• Tue, 22 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۲۶)

Updated: October 21, 2024, 12:35 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

اس ہفتے ملاحظہ کریں مشہور شاعر اصغر گونڈوی کے عاشقانہ کلام میں تصوف کے مختلف رنگ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اصغر گونڈوی کی شاعری کا فکری میلان حسرتؔ اور جگرؔ کے مقابلے فانی ؔکی شاعری سے زیادہ قریب ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ فانی کی شاعری کی لَے حزنیہ ہے اور اصغر کی نشاطیہ۔ کاروانِ رنگ وبو کو رواں دواں دیکھنا ہوتو اصغر کے اشعار پڑھیے اور جھوم جھوم کر پڑھیے کہ ان میں عقل پر عشق کو ترجیح دی گئی ہے۔ 
مرتے مرتے نہ کبھی عاقل و فرزانہ بنے 
ہوش رکھتا ہے جو انسان تو دیوانہ بنے
یکایک توڑ ڈالا ساغرمے ہاتھ میں لے کر
مگر ہم بھی مزاج نرگس رعنا سمجھتے ہیں 
کیا مرے حال پہ سچ مچ انہیں  غم تھا قاصد
تونے دیکھا تھا ستارہ سرِ مژگاں کوئی 
رشید احمد صدیقی نے کہیں لکھا ہے کہ بڑے شعراء خود اپنے جسم وجان کی حدود سے نکل کر حقیقت کی تلاش میں سرگرم سفر ہوجاتے ہیں، اصغر کو بڑا شاعر ثابت کرنا مقصود نہیں مگر اس سے انکار بھی ممکن نہیں کہ ان کے شعروں میں حرکت اور مزاحمت کا جذبہ ہے جس کے سبب وہ دشوار گزار راہوں سے بھی فیضان حاصل کرتے رہے ہیں۔ 
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے 
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
وہ پاکیزہ طبیعت کے مالک اور شاہ عبدالغنی منگلوری کے ہاتھ پر بیعت تھے مگر ان کا تصوف ’’برائے شعر گفتن‘‘ زیادہ ہے وہ ان کی پاکیزہ شخصیت اور شرافت ہے جس نے بے حجابی کو بھی حجاب بنالیا ہے اس لئے ان کی شاعری میں حقیقت ومجاز میں فرق کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ 
شاید مرے سوا اسے کوئی سمجھ سکے 
وہ ربطِ خاص رنجشِ بے جا کہیں جسے 
اب تو یہ تمنا ہے کسی کو بھی نہ دیکھوں 
صورت جو دکھائی دی ہے تو لے جا نظر بھی
میں کیا کہوں کہاں ہے محبت کہاں نہیں 
رگ رگ میں دوڑتی پھرتی ہے نشتر لئے ہوئے
اصغر کی شاعری میں تصوف کی اصطلاحات نہیں ہیں وہ غالب کی طرح دعویٰ بھی نہیں کرتے کہ 
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
مگر اس میں آگہی کی چنگاری بھی ہے اور بیساختگی کی آگ بھی، ارضیت بھی ہے اور ماورائیت بھی۔ حقیقت پسندی بھی ہے اور جمالیاتی رنگ بھی۔ اس میں سرشاری ودلدوزی کے ساتھ حسن و رعنائی بھی ہے کہ انہوں نے فکری میلان ہونے کے باوجود عقل پر عشق کو ترجیح دی ہے۔ وہ جس جمالیاتی فضاء اور کیف و سرور میں جیتے رہے اس میں ہرچیز رقص کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس سے وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو انکشافات کا باعث بنتا ہے۔ کہیں کہیں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے دنیا اور دنیا کی ہرچیز کی نفی کی ہے۔ 
جو نقش ہے ہستی کا دھوکا نظر آتا ہے
پردے پہ مصور ہی تنہا نظر آتا ہے
سرگرم تجلی ہو اے جلوۂ جانانہ 
اڑ جائے دھواں بن کر کعبہ ہو کہ بت خانہ 
سرمستیوں میں شیشہ ٔ مَے لے کے ہاتھ سے
اتنا اچھال دیں کہ ثریا کہیں جسے 
کوئی مانے یا نہ مانے ہمہ اوست یا وحدۃ الوجود کے قائلین یہی محسوس کرتے ہیں ممکن ہے اصغر بھی اسی نظریے کے حامل رہے ہوں مگر ان کی شاعری میں ہمہ اوست یا وحدۃ الوجود کے ساتھ وحدۃ الشہود یا ہمہ از اوست کے جلوے بھی ہیں۔ 
ردائے لالہ و گل پردہ مہ و انجم 
جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے
او ر پھر دونوں نظریوں سے زیادہ مسرت وسرشاری کی پرچھائیاں ہیں اورایک خاص کیفیت میں وہ خود کو اڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ 
یوں اڑائے لئے جاتا ہے کوئی دل میرا
ساتھ دیتا بھی نہیں جادۂ منزل میرا
حسن مطلق کی رعنائیاں بھی ہیں جو انہیں بے خود کئے دیتی ہیں۔ 
بچ حسن تخیل سے ظاہر ہو کہ باطن ہو
یہ قید نظر کی ہے وہ فکر کا زنداں ہے
مگر حسن مطلق کی رعنائیوں اور تصور میں مسرت کی پرچھائیوں سے سرشار ہوکر بھی انہیں جو حاصل ہوتی ہے وہ حیرت ہے۔ ان کا شعر ہے 
ہے حاصلِ نظارہ فقط ایک تحیر
جلوے کو کہے کون کہ اب گم ہے نظر بھی
’ تحیر یا حیرانی علم ومطالعہ کا بھی حاصل ہے اور مشاہدہ ومکاشفہ کا بھی۔ صوفیہ نے اس کو کئی طرح سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک حیرت یا حیرانی سے مراد عارف کے دید ہ و دل سے ’اسم ھُو‘ کا مشاہدہ کرنا بھی ہے اور مرتبہ ٔ احدیت میں محو ہونا بھی۔ نبی ؐ کی ایک دعا کا بھی صوفیہ میں تذکرہ ہوتا ہے کہ ’’ اے اللہ تو میرا تحیر زیادہ فرما‘‘کیونکہ وہ تحیر یاحیرت ہی ہے جو سالک کو کسی ایک مقام پر ٹھہرنے نہیں دیتی اور کسی مقام یا چیز پرنہ ٹھہرنا ہی توحید ذاتی ہے۔ توحید ذاتی نعمتیں اورکائنات کی معرفت حاصل کرنے میں مانع نہیں ہے۔ ’’انابت‘‘ سلوک کی پہلی منزل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر انسان دنیا کے الجھاوئوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایقان وعرفان کی راہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کے جلوئوں میں اس کی نظر یوں جذب ہوجاتی ہے کہ ناظر خود نظر بن جاتا ہے۔ اس پہلو کی طرف اصغر نے بھی اشارہ کیا ہے
ترک مدعا کردے عین مدعا ہوجا
شان عبد پیدا کر مظہر خدا ہوجا
اسی ضمن میں تجلی کا بھی ذکر کیا جاسکتا ہے۔ صوفیہ نے تجلی سے روشن ہونا بھی مراد لیا ہے اور جلوہ کرنا بھی۔ شاعروں نے بھی تجلی کو الگ الگ انداز میں بیان کیا ہے۔ اصغر نے ذوق تجلی کو عین تجلی قراردیا ہے۔ 
تو برق حسن اور تجلی سے یہ گریز
میں خاک اور ذوق تماشا لئے ہوئے
 اصغر کی شاعری میں کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے کہ تصوف تو ہے مگر تصوف میں عشق کی گرمی سے زیادہ حسن کی جلوہ فرمائی ہے اسی لئے تغزل کا رنگ غالب ہے۔ ان کے عرفان فنا میں بھی احساس کی تھرتھراہٹ ہے۔ کیا عمدہ شعر کہا ہے۔ 
کچھ آگ دی ہوس نے تو تعمیرعشق کی 
جب خاک کردیا اسے عرفاں بنادیا
اصغر کی شاعری قدیم وجدید کا سنگم ہے۔ اس میں عاشقانہ مضامین کے علاوہ حکمت وفلسفہ بھی ہے۔ انہوں نے حقیقت نگاری اور حق بیانی کے ساتھ لطافت ودلآویزی پر ہمیشہ نظر رکھی ہے۔ ترنم وموسیقیت تو ان کے کلام میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ تصوف کے عجیب عجیب نکتے رنگ تعزل میں پیش کئے ہیں۔ 
کبھی سنا کہ حقیقت ہے میری لاہوتی 
کہیں یہ ضد کہ ہیولائے ارتقا ہوں میں 
دعویٔ دید غلط دعوئے عرفاں بھی غلط 
کچھ تجلی کے سوا چشم بصیرت میں نہیں 
نظر وہ ہے جو اس کون و مکاں سے پار ہوجائے
مگر جب روئے تاباں پر پڑے بیکار ہوجائے
اصغر گونڈوی غزل کے بہت کامیاب شاعر ہیں۔ ان کے کافی اشعار مشہور ہیں مگر ان کا کل کلام بہت زیادہ نہیں ۔ جو ہے اس میں حسن مطلق کی جلوہ باری اورایک قسم کی سرشاری ہے مگر سرشاری بھی ایسی کہ وہ بے خودی میں بھی خود کو سنبھالے رکھتے ہیں۔ انہوں نے رزق حلال کا بھی زندگی بھر اہتمام کیا۔ پہلے عینک سازی کرتے تھے بعد میں ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد کے رسالے’ ہندوستانی‘ کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ جگر ان کے ہم زلف تھے اوراس درجہ اصغر کا ادب کرتے تھے کہ لوگ اصغر کو جگر کا استاد سمجھتے تھے۔ جگر کی کثرت شراب نوشی کے زمانے میں انہیں کے کہنے پر جگر نے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی۔ جب جگر کی مطلقہ کو ایک قسم کا دورہ پڑنے لگا تو انہوں نے اپنی بیوی کے مشورے پراس کو طلاق دے کر جگر کی مطلقہ سے نکاح کیا۔ اصغر کا انتقال ہوگیا اور جگر تائب ہوگئے تو جگر نے ایک بار پھر اپنی مطلقہ کو نکاح میں لینا چاہا۔ پیغام بھیجا تو مطلقہ نے جو ب دیاکہ پھول باسی ہوچکے ہیں ۔ اس کے بعد کا واقعہ نہیں، یہ جملہ ادب میں ضرور مشہور ہے کہ ’’ پھول باسی ہوچکے ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK