• Wed, 20 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۹)

Updated: September 02, 2024, 12:19 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں عشق رسول اکرمؐ میں سرشار رہنے والے شاعر بیدم شاہ وارثی کے کلام میں تصوف اور کیف و سرور ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

علماء اور اکابر صوفیاء نے ان لوگوں کو ترجیح دی ہے جو قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی گزارنے میں ثابت قدم رہے ہیں۔ جاہل صوفیہ سے بھی دور رہنے کی تلقین کی ہے مگر صوفیہ میں ایسوں کی تعداد بھی بہت ہے جو اگر چہ مغلوب الحال یا مست نظر آتے تھے مگر ایسے جملے بولنے میں احتیاط کرتے تھے، جن میں آدابِ شریعت کا لحاظ نہ رکھا گیا ہو۔ سکر، ذوق ومستی، فنا یا جمع الجمع کی حالت میں کہے گئے جملوں پر بعض علماء اور صوفیہ نے گرفت کی ہےکئی صوفیہ کے ذوق ومستی یا حالت سکر میں کہے گئے جملوں پر اظہار ندامت اور توبہ کرنے کی روایات بھی موجود ہیں اور بعض نے عدم توجہی برتی ہے مگر ان کی اقتداء وپیروی کی تعلیم کسی نے نہیں دی ہے۔ علماء اور صوفیاء نے تمام سلسلوں کوبھی معتبر نہیں تسلیم کیا ہے۔ 
ان مباحث پر کچھ لکھنے کا راقم الحروف اہل ہے نہ اس کالم میں ان کی گنجائش ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کئی ایسے شاعروں کے کلام میں جو تصوف کے قائل نہیں تھے تصوف کی چاشنی اور کئی صوفیوں کے جملوں یا شاعروں کے کلام میں جذب وکیف یا ایسی ذوق ومستی شامل ہے جو آداب ِ شریعت کا لحاظ رکھنے والوں کو گراں گزرتی ہے مگر والہانہ کیفیت ہر حال میں عزیز ہوتی ہےمثلاً بیدم شاہ وارثی جو ۱۸۷۹ء یا ۱۸۷۶ء میں اٹاوہ میں پیدا ہوئے، ۱۹۳۱ء میں لکھنؤ میں انتقال کیا اور دیوہ کے قبرستان میں آرام فرما ہیں۔ جذب ومستی میں زندگی گزارنے کے چند واقعات کے ساتھ ان کی غزل کا بھی ایک شعر ذہن میں ہے، جس کو میں اکثر دہراتارہتا ہوں 
مقدر میں جو سختی تھی وہ مرکربھی نہیں نکلی
لحد کھودی گئی میری تو پتھریلی زمیں نکلی 
یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیدم شاہ وارثی اصلاً نعت ومنقبت کے شاعر ہیں غزل کے چند شعروں کی وجہ سے انہیں پر ایک کالم لکھنے کا خیال آیا۔ اوپر لکھے ہوئے شعر کے علاوہ یا دداشت نے جن شعروں کی یاد دہانی کی وہ یہ ہیں۔ 
نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے 
تری زلف ورخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے
ترا جلوہ جو ہستی ہے تو پھر قیدِ نظر کیسی 
مری ہستی جو پردہ ہے تو یہ بھی درمیاں کیوں ہو
خود کہانی فراق کی چھیڑی 
خود کہا! بس سنی نہیں جاتی 
پی تھی بیدم ازل میں کیسی شراب
آج تک بے خودی نہیں جاتی
متفرق شعروں کے علاوہ مکمل غزل کا نقل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ بیدم شاہ کی شخصیت کا جذب اور صنف غزل کا رمز نمایاں ہوجائے۔ اس غزل سے ایک شخص کے ذوق جذب ومستی اور صنف غزل کے رمزوایما کے ساتھ وہ معنوی کائنات بھی سامنے آجاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صنف نے کیسے کیسے مضامین کو دو مصرعوں میں سمودیا ہے۔ 
اپنی ہستی کا اگر حسن نمایاں ہو جائے
آدمی کثرت انوار سے حیراں ہو جائے
تم جو چاہو تو مرے درد کا درماں ہو جائے
ورنہ مشکل ہے کہ مشکل مری آساں ہو جائے
او نمک پاش تجھے اپنی محبت کی قسم 
بات تو جب ہے کہ ہر زخم نمک داں ہو جائے
دینے والے تجھے دینا ہے تو اتنا دے دے
کہ مجھے شکوۂ کوتاہیٔ داماں ہو جائے
اس سیہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں 
خواب راحت بھی جسے خواب پریشاں ہو جائے
آخری سانس بنے زمزمۂ ہو اپنا
ساز مضراب فنا تارِ رگِ جاں ہو جائے
تو جو اسرار حقیقت کہیں ظاہر کر دے
ابھی بیدمؔ رسن و دار کا ساماں ہو جائے
اس پوری غزل میں اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ نے انسان کو زندگی اور وجود کی شکل میں کیسی کیسی صوری اور معنوی نعمتوں سے نوازا ہے۔ مختصر ترین لفظوں میں بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر بنایا ہے اور اس کو ایسی ایسی خصوصیات سے نوازا ہے کہ وہ رشک فرشتہ بنا ہوا ہے۔ نثر میں انسان کے کمال ومحاسن کے بیان کے لئے پورا فلسفہ ناکافی ہے اور والہانہ کیفیت میں زبان سے نکلا ہوا ایک نامکمل جملہ یا مصرع بھی سب کچھ بیاں کردینے پر قادر ہے۔ بیدم شاہ وارثی تا عمر ایک خاص کیفیت سے سرشار رہے اور ان کے تخلیق کئے ہوئے اشعار اسی سرشاری کا نتیجہ ہیں۔ اگر انسان بیان کرنا چاہے اور سننے والا اس کا اہل ہو تو مندرجہ بالا غزل سے بھی تخلیق کائنات اور تخلیق انسان کا پورا فلسفہ یا تخلیق کائنات وانسان کے پس پردہ مشیت الٰہی کو بیان کرسکتا ہے۔ 
جذب وکشش کی انتہا کو حیرت کہتے ہیں۔ حیرت کو دوسرے لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ علم اور سلوک کے حاصل کو بھی حیرت کہتے ہیں جب کسی سالک کے پیش نظر اللہ کا جلوہ ہوتا ہے تویہی نہیں کہ وہ کسی حد تک احساسات سے بے نیاز ہوجاتا ہے بلکہ حیرت کی فراوانی اس کو اس کیفیت سے سرشار کردیتی ہے جس کی انتہا جنون ہے۔ بیدم شاہ ایسی ہی کیفیت سے سرشار رہے۔ ان کو مجنون ومجذوب کہنا درست نہیں مگر انہوں نے اپنی کیفیات سے جس قسم کی لذت حاصل کی ہے یا کیفیت کے بحر ناپیدا کنار سے جس طرح دُر نایاب نکال کردنیا والوں کو پیش کئے اس سے ان کا ذاتی غم سے بے نیاز ہوجانا ظاہر ہوتا ہے۔ بے نیاز ہوکر بھی وہ اسرار حقیقت یا اپنے مشاہدات بیان کرنے میں احتیاط سے کام لیتے رہے ہیں۔ مندرجہ بالا غزل کے ہی ایک شعر 
تو جو اسرار حقیقت کہیں ظاہر کردے
ابھی بیدم رسن و دار کا ساماں ہوجائے
سے ثابت ہوتا ہے کہ مشاہدات کو بیان کرنا لفظوں کے بس میں ہے بھی نہیں اور اگر کوئی بیان کردے تو جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ اس حقیقت کی گواہ دوسری غزلیں بھی ہیں۔ 
بے خُود کئے دیتے ہیں انداز حجابانہ​
آ دِل میں تجھے رکھ لُوں اے جلوہ ٔ جانانہ
اتنا تو کرم کرنا اے چشم کریمانہ 
جب جان لبوں پر ہو تم سامنے آجانا
​کیوں آنکھ ملائی تھی کیوں آگ لگائی تھی
اب رُخ کو چُھپا بیٹھے کر کے مُجھے دِیوانہ​
کیا لطف ہو محشر میں شکوے میں کئے جاؤں 
وہ ہنس کے کہے جائیں دیوانہ ہے دیوانہ
ساقی ترے آتے ہی یہ جوش ہے مستی کا 
شیشے پہ گرا شیشہ پیمانے پہ پیمانہ
معلوم نہیں بیدمؔ میں کون ہوں اورکیا ہوں 
یوں اپنوں میں اپنا ہوں بیگانوں میں بیگانہ
بیدم شاہ وارثی کے کلام میں بے پناہ کیفیت اور سرشاری ہے لیکن یہ کیفیت وسرشاری معنویت سے خالی نہیں ہے۔ انداز حجابانہ، جلوہ ٔ جانانہ، چشم کریمانہ … کے حوالے سے بہت کچھ بیان کیاجاسکتا ہے۔ فضل الرحمٰن گنج مرادآبادیؒ نے ’’تجلی ‘‘ کا ترجمہ کچھ دیکھا کچھ نہیں دیکھا ‘‘ کیا ہے۔ یہاں جلوۂ جانانہ اورانداز حجابانہ سے انوار وتجلیات کا مشاہدہ ہی مراد ہے۔ اس غزل کے مفہوم کو سالک کے مشاہدات ہی کے حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے لغات کے حوالے سے نہیں ۔ اس کو صرف پڑھنے سے بھی جو کیفیت طاری ہوتی ہے وہ معنی کی ترسیل پر قادر ہے۔ 
بیدم شاہ وارثی جس قسم کی مجذوبانہ زندگی گزارتے تھے یا والہانہ کیفیت سے آخر دم تک سرشار رہے وہ اسی قسم کی شاعری کی متحمل ہو سکتی تھی۔ وہ کیا مشاہدہ کرتے تھے یہ تو دوسرا نہیں بتاسکتا مگر ان کے شعروں میں جس قسم کی کیفیات بیان ہوئی ہیں وہ انہیں مشاہدات کا نتیجہ ہیں جن کا بیان شریعت کی سخت گرفت کا متقاضی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK