Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۹)

Updated: June 24, 2024, 12:04 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

والہانہ کیفیت میں ڈوبی ہوئی مرزا غالب ؔ کی تصوف رنگ غزل کا پراثر تجزیہ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

غالب سے گہری عقیدت کے باوجود ایک رباعی پر تبصرہ کرتے ہوئے حالیؔ کو کہنا پڑا تھا کہ ’’اس رباعی میں مرزا کی شوخی وگستاخی حد سے زیادہ گزر گئی ہے۔ دارالافتاء میں تو یقیناً اس پر کفر کا فتویٰ دیا جائے گا۔ ‘‘دوسروں نے تو زیادہ لکھا ہے اوریہ تمام لوگ غالب کی عادات سے بھی واقف تھے اس کے باوجود انتقال ہوتے ہی غالب کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھا جانے لگا تھا۔ بیشتر لوگ ان کے صوفی ہونے کے قائل تھے اور خود غالب بھی اس کے مدعی تھے۔ میر مہدی مجروح کے نام نومبر ۱۸۵۷ء کے ان کے خط میں ہے کہ :
’’ میاں لڑکے سنو! میر نصیرالدین اولاد میں سے ہیں شاہ محمداعظم صاحب کی، وہ خلیفہ تھے مولوی فخرالدین صاحب کے اور میں مرید ہوں اس خاندان کا… صوفی صافی ہوں اور حضرات صوفیہ حفظ مراتب ملحوظ رکھتے ہیں۔ گرحفظ مراتب نہ کنی زندیقی ‘‘
شعروں میں تو ان کا دعویٰ کچھ اور بڑھ گیا ہے
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
یا 
دیکھیو غالب سے گرا لجھا کوئی 
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا
مگر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غالب جن باتوں کے منکر تھے تو تھے جن باتوں کے منکرنہ تھے یا انہیں تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے تھےان کی بھی ایسی تاویل کیا کرتے تھے جو سب کے لئے قابل ِ قبول نہ تھی۔ منشی ہرگوپال تفتہؔ کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ 
’’ یہ نہ سمجھا کرو کہ اگلے جو کچھ لکھ گئے ہیں وہ حق ہے، کیا اس وقت آدمی احمق پیدا نہیں ہوتے تھے۔ ‘‘ (بحوالہ یادگار، ص ۷۸)
مگر اس قسم کی باتوں کے برعکس بھی کچھ روایات ہیں مثلاً حالیؔ نے ’یادگار‘ میں لکھا ہے :
’’ نواب ممدوح (شیفتہ ) فرماتے تھے کہ میں شاہ ولی اللہ کا ایک فارسی رسالہ جو حقائق و معارف کے نہایت دقیق مسائل پر مشتمل ہے مطالعہ کررہا تھا اورایک مقام بالکل سمجھ میں نہ آتا تھا، اتفاقاً اس وقت مرزا صاحب آنکلے۔ میں نے وہ مقام مرزا کو دکھایا، انہوں نے کسی قدر غور کے بعد اس کا مطلب ایسی خوبی اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا کہ شاہ ولی اللہ صاحب شاید اس سے زیادہ نہ بیان کرسکتے۔ ‘‘ ( ص ۶۰)
ان بیانات واعترافات سے واضح ہے کہ غالب کے فکر وعقیدہ کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ وہ جن کیفیات سے گزرتے رہے ان کو سمجھنا تو اور مشکل ہے۔ ایسی ہی کسی کیفیت میں جس کو سمجھنا محال ہے انہوں نے یہ غزل کہی تھی:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے  
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے 
اک کھیل ہے اورنگ سلیماں مرے نزدیک   
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے 
جز نام نہیں صورت عالم مجھے منظور  
جز وہم نہیں ہستی اشیا مرے آگے 
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے  
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے 
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر  
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے 
بعض لوگوں نے کچھ  خارجی واقعات کی روشنی میں ان اشعار کی تشریح کی ہے۔ بعض لوگوں نے حالت سُکر اور ذوق ومستی میں کہے گئے مغلوب الحال صوفیاء کے بعض قابل اعتراض جملوں سے ان کو تشبیہ دی ہے ۔ کالی داس گپتا رضاؔ نے انہیں ’لیلا‘ قراردیا ہے۔ مگر ان میں سے کسی سے بھی اتفاق کرنا مشکل ہے۔ غالب نے’ اورنگ سلیماں ‘اور’اعجاز مسیحا‘کو یعنی معجزات انبیاء کو ہیچ قرار دیا ہے ہستی اشیاء کو وہم قراردیا ہے۔ ’’گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے‘‘ کہہ کر نظام قدرت کے اپنے ہاتھ میں یا تصرف میں ہونے کا دعویٰ کیا ہے مگر ان کی زندگی بایزید بسطامی جیسی تھی نہ حسین بن منصور حلاج یا کسی اور کی طرح۔ اور پھر انہیں یہ ہوش بھی تھا کہ ’’ کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے۔ ‘‘
اکثر ناقدین نے اس شعر کو غالب کی روشن خیالی اور مستقبل بینی یا دین اسلام سے انحراف کا اشاریہ قراردیا ہے مگر راقم الحروف کا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کنویں میں کود کر، دریا میں چھلانگ لگاکر یا پہاڑ سے نیچے کی طرف جست لگا کر مرجانا چاہتا ہو تو اس کو آگے سے بچائیں گے یا پیچھے سے؟ یقیناًپیچھے سے پکڑ کر۔ غالب یہی کہہ رہے ہیں کہ نیا تمدن اورنئے حکمراں مجھے اپنی طرف راغب کررہے ہیں مگر میں جس دین کا ماننے والا ہوں اس کے مبادیات مجھے ٹس سے مس ہونے نہیں دیتے۔ ہزار کلیسا مرے سامنے ہوں مگر کعبہ پر مرا ایمان یا اس سے رشتہ اتنا مستحکم ہے کہ ٹوٹ ہی نہیں سکتا۔ 
غمگین دہلوی کے نام ان کے ایک خط میں ہے:
’’ یہ عالم محسوسات اور یہ کائنات اور اس کے افراد واشخاص عالم، کائنا ت اور افراد نہیں ہیں بلکہ ان کے اعیان ثابتہ ہیں کیونکہ کہا گیا ہے کہ اعیان نے وجود کی بو بھی نہیں سونگھی۔ وہ جس طرح ازل سے علم الٰہی میں ہیں اسی طرح اب بھی ہیں اور وہ علم سے خارج میں کبھی نہیں آئے نہ آئیں گے۔ ‘‘ ( اردو ترجمہ۔ میکش اکبر آبادی )
ایک شعر میں غالب نے کافر نہ ہونے اور گنہگار ہونے کا بھی اعلان کیا ہے: 
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے   
آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں 
ایک خط میں لکھا ہے کہ جب ایک انگریز جج نے دربار کیا اور غالبؔ کو طلب کیا تو وہ عدالت کے ایک کونے میں بیٹھ کر ’’یا حفیظُ یا حافظُ‘‘، کا ورد کرتے رہے۔ ان تمام شواہد کی بنیاد پر یہ کہنا برحق ہے کہ کسی جملے، لطیفے ، فقرے یا شعر کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگانا خلاف احتیاط ہے۔ ان کے جملوں، شعروں میں ان کی خوش عقیدگی اور سچی بندگی کا اظہار بھی ہے۔ وہ کہیں کہیں واقعتاً ’’کھلا کافر‘‘ اور’’ پوشیدہ ولی‘‘ ہونے کا احساس دلاتے ہیں۔ 
’’ ہوتا ہے شب وروز تماشا مرے آگے‘‘
دراصل ان کے تحیر کا اظہار ہے جو تصوف کا خاص موضوع ہے۔ سائنس اور علم کا بھی یہی حال ہے۔ مشہور سائنس داں آئنسٹائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ زندگی کے آخری ایام میں وہ بھی حیرت سے دوچار تھا اور کہتا تھا:
’’ سائنس نے جو رموز حل کئے ہیں اس سے بڑے رازسامنے آگئے ہیں۔ کائنات کے بارے میں جو چیز سب سے زیادہ قابل فہم ہے وہ یہ کہ کائنات ناقابل فہم ہے۔ ‘‘ غالب کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK