آزادی کے بعد سے اب تک جتنے بھی عام بجٹ سامنے آئے ہیں اگر اس کا بیس فیصد بھی سرزمین پر عملی صورت اختیار کرلیتا تو آج اس ملک میں اسّی کروڑ افراد پانچ کلو مفت اناج لینے والوں کی قطار میں کھڑے نہیں رہتے۔
EPAPER
Updated: February 06, 2025, 7:33 PM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai
آزادی کے بعد سے اب تک جتنے بھی عام بجٹ سامنے آئے ہیں اگر اس کا بیس فیصد بھی سرزمین پر عملی صورت اختیار کرلیتا تو آج اس ملک میں اسّی کروڑ افراد پانچ کلو مفت اناج لینے والوں کی قطار میں کھڑے نہیں رہتے۔
کسی بھی ملک کی ترقیاتی سمت ورفتار کا آئینہ اس کا عام بجٹ ہوتا ہے کہ اس آئینے میں ہر طبقہ اپنی امیدوں کے عکس کو دیکھنا چاہتا ہے۔ حالیہ مرکزی عام بجٹ جسے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے متوسط طبقے کے لئے ایک تاریخی بجٹ قرار دیا ہے اس پر بحث ومباحثہ جاری ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت اپنے بجٹ کو ہمیشہ عوامی فلاح وبہبود کا نسخۂ کیمیا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے اور حزب اختلاف اسے ایک ظاہری قدم قرار دیتا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت بھی اسی روش پر رواں دواں ہے۔ سیتا رمن نے اپنے اس آٹھویں بجٹ میں جس طرح ملک کے عوام کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ یہ بجٹ عوامی فلاح وبہبود کیلئے ایک روڈ میپ ثابت ہوگا۔ ظاہری طورپر اعلانیہ بجٹ کو دیکھ کر ایسا ہی لگتا ہے کہ متوسط طبقے کو بڑی راحت دی گئی ہے۔ لیکن بجٹ ایک ایسا معمہ ہے جس کو سمجھنے کی کوشش کرنے والے اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ جب تک وہ اس معمے کو سمجھ پاتے ہیں تب تک دوسرا عام بجٹ پیش کردیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد سے اب تک اعلانیہ بجٹ کا ایماندارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت خود بخود سامنے آجائے گی کہ اب تک جتنے بھی عام بجٹ سامنے آئے ہیں اگر اس کا بیس فیصد بھی سرزمین پر عملی صورت اختیار کرلیتا تو آج اس ملک میں اسّی کروڑ افراد پانچ کلو مفت اناج لینے والوں کی قطار میں کھڑے نہیں رہتے اور ملک میں بیروزگاروں کی دن بہ دن فوج تیار نہیں ہوتی۔ متوسط طبقے کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کی صف کے کتنے شہری ہیں جو بارہ لاکھ تک کی آمدنی حاصل کرتے ہیں، یہ ایک بڑا سوال ہے اور جب اس سوال کا جواب مل جائے تو پھر اس بجٹ پر خاطر خواہ بحث کا کچھ حاصل مل سکتا ہے۔
بہر کیف!یہ حقیقت اپنی جگہ مسلّم ہے کہ ہر ایک حکومت اپنے سیاسی مفاد کو دیکھتے ہوئے بجٹ تیار کرتی ہے اور اس کی تشہیربھی کرتی ہے۔ چونکہ ان دنوں ہندوستان میں ذرائع ابلاغ حکومت کی مٹھی میں ہے اس لئے حالیہ کئی برسوں کے بجٹ کو جس طرح عام شہری کا بجٹ قرار دینے کی کوشش ہو رہی ہے اس سے عوام کو وقتی فلاح وبہبود کی روشنی تو نظر آتی ہے لیکن ان کے گھروں سے اندھیرا ختم نہیں ہوتا۔ اس بجٹ کو جس طرح علاقائیت، جذباتیت کے لبادے میں پیش کیا گیا وہ بھی ایک جمہوری ملک کیلئے خطرناک ہے۔ واضح رہے کہ بہار میں سالِ رواں میں اسمبلی انتخاب ہونا ہے اور چونکہ اس وقت نتیش کمار کی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد کی یہاں حکومت ہے اس لئے اس بجٹ میں آئندہ اسمبلی انتخاب کے سیاسی مفاد کو مدنظر رکھ کر بجٹ میں بہارکو خصوصی توجہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک طرف سیتارمن نے شمالی بہار کے متھلانچل کی ثقافتی شناخت متھلا پینٹنگ کی ساڑی پہن کر بجٹ پیش کرنا اور اس کا برملا اظہارکرنا علاقائی جذباتیت کو فروغ دینا ہے تو دوسری طرف بہار کیلئے جو اعلانات ہوئے ہیں وہ ریاست کی ترقی کیلئے ضروری تو ہے مگر جس طرح بار بار ’’بہار، بہار، بہار‘‘ کہہ کر بجٹ پیش کیا گیا اس سے دوسری ریاستوں کو ایک طرح کی حسد بھی پیدا ہوئی ہے کہ بہار پر موجودہ مودی حکومت قدرے زیادہ مہربان ہے اور اس کا اظہار اکالی دل پنجاب اور ترنمول کانگریس مغربی بنگال کیلئے ممبران پارلیمنٹ نے کیا بھی ہے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ یہ اعلان بھی حسب سابق ہی ہے۔ واضح رہے کہ اس بجٹ میں مکھانا صنعت کو فروغ دینے کیلئے ایک بورڈ بنانے، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فوڈ ٹکنالوجی کے قیام، تین نئے گرین فلڈ ایئر پورٹ، آئی آئی ٹی، پٹنہ میں زیر تعلیم طلبہ کیلئے نئے ہاسٹل کی تعمیر اور شمالی بہار کے کوسی نہر کی جدید کاری کیلئے خصوصی فنڈ مہیا کرانے کے اعلانات شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکھانا صنعت کو فروغ ملتا ہے تو شمالی بہار کے متھلانچل میں روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں کیوں کہ مکھانا کی کھیتی صرف اور صرف شمالی بہارکے متھلانچل میں ہوتی ہے اور پسماندہ طبقے اس زراعت سے وابستہ ہیں۔ چونکہ اب مکھانا کو بین الاقوامی شہرت مل گئی ہے اس لئے اس کی کھیتی پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ اس کیلئے بازار کی سہولت مل گئی ہے۔ لیکن شمالی بہار کیلئے سب سے بڑی ضرورت تھی کہ متھلانچل کے تین چینی مِل، ایک کاغذ فیکٹری اور ایک جوٹ مل کو شروع کیا جاتا جو دو دہائیوں سے بند ہے۔ سند رہے کہ شمالی بہار کے متھلانچل میں دو دہائی پہلے تک یہاں کے کسانوں کیلئے گنّے کی کھیتی نقد آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تھا کہ سکری، لوہٹ اور ریام چینی ملوں میں ان کے گنّے خریدے جاتے تھے اور اس سے اس علاقے کے ہزاروں مزدوروں کو روزگار ملتا تھا۔ اسی طرح دربھنگہ کے اشوک پیپرمل اور سمستی پور کے جوٹ مل میں بھی ہزاروں مزدور کام کرتے تھے۔ مگر افسوس ہے کہ دو دہائیوں سے یہ سبھی ملیں بند پڑی ہیں اور ہر اسمبلی انتخاب میں ان بند ملوں کو کھولنے کا وعدہ کیا جاتاہے لیکن اب تک یہ ملیں بند پڑی ہیں۔ اسی طرح ہر سال کوسی میں سیلاب آتا ہے اور ہزاروں ہیکٹر فصلیں برباد ہوتی ہیں اور لاکھوں افراد کے سامنے باز آباد کاری کا مسئلہ رہتا ہے۔ اس بجٹ میں اگرچہ کوسی کیلئے خصوصی فنڈ دینے کی یقین دہانی کی گئی ہے مگر نیپال کی ندیوں سے کوسی میں بے تحاشہ پانی چھوڑ نے کی وجہ سے جو سیلاب آتا ہے اس کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ دراصل بہار میں رواں سال میں انتخاب ہونا ہے اور اس بار کا انتخاب غیر معمولی سیاسی اہمیت کا حامل ہے کہ نریندر مودی کی حکومت بہار اور آندھرا پردیش کی بدولت چل رہی ہے، ملک کے عوام نے تو بھارتیہ جنتا پارٹی کو حکومت سے بے دخل کردیا تھا، اسے صرف ۲۴۰؍ سیٹوں پر محدود کردیا تھا لیکن بہار میں جنتا دل متحدہ، جس کی قیادت نتیش کمار کررہے ہیں اور آندھرامیں چندرابابونائیڈو کی قیادت والی جماعت نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو حمایت دے کر تیسری بار نریندر مودی کو وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھائے رکھا ہے۔ اس لئے بہار کو ظاہری طورپر بہت کچھ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے مگر سچائی تو یہی ہے کہ جب تک اس بجٹ پر عمل شروع ہوگا اس وقت تک شاید بہار کی سیاسی تصویر بد ل چکی ہوگی اس لئے اس بجٹ کے متعلق بہار کے عوام کو ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔