• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۱۳)

Updated: July 22, 2024, 12:42 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں خواجہ حیدر علی آتش کا وہ کلام جس میں عارفانہ اور متصوفانہ رنگ جابجا نظر آتا ہے۔

Photo: YouTube.
تصویر: یوٹیوب۔

خواجہ حیدر علی آتش کی طبیعت کے تصوف کی طرف مائل ہونے کے شواہد ان کے شعروں میں ملتے ہیں مثلاً
(۱)فقیری جس نے کی گویا کہ اس نے بادشاہی کی 
جسے ظلِ ہماکہتے ہیں درویشوں کا کمبل ہے
(۲)سمجھ لیتے ہیں مطلب اپنے اپنے طورپر سامع
اثر رکھتی ہے آتش کی غزل مجذوب کی بڑکا
(۳)جلایا اور مارا حسن کی نیرنگ سازی نے
کبھی تو برقِ غم اس کو کبھی ابرکرم پایا
مندرجہ بالا اشعار سےثابت ہوجاتا ہے کہ جتنے بلند خیالات ان کے ذہن میں آتے تھے اسی معیار کے لفظ بھی ان کو مل جاتے تھے۔ ایک غزل کا تو ہر شعر سلاست وسادگی کا مظہر ہے اسی لئے شعروادب سے رغبت رکھنے والوں میں سے بیشتر کو زبانی یادہے۔ 
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے 
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے 
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا 
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے 
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں 
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے 
بہار آئی ہے نشہ میں جھومتے ہیں 
مریدان پیر مغاں کیسے کیسے 
عجب کیا چھٹا روح سے جامۂ تن 
لٹے راہ میں کارواں کیسے کیسے 
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا 
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے 
نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا 
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے 
بہار گلستاں کی ہے آمد آمد 
خوشی بھرتے ہیں باغباں کیسے کیسے 
ترے کلک قدرت کے قربان آنکھیں 
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے 
بیشتر فارسی، اردو شعراء نے تنگی کے سبب دہن کو ’غنچہ‘ سے تشبیہ دی ہے مگر آتش کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے محبوب کے دہن سے متعلق طرح طرح کےگمان پیدا ہونے اور گمان کے مطابق ذہن میں شاعرانہ نکات پیدا ہونے کا اعلان واثبات کیا ہے۔ اس اثبات نے تجربات ومشاہدات کو انگیز کرنا آسان بنادیا ہے جس کے بغیر یقین کی منزل نہیں مل سکتی۔ 
دوسرے شعر میں انسانی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرکے یاد دہانی کی گئی ہے کہ انسان جو خود کرتا ہے اورجس کے سبب ہلاکت وتخریب کار ی وجود میں آتی اور ہمہ گیر تباہی کا سبب بنتی ہے اس کے لئے بھی وہ آسمان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ردیف کیسے کیسے تعجب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ تعجب بھی بعض ایسے مخصوص حالات و واقعات کی نشاندہی کرتا ہے جس کی اساس شاعر کی ذات بھی ہوسکتی ہے اورکائنات بھی۔ ’رمزیت‘ سے پُر یہ خوبصورت شعر جس میں تعجب پنہاں ہے ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ ان کے زمانے کے حالات اور سماجی انتشار کے حوالے سے بھی اس شعر کی تفہیم کی جاسکتی ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ اس شعر میں ہرزمانے کی یعنی ہمہ گیر سچائی بیان کی گئی ہے۔ 
تیسرے شعر میں مبالغہ تو ہے مگر یہ مبالغہ گراں نہیں گزرتا، اس سے کلام میں حسن و دلکشی پیدا ہوگئی ہے۔ گل و لالہ وارغواں میں قدر مشترک سرخی ہے۔ شاعر نے بظاہر بہت آسان بات کہی ہے کہ ’’ گل ولالہ وارغواں ‘‘ تمہارے شہیدوں یعنی چاہنے والوں میں شامل ہیں مگر ’’تمہارے‘‘ کا مطلب پردہ میں ہے۔ یہ محبوب کا رخساربھی ہوسکتا ہے اوراس کی صباحت وشادابی بھی، نگاہوں کے خیرہ ہوجانے کے سبب جس کو دیکھنا جذبۂ عشق میں شدت کے باوجود عاشق کے لئے ممکن نہیں ہے اس شعر میں خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ شعر غلط کار صوفیہ پر طنز بھی ہے۔ 
چوتھے شعر میں شاعر نے بظاہر بہت سیدھی اور بالکل سامنے کی بات کہی ہے مگر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’نشہ‘ ’بہار‘ ’ ساقی ‘ جیسے تلازمات کے ذریعہ فصل گل کا پورا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔ اس شعر میں صفت ابہام بھی ہے یعنی شاعر نے اپنے استعمال کئے ہوئے لفظوں کا مفہوم تو واضح نہیں کیا ہے مگر لفظوں کے استعمال سے ایسے قرائن مہیا کردیئے ہیں کہ پڑھنے یا سننے والے کا ذہن اصل مفہوم کو انگیز کرلیتا ہے۔ ایسے اشعار ہی معاشرے میں رائج دہرے معیار کو بے نقاب کرتے ہیں۔ 
پانچویں شعر کے پہلے مصرع میں ’’ عجب کیا ‘‘ کہہ کر روح کے جسم سے جدا ہونے کی حقیقت کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ ایک ایسی حقیقت جس سے انکار ممکن ہی نہیں ہے حیرت کا باعث بنتی ہے۔ دوسری اہم بات یا نکتہ یہ ہے کہ روح کو ’جامہ ٔ تن‘ سے نسبت دی گئی ہے۔ جامہ کتنا ہی قیمتی، مضبوط اور معیاری کیوں نہ ہو ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ کثیف یا میلا ہوتا ہی ہے مگر روح جب تن سے جدا ہوتی ہے تو اس میں درآنے والی کثافت چھٹ چکی ہوتی ہے۔ دوسرے مصرع میں دلیل دی گئی ہے کہ راہ میں ( دنیا میں ) جو بھی کارواں آیا ( پیدا ہوا ) اس کا لٹنا یعنی مرنا لازم ہے۔ یہاں کیسے کیسے سے حیرت کے بجائے رنج وافسوس کا اظہار ہوتا ہے۔ 
چھٹے شعر میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ قاتل تو وہ ہے جو وَار کرنے کےبعد پلٹ کر دیکھتا بھی ہے کہ وار کارگر ہوا یا نہیں ، جو قاتل وار کرتا ہے مگر پلٹ کر نہیں دیکھتا وہ سنگدلی کی انتہا کرتا ہے۔ اس شعر کو قوی اور ملی تاریخ کے پس منظر میں بھی واضح کیاجاسکتا ہے۔ 
ساتویں شعر میں سکندر اور داراجیسے بادشاہوں اور فتوحات حاصل کرنے والوں کا نام اس لئے بھی لیا گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے حریف بھی تھے۔ سکندر فاتح تھا دارامفتوح۔ ان کی طاقت وبادشاہت ان کو بچا سکی نہ ہیبت وشوکت اور بالآخر دونوں فنا کو پہنچے۔ جو فاتح تھا وہ بھی اورجو مفتوح تھا وہ بھی۔ 
آٹھویں شعر میں عارضی خوشحالی کی طرف اشارہ ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کی تاریخ کے حوالے سے بھی اس شعر کی تشریح کی جاسکتی ہے۔ اودھ میں جہاں آتش کا قیام تھا ابتدا میں تو خوش حالی آئی مگر بعد میں بدترین تباہی بھی دیکھنے میں آئی۔ 
مقطع یا آخری شعر میں آتش نے اس احساس کی ترجمانی کی ہے کہ تمام تر مسائل ومشکلات کے باوجود زندگی بھی خوبصورت ہے اور زندہ رہنے کی جگہ، دنیا بھی اسی لئے کاروان تمدن رواں دواں ہے۔ ’کلکِ قدرت‘ صانع ازل ہے اور شاعر نے ان کی بارگاہ میں شکر ادا کیا ہے۔ 
اس غزل میں خواجہ حیدر علی آتش کے کلام کی تمام خوبیاں ہیں مگر ردیف نے خاص طور سے اس خوبصورتی میں اضافہ کیا ہے۔ بظاہر تصوف سے اس غزل سے دور کی نسبت معلوم ہوتی ہے مگر تصوف تو اسی کیفیت واحساس کا نام ہے کہ دنیا اور علائق دنیا ناپائیدار تھے اور ہیں، اگر کوئی پائیدار ہے اور ناپائیدار کوبھی کسی حد تک پائیداری عطا کرسکتا ہے تو وہ صانع ازل ہے جو دنیا کا مالک وخالق بھی ہے اور چلانے والا بھی۔ 
آتش کی غیور طبیعت اور طرز بیان کی خوبصورتی اس غزل میں پوری طرح یکجا معلوم ہوتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK