• Sat, 26 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۲۴)

Updated: October 07, 2024, 4:29 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں مجذوبانہ کیفیات کے حامل سید امین اشرف کی غزلوں میں تحیر اور جذب و سکر۔

Syed Amin Ashraf. Photo: INN
سید امین اشرف۔ تصویر : آئی این این

 سید امین اشرف کا تعلق حضرت مخدوم اشرف جہانگیرسمنانی ( کچھوچھہ) کے خانوادے سے تھا۔ ’جادۂ شب‘، ’بہارایجاد‘ اور ’قفس رنگ‘شعری مجموعوں کے نام ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ اور انگریزی کے شعبوں سے استاذ کی حیثیت سے وابستہ رہ چکے تھے مگر شعر اردو میں کہتے تھے۔ 
 غازہ ٔعارض، چشم نارسا، شعلہ رخاں، بزم خوباں … ان کی پسندیدہ تراکیب ہیں۔ جذب وکیف ان کی شاعری میں ہی نہیں، مجذوبانہ کیفیت اور سرشاری ومستی ان کی شخصیت پر بھی طاری تھی۔ جو شعر اس وقت حافظے میں ہیں وہ بھی اسی کیفیت کی ترجمانی کرتے ہیں مثلاً
شاعری نغمہ گری ساعتِ حیرانی میں 
تازہ کاری ہو مگر پاس روایت بھی رہے 
عالم میں قفس رنگ ہے کہ نظر کو 
اس دام تحیر سے رہائی نہیں دیتا
حلقہ ٔ شام و سحر سے نہیں جانے والا
 درد اس دیدہ ٔ تر سے نہیں جانے والا
 راقم الحروف جب علی گڑھ جاتا ان سے ضرور ملاقات کرتا۔ کبھی کبھی ٹیلیفون پر بھی بات ہوتی۔ ان کا کلام انہیں کی زبان سے سنتا تو محسوس ہوتا کہ خانقاہی تہذیب غزل کی تہذیب میں ڈھل گئی ہے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر میں نے ایک رسالے کے لئے ان کی ایک غزل کا تجزیہ کیا تھا۔ اس وقت جو کیفیت مجھ پر طاری تھی اس کو لغت کی مدد سے سمجھا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ وہ کیفیت غزل کے قاری یا سامع کو بھی مستی وسرشاری کے ساتھ خود کلامی وخود آگاہی میں مبتلا کردیتی ہے اور قاری غزل کے شعروں کی تفہیم وتشریح کا محتاج نہیں رہ جاتا۔ 
 پھر بھی اس پیکر بے مہر پہ دل مائل ہے 
ناز فرما وہ جہاں بھی ہے صفِ قاتل ہے
چند اشجار سلامت ہیں جو طوفانوں میں 
 ان کی مٹی میں بزرگوں کی دعا شامل ہے
مرے مولیٰ جو زمیں دی ہے تو ہموار بھی کر
 ورنہ بے رونقی خاک سے کیا حاصل ہے
خودبخود خاک میں مل جاتی ہے عبرت کے لئے
تندیِ نشۂ نخوت تو اسی قابل ہے 
ذہن بر عرش مگر دل تو یہیں لگتا ہے
جانے حیرت کدۂ خاک میں کیا شامل ہے
 پھول جھڑتے ہوئے دیکھوں میں ترے ہونٹوں سے
 اے گل تر تری تصویر سے کیا حاصل ہے
حدامکان میں ہیں عارض و لب بوسۂ نم
 بیچ میں روح کی دیوار مگر حائل ہے
ان اشعار میں ’بے رونقی  ِ خاک‘ ’تندہیِ نشہ نخوت ‘ ’حیرت کدہ ٔ خاک ‘ ’ بوسۂ نم ‘… جیسی تراکیب غزل کی روایت کو ہی آگے بڑھاتی ہیں مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان سے معنوی توسیع کا عمل تیز تر ہوتا جاتاہے۔ ‘‘ ذہن برعرش ‘ دل میں کھٹکتا بھی ہے کہ دماغ آسمان پر ہونا غرور وگھمنڈکے معنی میں استعمال ہوتا ہے اوراس شعر میں اس کا محل نہیں ہے مگراس غزل کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ہم شاعری پڑھ رہے ہیں ۔ ’حقیقی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ پہلی ہی قرأت میں یہ شاعری معلوم ہوتی ہے فنی محاسن ولوازم پرگفتگو کی ضرورت بعد میں محسوس ہوتی ہے۔ 
 پہلے شعر میں ’بے مہر‘ کہہ کر ایک ایسے وجود، پیکر یا شخص سے متعارف کرایا گیاہے جو رحم ومروت سے عاری ہے اور شعر کے دوسرے مصرع میں اس کی ہلاکت خیزی بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہا گیا ہےکہ وہ تنہا ہوکر بھی صف قاتل جیسا ہے۔ اس میں لطیف نکتہ یا مفہوم یہ ہے کہ انسان ’ بے مہر‘ کو ’بے مہر‘ کہنے کا حوصلہ تو رکھتا ہے مگر اس کا دل اسی ’بے مہر‘ پہ مائل ہوتا ہے۔ مثال امریکہ ہے جس کی مدد سے اسرائیل لاکھوں بے گناہوں کا خون بہا چکا ہے مگر ایسا کوئی نہیں جو امریکہ جانے، وہاں بسنے اوراس کے معاشرےکا حصہ بننے کا خواہشمند نہ ہو۔ ’بے مہر‘ اگر دنیا کو سمجھ لیاجائے تب بھی یہ شعر بامعنی ثابت ہوتا ہے کہ دنیا سے دل لگانے والوں کا حشر دنیا کو معلوم ہے پھربھی دنیا سے دل لگانے سے لوگ بازنہیں آتے۔ 
 کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت یہ ہے کہ دعا اور بدعاکے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ غزل کی زبان میں دوسرے شعر میں اسی حقیقت کا اظہار ہے۔ تیسرے شعر میں دعاء التجا بھی ہے اور شکایت بھی کہ انسان ہمیشہ ’مزید‘ کی تمنا پوری کرنےمیں لگا رہتا ہے یا ہوس پوری نہ ہونے سے پریشان رہتا ہے۔ 
 چوتھا شعر انسانی تاریخ کا حامل ہے۔ یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ ماضی میں سارے ظالم خاک میں مل چکے ہیں تو مستقبل میں وہ کیسے بچے رہیں گے۔ 
  پانچویں شعر میں ذہن بر عرش، کھٹکتا ہے ورنہ تحیر کے سبب یہی شعر اس غزل کا سب سے خوبصورت اور بامعنی شعر ہوسکتا تھا بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ زبان کی نزاکتوں کو سمجھنے کے باوجود انہوں نے سکر کی کیفیت میں دماغ برعرش کہہ دیا ہے انسان مسجود، معبود اور موجود تو بس اللہ کو سمجھنے کا دعویٰ کرتا ہے مگر اپنے وجود کے سحر سے کبھی آزاد نہیں ہوتا۔ چھٹے شعر میں حقیقت اور صورت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ 
  ساتویں شعر یا مقطع میں وہ تہذیب سامنے آتی ہے جو خانقاہی تہذیب کا مقصود ہے۔ خانقاہوں میں جس تہذیب نفس کی تربیت کی جاتی ہے وہ جسمانی اور مادی تلذذ یا دنیاوی عیش وعشرت کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیتی۔ اس شعر میں ’روح‘ کو ’ضبط ‘ سے بدل دیاجائے تو وہ خانقاہی تہذیب پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے جس میں سید امین اشرف پلے بڑھے تھے۔ 
  یہ غزل پوری طرح بیانیہ ہے اس کو نثر میں تبدیل کرنا بھی آسان ہے مگر دوسری طرف اس میں خود کلامی بھی شامل ہے اس میں شاعر اپنی حسی ّکائنات کو اس طرح پیش کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کا یہ عمل غزل گو کے علاوہ سامع، قاری کے لئے بھی انکشاف ذات کا محرک بن جاتا ہے۔ بیانیہ شاعری کو بعض نقاد شاعری کا عیب تصور کرتے ہیں لیکن اس غزل کا ہر شعر اظہار کے موثرسانچے میں ڈھلا اور تاثر میں ڈوبا ہوا ہے اس لئے لفظ ومعنی کی ہم آہنگی پڑھنے سننے والے کو ایسی پرکیف فضا ء سے ہمکنار کرتی ہے کہ معانی خود بخود واضح ہونے لگتے ہیں۔ سہل کہنا اور اس میں شعریت کو باقی رکھنا غیرمعمولی کام ہے مگر ’جادۂ شب‘ ’قفس رنگ اور ’بہار ایجاد‘کے شاعر نے اس غیرمعمولی کام کو بالکل معمول کے مطابق انجام دیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ سید امین اشرف نے جو شعر جس تصور، تاثر یا ذہنی کیفیت میں کہا ہے یہ ضروری نہیں کہ وہی تصور، تاثر یا کیفیت سامع یا قاری کی بھی ہو لیکن نقاد اس ذہنی، قلبی اور روحانی کیفیت کے دریچوں کو وا کرسکتا ہے جس میں شاعر نے اپنی تخلیق کو وجود بخشا ہے۔ لیکن عموماً ہوتا یہ ہے کہ نقاد کے نظریے اور رویے کی وجہ سے تخلیق کار اور سامع یا قاری کے بیچ غیر مرئی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے مگر اس مضمون یا تفہیم کے خالق نے آسان تر لفظوں میں شاعر یا تخلیق کار کی اس ذہنی روحانی کیفیت کے ساتھ لفظ ومعنی کی تہذیب کو بھی بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو تخلیق شعر کی محرک بنی ہے۔ تہذیب لفظ اور تعلق ِ لفظ ومعنی کو مجروح کئے بغیر شعر میں تہذیب نفس کو پیش کرنا معمولی واقعہ نہیں ہے لیکن یہ غیر معمولی واقعہ جب معمول کے انداز  پہ رونما ہوتا ہے تو شاعر کی مستی وسرشاری کے ساتھ قاری وسامع کی خود آگاہی وخود کلامی کی بھی ترسیل ہونے لگتی ہے یہی سید امین اشرف کے کلام یا منقولہ غزل کی خوبی ہے۔ ان کا ہر شعر اپنا تعارف آپ ہے مگر جو لوگ ان کی شخصیت کو قریب سے جانتے ہیں وہ ان کے شعر کے مفہوم تک بہ آسانی رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ایسے شعراء کم ہوئے ہیں جن کی شاعری اور شخصیت میں فاصلہ نہیں ہے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK