• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۲۵)

Updated: October 14, 2024, 12:27 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں قوالی اور سماع کا حقیقی مفہوم، روایت، مقبولیت اور انحراف۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ایک عربی داں نے بتایا کہ عربی میں ’ قوال‘ بسیارگو کو کہتے تھے اردو میں اس کا مطلب کچھ کاکچھ ہوگیا۔ صاحبِ ’’فیروز اللغات‘‘ نے بزرگوں کے قول گانے والے کو قوال کہا ہے۔ قوالی سے وہ گانا بھی مراد لیا ہے جو صوفیوں کی مجلس یا مزار پر سنایا جاتا ہے۔ اردو کے اسی لغت میں سماع کا مطلب راگ یا گانا سننا بھی بتایا گیا ہے اور رقص وسرودبھی۔ ممکن ہے سماع کے یہ معنی مراد لیتے ہوئے مولانا رومی کے پیروکارجنہیں انگریزی میں Singing and dancing dervishesلکھا جاتا رہا ہے ذہن میں رہا ہو مگر سماع کےجو آداب کتابوں میں لکھے ہوئے یا بزرگوں سے منقول ہیں وہ یہ ہیں کہ سماع ہر جگہ، ہروقت اور ہرشخص کے ساتھ نہیں سنا جاسکتا مگر اب قوالی اور سماع جس میں مختلف شاعروں کا کلام سنا، سنا یا جاتا ہے کا فرق کم ہوتا جارہا ہے۔ قوالی صرف صوفیوں کی مجلسوں اور بزرگوں کے مزاروں پر نہیں فلموں میں اور تفریح گاہوں پربھی سنی سنائی جاتی ہے اور سماع کے آداب کا لحاظ رکھنے والے قوال اور سامع تو دن بدن کم ہوتے جارہے ہیں۔ 
علماء کی بڑی اکثریت موسیقی کے سبب قوالی سننے سنانے کے خلاف ہے۔ صوفیوں میں کچھ آداب کا خیال رکھتے ہوئے سننے کے، کچھ نہ سننے کے اور کچھ ’نہ انکار کرنے نہ سننے‘ کے قائل ہیں۔ قوالی جس کے اثرات سماع پربھی مرتب ہوچکے ہیں ’ہندوستانیت ‘کی دین ہے۔ جو لوگ قوالی یا سماع سننے کے قائل ہیں وہ شرعی دلائل کی بنیادپر نہیں ذوق ووجدان کی بنیاد پر قائل ہیں اور بعض واقعات بھی نقل کرتے ہیں مثلاً خواجہ قطب الدین بختیارکاکی ؒکے وصال کے تعلق سے جو روایت مختلف لفظوں میں مشہور ہے اس کو پروفیسر شریف حسین قاسمی نے (دہلی کے چشتی مشائخ۔ ص ۱۸۴) مختصراً ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ ایک محفل سماع میں جب قوال نے یہ شعر پڑھا
کشتگان ِ خنجر تسلیم را
ہرزماں ازغیب جانی دیگرست
تو خواجہ کاکیؒ پر وجدوحال کی کیفیت طاری ہوگئی۔ تین دن یہی کیفیت طاری رہی، چوتھے دن منہ سے جھاگ نکلنے لگی اور آپ ہاتھ پر ہاتھ مارتے رہے، حجرے میں لایا گیا تو آپ نے خرقہ، عصا، مصلیٰ اور کھڑاؤں جو آپ کو مرشد برحق (خواجہ اجمیریؒ ) سے ملا تھا مسعود فریدالدین گنج شکرؒ کو پہنچانے کا حکم دیا اور واصل بحق ہوگئے۔ اسی کتاب میں (ص ۱۷۱) ایک دوسرا واقعہ شیخ حمیدالدین ناگوری کے پوتے شیخ فریدالدین محمود ناگوری کا ہے کہ ایک محفل سماع میں جب قوال نے ایک شعر پڑھا جس کا پہلا مصرع ’’ جان بدہ وجان بدہ وجان بدہ ‘‘تھا آپ نے سنتے ہی نعرہ بلند کیا دادم، دادم ( میں نے جان دیدی، دیدی) اور واقعی انتقال کرگئے۔ شاعروں میں امیر خسرو، بہاء الدین باجن، عبدالولی عزلت، قاضی محمود بحری… وغیرہ کے کچھ اشعار مشہور ہیں جن سے موسیقی سے ان کی نسبت کا سراغ لگتا ہے۔ ’’آب حیات‘‘ میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا ایک لطیفہ نقل ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیوں کے معمولات میں سازوسرود کا دخل کس درجہ بڑھ چکا تھا۔ خواجہ میر درد کا شعر بہتوں کے حافظے میں ہے کہ 
اے درد اس جہان میں آکر صدائے غیب 
بے پردہ ہووے جس سے وہ پردہ ہے ساز کا 
خواجہ حیدرعلی آتش کا یہ شعر بھی مشہور ہے کہ 
صوفیوں کو وجد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا  
شبہ ہوجاتا ہے پردے سے تری آواز کا
اوپر جو دوواقعات نقل کئے گئے ہیں وہ ذہن میں رکھیے اور غالب کا یہ شعر پڑھئے۔ 
جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دم سماع  
گروہ صدا سمائی ہے چنگ ورباب میں 
حسرت موہانی جو نیک ومخلص شخص تو تھے مگر عالم دین نہیں، نے سماع کو نہ صرف جائز بلکہ صوفیوں کے لئے ضروری قراردیا ہے۔ ان کی ایک مسلسل غزل بھی ہے۔ 
ان سے جو کچھ ہے سب محبت ہے
حال ہویا کہ قال اہل سماع
زاہدوں کے پڑے گا سرحسرت 
اک نہ اک دن وبال اہل سماع
پروفیسر نثار احمد فاروقی نے خواجہ نظام الدین اولیاءؒ اور سماع صوفیہ ‘‘ میں صاحب کشف المحجوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’ جو یہ کہتا ہے کہ مجھے اچھی آواز، نغمہ یا مزامیر پسند نہیں آتے وہ یا تو جھوٹ کہتا ہے یا مکاری کرتا ہے یا حس نہیں رکھتا، وہ انسانوں اورجانوروں کے ہر زمرے سے خارج ہے۔ ‘‘ بیشتر علماء نے قوالی کو روح کی نہیں روح ِ حیوانی کی غذا کہا ہے اور ممنوع قراردیا ہے۔ 
بعض تذکرہ نگاروں نے قوالی کو امیر خسرو سے منسوب کیا ہے اور بعض نے حسن ساونت کو اولیت دی ہے مگر قوالی میں قول، ترانہ، قلبانہ، سہیلا بیشتر امیر خسرو سے ہی منسوب ہیں مثلاً ’’چھاپ تلک سب چھینی رے موسے نیناں ملائی کے۔ ‘‘ آج قوالی کی وہ مقبولیت نہیں ہے جو پہلے کبھی تھی لیکن امیر خسرو سے منسوب وہ فارسی غزل آج بھی بہت مقبول ہے جس کا شعر ہے
خدا خود میرِ مجلس بود اندر لامکاں خسرو
محمد شمع ِ محفل بودشب جائے کہ من بودم
قوالی اور سماع کے انسانی وجود پر مرتب ہونے والے اثرات ناقابِل انکار ہیں مگر طرفین نے اس سلسلے میں انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا ہے جو اثرات کے قائل نہیں ہیں وہ قوالی یا سماع سے طاری ہونے والے وجدوحال کو ’’شرعی ناچ ‘‘ قرار دیتےہیں جو قائل ہیں وہ اس کی شرائط کا لحاظ رکھتے ہیں نہ آداب کا۔ قوالی اور ہندوستانیت کا بھی بہت گہرا تعلق ہے اس لئے اگرچہ اصحاب سلاسل حتیٰ کہ چشتی سلسلہ سے تعلق رکھنے والے جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جاچکا ہے کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں ملتے ہیں مگر قوالی اور سماع کی مقبول صورت ہندوستان یا ہندوستان سے الگ ہونے والے ملکوں میں ہی ملتی ہے اور اس میں مقامی زبانوں کے الفاظ کے علاوہ بھجن کیرتن کا انداز بھی ہے۔ ہندوستان کے نقش بندی صاحبان اس سے گریز کرتے ہیں۔ ایک زمانے سے قوالی اور سماع میں صرف اشعار اور منظوم کلام ہی سنے سنائے جاتے ہیں مگر اس موضوع پر اہل دل صوفیہ نے جو لکھا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر نثر میں لکھے ہوئے جملوں اور عبارتوں کے دہرائے جانے کے بھی اثرات مرتب ہوتے تھے۔ محفل قوالی اور سماع کو منعقد کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ قوالی یا سماع کا وقت نماز کے وقت سے نہ ٹکرائے۔ صوفیہ کی زبانوں سے جو قابِل گرفت اشعار نکلے ہیں وہ ’سکر ‘کی حالت میں یعنی بے اختیاری میں نکلے ہیں مگر اب قوالی اور سماع کے نام پر منعقد ہونے والی محفلوں میں بھی ایسے اشعار پورے ہوش وحواس میں پڑھے جاتے ہیں جن میں شرک کی ترغیب اور شریعت کی مخالفت ہوتی ہے۔ موسیقی کے نئے نئے آلات کے ساتھ فلمی دھنوں پر بھی خدا اور رسول سے عشق کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ اس لئے اس کے جائز وناجائز ہونے پر بحث کرنے سے پہلے اس سوال پر بحث ہونا ضروری ہے کہ قوالی اور سماع اپنی اصل شکل میں رہ بھی گیا ہے یا نہیں ؟ اوریہ کہہ دینا کافی نہیں کہ موسیقی کا جلوہ درباروں میں بھی تھا اور خانقاہوں میں بھی، یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ درباروں اور خانقاہوں میں سنی سنائی جانے والی موسیقی ایک ہی جیسی یا ایک ہی نوعیت کی ہوتی تھی یا ان میں فرق تھا۔ ماہرالقادری نے کیا دیکھا کہ ان کو کہنا پڑا تھا کہ 
اک طوائف گارہی ہے سامنے درگاہ کے 
کیا مزے ہیں حضرت قبلہ سہاگن شاہ کے 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK