراب کی حیثیت غیر موجود کی ہے موجود تو صرف حقیقت ہے۔ 
چوتھے شعر میں شاعر کا یہ کہنا کہ اب باد نوبہار چلتی ہے نہ شمیم گل فرحت بخشتی ہے یہ احساس دلاتا ہے کہ ایک زمانہ یا وقت تھا جب باد نوبہار بھی چلتی تھی اور شمیم گل فرحت بھی بخشتی تھی مگر اب زندگی شادکامی سے محروم یا حادثات کا شکار ہوکر ایسی ہوگئی ہے جیسے باد نوبہار چلتی ہے نہ شمیم گل فرحت بخشتی یا مشام جاں کو معطر کرتی ہے اور مایوسی ومحرومی کی اس حالت سے دوچار ہوئے بھی کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ ’’ہم کو بہت ثبات رہا اضطراب میں ‘‘ کرب مسلسل جھیلنے کا اظہار ہے۔ 
پانچویں شعر میں لفظ حیرت استعمال ہوا ہے۔ حیرت کے علاوہ ’نقاب‘ ، ’’جلوہ ‘‘ اور ’’تنوع ‘‘ بھی صوفیوں کی اصطلاحات ہیں مگر اس غزل یا شعر میں ان کا استعمال خالص لغوی معنی میں ہوا ہے۔ دوسرے شعر میں ’’ ہمہ ازوست ‘‘ پر شیفتہ کے یقین واعتماد کا گمان گزرتا ہے مگر پانچویں شعر میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ انہوں نے ’’ ہمہ اوست‘‘ ( وحدۃ الوجود ) اور ’’ ہمہ از اوست ‘‘ ( وحدۃ الشہود ) میں سے کسی نظریے کو بھی قبول نہیں کیاتھا بلکہ رنگ طبیعت کے تقاضے کے طورپر شعر میں اس کا اظہار کردیا ہے۔ 
اس کے بعد کے یعنی چھٹویں شعر سے تصوف یا سلوک سے متاثر ہونے کے ہر گمان یا امکان کی نفی ہوجاتی ہے ’’ جمعہ کی بازی‘‘ اور ’’شنبہ کی شراب ‘‘ کا اقرار کرکے انہوں نے ہر قسم کے فیوض وبرکات سے تہی دامن ہونے کا اعلان کردیا ہے۔ ان دو کاموں کے بعد وہ حاصل بھی کیا کر سکتے تھے۔ 
اس کے بعد کے شعروں یعنی ساتویں، آٹھویں اور نویں شعر میں ذات وصفات کی پرانی بحث کو بالکل شاعرانہ رنگ میں پیش کیا گیا ہے یعنی آفتاب وروشنی آفتاب میں یا نقش ونگار ہستی اور خالقِ کائنات میں وہی ربط ہے جو ذات وصفات میں مگر مظاہرکا ئنات میں الجھاؤ بہت ہے اگر انسان ان سے صرف نظر کرتے ہوئے عرفان وایقان کو اپنا شعار بنالے تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہوجاتا ہے جنہیں اچھے ٹھکانے کی خوشخبری دی گئی ہے۔ 
مقطع اوراس سے پہلے کے شعر میں جس پری چہرہ کو عہد شبا ب میں کھودینے کا ذکر ہے دوبارہ اسی کی انجمن میں باریابی کی خواہش کا بھی اظہار ہے۔ ’ورع ‘ اور ’ اجتناب ‘ جیسے لفظوں سے تصوف و سلوک سے متاثر ہونے کا گمان گزرتا ہے مگریہ خالص عشقیہ شعر ہے۔ تصوف میں یا سلوک کے مقامات میں ’ورع‘ کو ’انابت‘ ’توبہ ‘ اور ’ استقامت‘ کے بعد کی منزل قراردیا گیا ہے مگر اس شعر میں لفظ ’ورع‘ کو ترک لذات کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ 
شیفتہ کی یہ غزل مبالغہ آرائی یا صنعت گری سے خالی ہے۔ اس میں زندگی اور متعلقات زندگی کی ناپائیداری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے باوجود یہ سپاٹ اور پھیلی نہیں ہے اس میں عہد شباب کی شادکامی کے اقرار کے ساتھ رقص وسرور میں وقت گنوا دینے کے سبب حزن کی لَے بھی ہے اس لئے اس پر تصوف کا گمان ہوتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK