• Fri, 27 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بے روزگاری کا منظرنامہ

Updated: June 28, 2022, 11:28 AM IST | Mumbai

 ملک کا جاب مارکیٹ سدھرنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ خبروں کی سرخیوں میں ای ڈی کے چھاپے اور سمن ہیں، مہاراشٹر کا سیاسی بحران ہے، مخالفت کے باوجود اگنی پتھ کی کامیابی ہے

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 ملک کا جاب مارکیٹ سدھرنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ خبروں کی سرخیوں میں ای ڈی کے چھاپے اور سمن ہیں، مہاراشٹر کا سیاسی بحران ہے، مخالفت کے باوجود اگنی پتھ کی کامیابی ہے (تازہ خبر کے مطابق ہندوستانی فضائیہ کو صرف تین دن میں کم و بیش ۵۷؍ ہزار عریضے ملے ہیں)، وزیر اعظم کا دورۂ جرمنی ہے اور حالیہ ضمنی انتخابات ہیں جن میں بی جے پی کی پیش رفتوں کا تذکرہ ہے مگر نہیں ہیں تو بے روزگاری کی حقیقت یا روزگار کی فراہمی کے اعدادوشمار نہیں ہیں۔ ایک حالیہ سرکاری سروے کی رپورٹ بتاتی ہے کہ بے روزگاری جو ۱۹۔۲۰۱۸ء میں ۵ء۸؍ فیصد تھی، ۲۱۔۲۰۲۰ء میں ۴ء۲؍ فیصد ہوگئی ہے جبکہ شرکت ِملازمین پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے۔ شرکت ِملازمین ۱۹۔۲۰۱۸ء میں ۳۵ء۳؍ فیصد تھی جو ۲۱۔۲۰۲۰ء میں ۳۹ء۸؍ فیصد ہوگئی ہے۔ اگر یہ درست ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ صورت حال بہتری کی طرف گامزن ہے مگر اُسی سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ’’معیارِ روزگار‘‘ میں پہلے جیسی بلندی نہیں رہ گئی ہے کیونکہ تنخواہ دار ملازمین کی تعداد کم ہوئی ہے جبکہ وہ لوگ جو یومیہ اُجرت پر کام کرتے تھے اُن کی معتدبہ تعداد نے کام چھوڑ دیا اور خود روزگار (سیلف اِمپلائمنٹ) کی جانب بڑھ گئے ہیں۔  سوال یہ ہے کہ یہ تصویر اتنی پیچیدہ کیوں ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ روزگار مارکیٹ سنبھل نہیں رہا ہے اور اس میں نت نئے رجحان دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ معیار روزگار ہی مثال لے لیجئے جو اوپر بیان کی گئی۔ اس میں تنخواہ دار ملازمین کی تعداد کا کم ہونا کوئی مثبت رجحان نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کام کی کمی کے سبب کمپنیوں نے تنخواہ دار ملازمین کی تعداد کم کردی یا اُنہوں نے خود ہی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا تاکہ یا تو اپنے مستقر پر رہ کر جو بھی کام ملا وہ کریں گے یا انہوں نے بھی خودروزگار کا راستہ چن لیا ہے۔ یہ دونوں ہی امکانات، قومی معیشت کیلئے کوئی اچھا اشارہ نہیں ہیں کیونکہ خود روزگار کا راستہ ان معنوں میں محفوظ نہیں ہے کہ اگر خود کا جاری کردہ کاروبار نہیں چلا جس کے موجودہ حالات میں امکانات زیادہ ہیں تو جاب چھوڑ کر خود روزگار کی طرف جانے والے یہی لوگ کل جاب مارکیٹ میں واپس آنا چاہیں گے اور بےروزگاری کے اعدادوشمار میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہیں آئیگی۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ خود روزگار کی طرف جارہے ہیں وہ غیر رسمی یا غیر منظم زمرہ کا حصہ بن رہے ہیں جس کی کارکردگی معیشت کو کوئی بڑا فائدہ نہیں پہنچاتی کیونکہ غیر منظم ہے۔ یاد رہے کہ جو لوگ خود روزگار کے ذریعہ اپنا پیٹ پالتے ہیں یا خاندان کی کفالت کرتے ہیں اُن کی تعداد جو ۱۹۔۲۰۱۸ء میں ۵۲ء۱؍ فیصد تھی، ۲۱۔۲۰۲۰ء میں ۵۶ء۶؍ فیصد ہوگئی ہے۔  روزگار سے متعلق ماہرین معاشیات (لیبر اکنامنسٹ) اس صورتحال کو ’’پریشانی کی صورتحال‘‘ (ڈِسٹریسڈ اِمپلائمنٹ) قرار دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سرکاری سروے سے اُبھرنے والی بہتر صورتحال کی تصویر (بے روزگاری کا ۵ء۸؍ فیصد سے ۴ء۲؍ فیصد ہونا) سے دل تو بہل سکتا ہے مگر دل کو اطمینان نہیں مل سکتا۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کا کہنا ہے کہ اِس وقت ۵؍ کروڑ ۳۰؍ لاکھ نوجوان بے روزگار ہیں جن میں ۳؍ کروڑ ۵۰؍ لاکھ کے پاس کام نہیں ہے مگر وہ کام کی تلاش میں ہیں۔ بے روزگاروں میں یہ ’’بہتر بے روزگار‘‘ ہیں اور اُن لوگوں سے بہتر ہیں جنہوں نے مایوس ہوکر کام کی تلاش بند کردی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK