• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۷)

Updated: August 19, 2024, 11:59 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں طنز و مزاح کے مشہور شاعر اکبر الہ آبادی کی شاعری میں موجود اخلاقی نشتر کے کچھ نمونے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

’طنز، مذاق اڑانے ‘ آوازہ کسنے اور رمز کے ساتھ بات کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اوراس انداز سے با ت کرنے کے معنی میں بھی جو دلآزاری کا باعث بنے۔ اسی طرح مزاح خوش طبعی اور ہنسی مذاق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور ناشائستہ گفتگو کرنے کے معنی میں بھی مگر بیشتر طنز ومزاح سے دلآزاری اورناشائستہ نہیں بلکہ ایسی گفتگو مراد لی جاتی ہے جو دل کو لگے مگر جذبہ ٔ انتقام کو ہوا نہ دے۔ اس لئے یہ تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ سید اکبر حسین اکبر الہ آبادی (۱۸۴۶۔ ۱۹۲۱ء) اردو ادب میں طنزو مزاح نگار کی ہی حیثیت سے مشہور ہیں انہیں حالی وشبلی کی طرح اقبال کا پیشرو اور اصلاح پسند شاعرمانتاہوں۔ انہوں نے سیدھی سادی بات میں بھی وہ نکتہ پیدا کیا ہے یا بات کہنے کا وہ انداز اختیار کیا ہے کہ بیشتر شعر اخلاقی نشتر کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں اور جسم سے ہی نہیں ذہن سے بھی فاسد مادہ نکالنے کا کام کرتے ہیں۔ اہلیان لکھنؤ نےجب اکبر کو ظرافت تک محدود کردینے کی کوشش کی تو یاس یگانہ چنگیزی نے اکبر کے حق میں آواز بلند کی اور جو اشعار ان کے فلسفیانہ رنگ کو ثابت کرنے کے لئے پیش کئےان میں ایک شعر یہ بھی تھا :
ذہن میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا 
جو سمجھ میں آگیا وہ خدا کیونکر ہوا
اکبر کے خلاف کئی اہم لوگوں نے مضامین لکھے ہیں، گوپی چند نارنگ نے ’’اکبر الہ بادی سخن فہموں اور طرفداروں کے درمیان ‘‘ کے عنوان سے اکبر کی مدح وقدح کا جائزہ بھی لیا ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی نے ان کو ایک اہم شاعر تسلیم کیا ہے۔ راقم الحروف اکبر کو دقیانوسی، رجعت پسند یا ہنسی ٹھٹھاکرنے والا شاعر نہیں بلکہ تعمیر پسند شاعر سمجھتا ہے۔ کیا کوئی رجعت پسند یا ہنسی مذاق میں وقت ضائع کرنے والا شخص ایسے شعر کہہ سکتا ہے؟
(۱)صدیوں فلاسفہ کی چناں اور چنیں رہی 
لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی 
(۲)مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں 
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں 
(۳)تحفہ ٔ شب برات کیا تمہیں دوں 
جانِ من تم تو خود پٹاخہ ہو
(۴)خوش نصیب کون ہے دنیا میں بھلا گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
(۵)ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں 
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں 
اکبر کے بارے میں عام طور سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ مروجہ مذہب اور طرز زندگی کے سخت پابند اور ہر ایجاد یا ترقی کے مخالف تھے۔ کیا ذیل کے اشعار ان دونوں الزامات کی نفی نہیں کرتے؟
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں 
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں 
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
مغرب نے خوردبیں سے کمر ان کی دیکھ لی 
مشرق کی شاعری کا مزہ کرکرا ہوا
تینوں شعروں میں مذہب کے نام پر لڑنے جھگڑنے، بے عملی اور نفاق کی زندگی ترک کرنے، ظالم حکمرانوں کے سامنے اعلان حق کرنے اور ہرایجاد کے مفید پہلو کا استقبال کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اب کن بنیادوں پر اکبر کو رجعت پسند یا دنیاوی ترقی کا مخالف کہا جائے؟ ہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اکبر چونکہ روشن ضمیری اور دل وذہن کی بیداری کی دولت سے مالا مال تھے اور تنزلی بہ شکل ترقی کے نقصانات کو بھی سمجھتے تھے اس لئے وہ مذہب کے نام پر سب کچھ قبول کرلینے کے قائل تھے نہ سائنسی ترقی کے نام پر۔ 
تصوف کے نام پر بھی وہ شریعت سے سرمو انحراف کےلئے تیار نہیں بلکہ خلوص دل سے شریعت کی پابندی کو ہی تصوف قراردیتے ہیں۔ 
نہ صورت کا تصنع ہے نہ رسموں کا تکلف ہے
شریعت کی بدِل تعمیل ہو بس یہ تصوف ہے
انہوں نے شریعت وطریقت میں دوئی تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا ہے۔ جذب وسکر میں بھی وہ شرعی حدود سے باہر نکلنے کو غلط سمجھتے ہیں حتیٰ کہ منصور کے ساتھ بھی کسی قسم کی رورعایت کے قائل نہیں ہیں ۔ کہتے ہیں 
حضرت منصور انا بھی کہہ رہے ہیں حق کے ساتھ 
دار تک تکلیف فرمائیں جب اتنا ہوش ہے
تصوف میں شیخ یا مرشد کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ تمام سلاسل شیوخ یا ان کے خلفاء سے ہی چلتے ہیں اکبر بھی شیخ یا پیر طریقت یا رُجل اللہ کے منکر نہیں ہیں۔ 
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا 
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
البتہ شیخ  میں بعض اوصاف کو ضروری قراردیتے ہیں، 
سرمیں سودا آخرت کا ہو یہی مقصود ہے
مغربی ٹوپی پہن یا مشرقی دستار باندھ 
بنو گے خسروِ اقلیم دل شیریں زباں ہوکر 
جہاں گیری کرے گی یہ ادا نورجہاں ہوکر
زمیں کی طرح جس نے عاجزی وخاکساری کی
خدا کی رحمتوں نے اس کو ڈھانکا آسماں ہوکر
مگر اس بات پر افسوس بھی کرتے ہیں کہ انہیں ایسے لوگ نہیں ملتے یا بہت کم ملتے ہیں جو دوہری زندگی نہ گزارتے ہوں۔ 
کشتیِ دل کی الٰہی بحرہستی میں ہو خیر
ناخدا ملتے ہیں لیکن باخدا ملتا نہیں 
ترکیب وتکلف لاکھ کرو فطرت نہیں چھپتی اے اکبر
جومٹی ہے وہ مٹی ہے جو سونا ہے وہ سونا ہے
کیجئے ثابت خوش اخلاقی سے اپنی خوبیاں 
یہ نمود جبّہ و دستار رہنے دیجئے
اکبر اصلاح پسند شاعر ہیں وہ بار بار احساس دلاتے ہیں کہ ہر چیز فانی ہے، انسان کا وجود بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ 
حباب اپنی خودی سے بس یہی کہتا ہوا گزرا 
تماشا تھا ہوا نے اک گرہ دے دی تھی پانی میں 
ہرقدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لئے
منزل ہستی نہیں ہے دل لگانے کے لئے
منتشر ذروں کو یکجائی کا جوش آیا تو کیا
چار دن کے واسطے مٹی کو ہوش آیا تو کیا
چشم خرد سے عار تھی حسن جنوں پسند کو
عقل نے آنکھ بند کی اس نے حجاب اٹھادیا
اکبر کا کلا م یہ احساس دلاتا ہے کہ انسان جس عہدکو پورا کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ تو اس عہد کو بھول ہی گیا ہے اس عہد کو یادد لانے کا دعویٰ کرنے والے بھی مخلص نہیں رہے۔ جو حی قیوم ہے اس کی نافرمانی کرکے وہ اس دنیا اور متعلقات دنیا میں دل لگائے ہوئے ہیں اور ان کے تمام مسائل اسی لئے ہیں کہ ان کی نیت درست ہے نہ اعمال۔ طنز ومزاح کے ہنر نے ان کے کلام میں کمال کا اثر پیدا کردیا ہے اور پھر وہ دوسروں کو نشانہ بنانے سے پہلے خود کو گنجِ عیوب بناکر پیش کرتے ہیں۔ اپنے بیٹے عشرت کو انہوں نے لندن میں جو منظوم خط لکھا تھا کہ 
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزہ بھول گئے
اس کے آخر میں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بچوں اور نوجوانو ں پر اچھی باتیں اس لئے اثر انداز  نہیں ہوتیں کہ بوڑھے بھی ’’ روش دین خدا‘‘  بھول گئے ہیں۔ یہ اس زمانے کا خاص طور سے المیہ ہے کہ ہر شخص دوسرے شخص کے اخلاق وکردار کا شاکی ہے مگر خود اپنے اخلاق و کردار کا محاسبہ کبھی نہیں کرتا۔ صوفیہ نے یہ دعوت ہر زمانے میں دی ہے۔ اکبر نے اپنی شاعری کے مزاج کے مطابق بدلا ہوا انداز اختیارکیا ہے جو موثر بھی ہے۔ انہوں نے دنیا اور متعلقات دنیا پر نکتہ چینی کرکے اپنا کاروبار حیات چلانے والوں پر بھی تنقید کی ہے مگر اس انداز سے کہ جس پر تنقید ہویا جس کو نشانہ بنایاجائے وہ اصلاح پر آمادہ ہو انتقام پر نہیں۔ اعتقادی اور معاشرتی برائیوں سے دور لے جانے کا یہی انداز صوفیہ کا سب سے پسندیدہ انداز ہے۔ اکبر نے اس کی اتباع کی ہے، کہتے ہیں 
علم کے جہل سے بہتر ہے کہیں جہل کا علم 
میرے دل نے یہ دیا درس بصیرت مجھ کو

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK