• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۶)

Updated: August 19, 2024, 11:44 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں اصلاح پسند شاعر اور نقاد الطاف حسین حالی کی وہ غزل جس میں تصوف تہہ در تہہ جلوہ فرما نظر آتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

کسی ایسے شاعر کے کلام میں روحانیت یا خدا کے وجود پر یقین کی تلاش جو بلا نوش ہو یا کسی دوسری برائی میں ملوث ہو یا منکرِ خدا سمجھاجاتا ہو میری ذہانت ہے نہ حماقت بلکہ صرف یہ بتانے کی کوشش ہے کہ برائی اور گمرہی میں مبتلا شخص پر بھی ایک ایسی کیفیت طاری ہوتی ہے جب وہ سچ بول بیٹھتا ہے۔ اسی طرح تمام تر علم، تقویٰ اور پرہیزگاری کے باوجود مومن کی زبان سے بھی ایسا جملہ نکل جاتا ہے جو گمراہ کن یا کم از کم ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ جہاں تک تصوف کا تعلق ہے ایک طرف تو ایسے لوگوں کے تصوف پسند ہونے کا بھی انکار کیاجاتا ہے جو تصوف سے قطعی لاتعلق نہیں ہیں اور دوسری طرف ایسے لوگوں کو بھی صوفی کے طور پر شہرت دے دی جاتی ہے جن کا مقصد شہرت اور دولت کمانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ علما ء، صوفیاء، شعراء سب نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے:
قمرؔ تسبیح پڑھتے جارہے ہیں سوئے میخانہ
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے بڑے اللہ والے ہیں 
الطاف حسین حالی کی شہرت’ اصلاحی اور موضوعاتی شاعری‘، ’ مقدمہ شعر وشاعری‘ ’مسدس‘ اور ’مجالس النساء‘ کے سبب ہے۔ ان کے زمانے میں جو معاشرتی برائیاں اور سیاسی انتشار تھا انہوں نے ان کے برے اثرات سے تو معاشرے کو بچانے کی کوشش کی ہی شعروقصائد کو ناپاک دفتر ہونے سے بھی بچایا۔ ڈاکٹر عابد حسین نے بجا طورپر ان کو اپنے زمانے کا ’’مجدد‘‘ کہا ہے جس کی شاعری میں اخلاقیات کا درس ہے۔ 
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر 
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر
بڑھاؤ نہ آپس میں ملت زیادہ
مبادہ کہ ہو جائے نفرت زیادہ 
تکلف علامت ہے بے گانگی کی 
نہ ڈالو تکلف کی عادت زیادہ 
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا 
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
اخلاقیات کے درس کے علاوہ ان کے شعروں میں محبت، وحدت اورکثرت میں وحدت کے مضامین بھی بیان کئے گئے ہیں۔ حالی نے پنجاب کے مشاعروں میں نئے موضوعات پر نظمیں سنانے کے علاوہ غزل کے مزاج میں بھی تبدیلی پیدا کی ہے۔ تبدیلی بھی ایسی کہ موضوعات کے لحاظ سے غزل کو ایک نئی منزل تک پہنچا دیاہے، قدماء کے فیصلوں پر اضافے بھی کئے ہیں۔ یہاں پیش ہے ایک مکمل غزل :
رنج اور رنج بھی تنہائی کا 
وقت پہنچا مری رسوائی کا 
عمر شاید نہ کرے آج وفا 
کاٹنا ہے شب تنہائی کا 
تم نے کیوں وصل میں پہلو بدلا 
کس کو دعویٰ ہے شکیبائی کا 
ایک دن راہ پہ جا پہنچے ہم 
شوق تھا بادیہ پیمائی کا 
اس سے نادان ہی بن کر ملیے 
کچھ اجارہ نہیں دانائی کا 
سات پردوں میں نہیں ٹھیرتی آنکھ 
حوصلہ کیا ہے تماشائی کا 
درمیاں پائے نظر ہے جب تک 
ہم کو دعویٰ نہیں بینائی کا 
کچھ تو ہے قدر تماشائی کی 
ہے جو یہ شوق خود آرائی کا 
اس کو چھوڑا تو ہے لیکن اے دل 
مجھ کو ڈر ہے تری خود آرائی کا 
بزم دشمن میں نہ جی سے اترا 
پوچھنا کیا تری زیبائی کا 
یہی انجام تھا اے فصل خزاں 
گل و بلبل کی شناسائی کا 
مدد اے جذبۂ توفیق کہ یاں 
ہو چکا کام توانائی کا 
محتسب عذر بہت ہیں لیکن 
اذن ہم کو نہیں گویائی کا 
ہوں گے حالیؔ سے بہت آوارہ 
گھر ابھی دور ہے رسوائی کا 
صرف مطلع اور مقطع کا مفہوم بھی ذہن میں ہوتو پوری غزل کسی تفہیم و تشریح کی محتاج نہیں رہ جاتی۔ 
مطلع کا پہلا لفظ رنج ہے جو غصہ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور پچھتاوا کے معنی میں بھی۔ غصہ تب آتا ہے یا جھنجھلاہٹ تب پیدا ہوتی ہے جب کسی چیز کے کھودینے یا نہ ملنے میں اپنی کوتاہی یا عدم توجہی کا دخل ہو۔ ’پچھتاوا‘ یا ’افسوس‘ اس وقت ہوتا ہے جب ارادتاً غلطی کی گئی ہویا اپنا فرض پورا نہ کرنے کے سبب ہاتھ آئی چیز ہاتھ سے نکل گئی ہو۔ شاعر نے مطلع کے مصرعہ ٔ اولیٰ میں ہی واضح کردیا ہے کہ اس کو تنہا ہونے یا تنہا کردیئے جانے کا رنج ہے۔ تنہائی تب بھی مقدر ہوتی ہے جب قصداً گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے اوراس وقت بھی جب اپنوں نے یا سب نے چھوڑ دیا ہو۔ اقبال کی ایک نظم کا عنوان ’’تنہائی‘‘ ہے اس میں اشارہ ہے کہ انسان اور اشیائے کائنات ممکن الوجود ہیں جبکہ واجب الوجود صرف مالک وخالق ہے مگر جو اشیاء ممکن الوجود ہیں یعنی جن کو فنا ہونا ہے ان میں فضیلت و بالادستی صرف انسان کو حاصل ہے کہ وہ جذبۂ عشق سے معرفت حق حاصل کرسکتا ہے۔ تنہائی اور رسوائی میں جو دوسرے مصرعے میں استعمال ہوا ہے ایک خاص نسبت اس لئے ہے کہ تنہائی کے سبب اضطراب صرف انسان میں پیدا ہوسکتا ہے کسی دوسری چیز میں نہیں اورجس میں اضطراب پیدا ہوتا ہے رسوا ہونے کا امکان اسی کے لئے ہے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ ’’موج دریا ‘‘ انسان نہیں ہے مگر اضطراب اس میں بھی ہے۔ شاعر سمندر کی موج سے یہی پوچھتا ہے کہ آخر تو مضطرب یا بے چین کیوں ہے؟ کیا اس لئے کہ تری آغوش میں موتی تو بہت ہیں مگر وہ نایاب موتی (جذبۂ عشق ) نہیں جو میرے سینے میں ہے۔ سمندر کی موج اس سوال کا جواب نہ دے سکی اور دم بخود رہ گئی۔ پہاڑ اور چاند یعنی دوسرے مظاہر یا اشیائے کائنات نے بھی یہی کیا تو شاعر مالک وخالق سے رجوع ہوا کہ کائنات کے کسی ذرہ میں جذبۂ عشق نہیں ہے تو میں ہی سراپا عشق کیوں ہوں ؟ اس شعر میں چونکہ ’’رسوائی ‘‘ کا بھی استعمال کیا گیا ہے اس لئے پیغام یہ ہے کہ عشق و اـضطراب تو ہو مگر روحانی تربیت یا تزکیۂ نفس نہ ہوتو رسوائی مقدر ہوجاتی ہے۔ 
’’آوارہ ‘‘ کا مطلب ’’اوباش وبدچلن ‘‘ بھی ہے اور ’’ پریشان و دربدر ‘‘ بھی۔ ’رسوائی ‘ تب مقدر ہوتی ہے جب اس کا سبب ’بدچلنی‘ ہو۔ حالی کا کہنا یہ ہے کہ وہ پریشان ہیں مگر بدچلن یا اوباش نہیں ہیں اس لئے حالی اور حالی جیسوں یعنی عام انسانوں کی پریشانی کا دور ہونا بھی لازم ہے مگر تاخیر اس لئے ہورہی ہے کہ ’’تزکیۂ نفس ‘‘ کے مقصد کےحصول یاجس سے علاحدہ ہوا ہے اس سےکئے گئے وعدے کی تعمیل پر اس کی توجہ نہیں ہے۔ پہلی قرأت میں تویہ غزل عاشقانہ غزل معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس کے معنی کی تہیں کھلنے لگتی ہیں تو اس کے عارفانہ غزل ہونے کی حقیقت سے پردہ اٹھنے لگتا ہے۔ یعنی یہ غزل کسی دنیاوی محبوب کے فراق کے سبب نہیں ہے بلکہ اس سے کئے ہوئے وعدے کی تعمیل نہ کرنے کے سبب ہے جس نے زندگی جیسی نعمت عطا کی مگر زندگی پانے والے نے شکر نہیں کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ حالی کے دور میں اچھےلوگ نہیں تھےمگر امیر اپنے حال میں مست تھے اور فقیر اپنے حال میں۔ لذت پرستی اور ترکِ دنیا کے اثرات شعروادب سے بھی نمایاں تھے۔ شورش ِ تخیل کو حسن کا اور اضطراب ِ قلب کو عیش کا نام دے دیا گیا تھا۔ حالی نے جو سرسید کے رفقاء میں تھے معاشرے کی اصلاح کی بھی ٹھانی اور شعر وادب میں جان پھونکنے کی بھی۔ تصوف کو بھی ایک تخلیقی قو ت کے طور پر پیش کیا۔ اس تخلیقی فکر کا ادراک کرنے سے عام طورپر لوگ عاجز ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حالی کا کلام تصوف کے مضامین یا کیفیات سے خالی ہے۔ کیا خوبصورت شعرکہا ہے انہوں نے 
کچھ تو ہے قدر تماشائی کی 
ہے جو یہ شوق خود آرائی کا
اس شعر میں ایک حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK