اس ہفتے ملاحظہ کریں معروف ترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین کی مشہور نظم کا تجزیہ اور اس میں عارفانہ کلام کی جھلک۔
EPAPER
Updated: November 11, 2024, 12:58 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
اس ہفتے ملاحظہ کریں معروف ترقی پسند شاعر مخدوم محی الدین کی مشہور نظم کا تجزیہ اور اس میں عارفانہ کلام کی جھلک۔
مخدوم محی الدین ترقی پسند شاعر تھے۔ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۰ء تک ترقی پسندی قوم کے لئے ذہنی بیداری کی تحریک تھی اور نہرو، پریم چند، مولوی عبدالحق، حسرت اورکنہیالال منشی تک اس کے خیمے میں یا ہم نوائوں میں تھے لیکن جب ہٹلر کے جرمنی نے روس پر حملہ کیا اور روس برطانیہ کا اتحادی بن گیا تو ترقی پسند ادبی تحریک یا خیمہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک طرف جوشؔ وساغرؔ کمیونسٹ پارٹی کے زیر اثر رہے تو دوسری طرف حیات اللہ انصاری، علی جواد زیدی اور شمیم کرہانی نے پارٹی کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ مخدوم ترقی پسند بھی تھے اور کمیونسٹ پارٹی کے کارکن بھی مگر ۱۹۵۱ء میں جب ان کا دوسرا شعری مجموعہ ’ گل تر‘ منظر عام پر آیا تو انہوں نے دیباچے میں لکھا کہ ’’شاعر اپنے دل میں چھپی ہوئی روشنی اور تاریکی کی آویزش کو اور روحانی کرب واضطراب کی علامتوں کو اجاگر کرتا ہے اور شعر میں ڈھالتا ہے۔ اس عمل سے تضاد تحلیل ہوکر تسکین وطمانیت کے مرکب میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ‘‘ مخدوم کی کئی غزلوں اور اشعارکو مندرجہ بلا سطور کی دلیل میں پیش کیا جاسکتا ہے مگر یہاں ان کی پرکیف نظم ’ چارہ گر‘ پر چند جملے لکھ دینا کافی معلوم ہوتا ہے۔ نظم کی ابتداء ہوتی ہے ان مصرعوں سے۔
ایک چنبیلی کے منڈوے تلے
میکدے سے ذرا دور اس موڑ پر
دوبدن پیار کی آگ میں جل گئے
’’چنبیلی کے منڈوے تلے … جیسے تلازمے آگ سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں۔ اس کے ذریعہ یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو ’دوبدن‘ پیار کی آگ میں جل مرے، مرنا ان کی مجبوری نہیں رغبت تھی۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا اس کی تشریح اگلے مصرعوں میں ہے۔
پیار حرف وفا ، پیار ان کا خدا، پیار ان کی چتا
دیباچہ میں مخدوم نے جس ’روحانی کرب ‘ کی طرف اشارہ کیا ہے اسلامی تناظر میں اس کی تشریح یہ ہے کہ عہد الست میں تمام ارواح نے محبوب حقیقی سے اقرار کیا تھا کہ وہ دنیا میں بھی اسی کو مالک ومحبوب مانتی رہیں گی۔ یہ پہلامرحلہ تھا اوراسی کو ’حرف وفا‘ کہا گیا ہے۔ دوسرا مرحلہ عہد کی تکمیل کرنے یا پابند وفا ہونے کا تھا جس میں معبود ومسجود کے سوا بندے کو کچھ مطلوب نہیں ہوتا۔ وہ محبوب سے کچھ مانگتا ہے تو بس اسی کو، اسی کو ’ پیار ان کا خدا‘ کہا گیا ہے۔ تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ عہد کی تکمیل میں اس سے اسی کو پانے کے علاوہ ہر تمنا کو دل سے رخصت کردیاجائے۔ اسکوپانے کی تمنا کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ضرورتوں کی تکمیل کی تمنا کرنا بھی ’ہوس‘ ہے اور چونکہ ’عشق ‘ اور ’ہوس ‘ ایک ساتھ باقی نہیں رہ سکتے اور پھر ’عشق‘ اور ’ہوس‘ دونوں کا انجام فنا ہے لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ’ہوس‘ کی فنا عشق حقیقی کی بقاء ہے۔ اس لئے ہوش کو فنا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہی ’پیاران کی چتا‘ ہے۔ یہ سوچنا کہ شاعر عاشق کو خودکشی کی تحریک دے رہا ہے، صحیح نہیں ہے۔ عشق حقیقی میں فنا ہی بقا کی ضامن ہے۔
نظم کے آخری بند میں شاعر ’چارہ گر‘ سے پوچھتا ہے کہ کیا اسکے پاس کوئی کیمیائے محبت بھی ہے۔
ازازل تا ابد
یہ بتا چارہ گر
تیری زنبیل میں
نسخہ ٔ کیمیائے محبت بھی ہے
لیکن فوراً ہی اس کو یاد آتا ہے کہ محبت پالینے یا کیمیائے محبت حاصل کرلینے کا مطلب فنا ہوجانا ہے جبکہ اس کا فلسفۂ حیات اور شعری مسلک یہ ہے کہ ’’شعر میں ہم ماوریٰ کی حدوں کو چھوتے ہیں مگر شعر سماج سے ماوریٰ نہیں ہوتا‘‘
سماجی مقصد کی تکمیل کے لئے ظلم وناانصافی کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے آزمائشوں میں زندہ رہنے کا اورہی لطف ہے اوریہی ان شاعروں کا بھی وطیرہ رہا ہے جو ترقی پسند تھے مگر جنہوں نے سماجی مقصد کی تکمیل کے بہانے شعر کی شعریت سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایسے شاعروں میں جو نام سرفہرست ہیں ان میں فیض اور مخدوم ہیں۔ ان دونوں شاعروں کی شاعری کا غالب عنصر وہ والہانہ کیفیت ہے جو جیل کی مشقتیں برداشت کرنے اور دنیا بھر کی اذیتیں جھیلنے والے تخلیق کاروں کو بھی گل وبلبل اور شمع وپروانہ کے حوالے سے حکایت ہستی بیان کرتے رہنے اور مظلوم طبقےکو ظلم واستحصال کے خلاف مسلسل مزاحمت کرتے رہنے کی تحریک عطا کرتی ہے۔
فارسی اور اردو شاعری میں عاشقانہ اور رندانہ شاعری حتیٰ کہ فاسقانہ شاعری کو عارفانہ شاعری میں تبدیل کردینے کی روایت بہت پرانی ہے اور فیض ومخدوم دونوں نے اس روایت سے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ صوفیہ نے لب، رخ، گیسو، چشم، لب سے بصیرت ازلی مراد لیا ہے تو فیض نے عشق سے جذبۂ حریت، عقل سے زوال آمادہ ذہنیت اور رقیب سے رجعت پسندانہ نظام اور مخدوم نے ’حرفِ وفا‘‘ ’’پیاران کا خدا‘‘ ’’پیار ان کی چتا ‘‘ کہہ کر عوامی جدوجہد، انقلاب اور انقلاب برپا کرنے کے لئے مرجانے پر آمادگی کا مفہوم مراد لیا ہے۔ یہ تفہیم مخدوم کے ہی ایک جملے کا آئینہ بھی ہے کہ ’’ جمالیاتی حس انسانی حواس کی ترقی اور نشوونما کا دوسرا نام ہے۔ ‘‘
یہ نظم جمالیاتی احساس کی جملہ خوبیوں سے تو مالا مال ہے ہی اس میں داخلیت اور خارجیت، وضاحت اور ابہام، پرانے الفاظ اور نئے پیرایۂ اظہار کا خوبصورت امتزاج بھی ہے۔ اپنے ایک مضمون میں راقم الحروف نے لکھا ہے کہ مخدوم زندگی اورمقصدِ زندگی کے شاعر تھے اور چونکہ زندگی کے مظاہر اور کیفیتوں میں بڑی وسعت اور تنوع ہے اس لئے جیسے جیسے ان کا ادراک بڑھتا جاتا ہے زندگی کی معنویت اور اس کو خوبصورت ومفید بنانے کی تڑپ بھی بڑھتی جاتی ہے حتیٰ کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ کیا بیداری اور کیا خواب شاعر مقصد زندگی پر ہی محبوبہ ٔ زندگی کا گمان کرکے پکار اٹھتا ہے کہ
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح آپ آتے رہے جاتے رہے
مخدوم کی نظم ’چارہ گر‘ ان کے اس خواب کی سب سے خوبصورت تعبیرہے جو انہوں نے ’گل تر‘ کے دیباچے میں پیش کی ہے۔ اپنے اس خواب کو انہوں نے سب کا خواب اور خواب کی ایسی تعبیر عطا کرنے کی کوشش کی ہے جو عوامی زندگی کو جہنم سے جنت میں تبدیل کرسکے۔ اپنے اس عمل میں وہ دوسروں کی شرکت کے بھی خواہاں تھے اس لئے سب کو پیغام دیا ہے کہ
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو