• Sun, 08 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وشال گڑھ کی ناخوشگوار صورتِ حال

Updated: July 18, 2024, 12:50 PM IST | Mumbai

نہ تو میونسپل انتظامیہ نے مبینہ غیر قانونی قبضہ جات کے خلاف کارروائی کی نہ ہی اُس روز جب توڑ پھوڑ ہوئی یا تشدد ہوا، تب پولیس نے سمبھا جی راجے کے حامیوں کے ایک بڑے گروپ کو قلعہ پر جانے سے روکا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

مہاراشٹر میں کولہاپور وہ علاقہ ہیں جہاں ہر طبقے کے لوگ شیروشکر ہوکر رہتے آئے ہیں۔ سالہا سال سے یکجہتی اور یگانگت یہاں کی اجتماعی نفسیات کا حصہ ہے۔ اسی لئے جب اس علاقے کے تاریخی قلعہ وشال گڑھ کے آس پاس غیر قانونی قبضہ جات کیخلاف تحریک کی وجہ سے سماجی امن و سکون درہم برہم ہونے کی اطلاع عام ہوئی تو ریاست بھر کے عوام میں تشویش پیدا ہوئی۔ اگر معاملہ صرف غیر قانونی قبضہ جات کا تھا تو یہ مقامی میونسپل انتظامیہ کی ذمہ داری تھی جسے اس جانب توجہ دیتے ہوئے قانون کے مطابق کارروائی کو یقینی بنانا چاہئے تھا۔ اگر یہ نہیں ہوا تھا تو پولیس کا فرض تھا کہ سابق رکن پارلیمان سمبھا جی راجے کو، جو اپنے حامیوں کے ایک بڑے گروپ کے ساتھ وشال گڑھ جانے کیلئے بے چین تھے، وہاں جانے کی اجازت نہ دی جاتی۔ یہ دونوں ہی کام نہیں ہوئے۔ 
نہ تو میونسپل انتظامیہ نے مبینہ غیر قانونی قبضہ جات کے خلاف کارروائی کی نہ ہی اُس روز جب توڑ پھوڑ ہوئی یا تشدد ہوا، تب پولیس نے سمبھا جی راجے کے حامیوں کے ایک بڑے گروپ کو قلعہ پر جانے سے روکا۔ 
اس سلسلے کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر سمبھا جی راجے ایک گروپ کی قیادت کرتے ہوئے قلعہ کی طرف بڑھ رہے تھے تو اُنہیں اس بات کی ضمانت دینی چاہئے تھی کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوگا۔ یہ خاص طور پر اس لئے ہونا چاہئے تھا کہ وہ کوئی عام لیڈر نہیں ہیں، وہ ریاست مہاراشٹر کے سب سے ممتاز اور مشہور خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ اُن کا سلسلہ ٔ نسب چھتر پتی شیواجی مہاراج سے ملتا ہے۔ وہ خود بھی ایم پی (راجیہ سبھا) رہ چکے ہیں اور اُن کے والد شاہو مہاراج کولہا پور کے موجودہ رُکن پارلیمان ہیں جنہوں نے اپریل۔ مئی ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں کانگریس کے ٹکٹ پر قسمت آزمائی اور بھاری ووٹوں سے لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئے۔ 
یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ شاہو مہاراج کی اُمیدواری پر کولہا پور حلقۂ پارلیمان کے رائے دہندگان میں اتنا جوش و خروش تھا کہ جب وہ ووٹوں میں منتقل ہوا اورووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو پہلے ہی مرحلے میں اُنہیں ایسی سبقت حاصل ہوئی کہ آخر تک قائم رہی۔ ہر طبقے کے رائے دہندگان کی پُرزور حمایت نہیں ہوتی تو ایسی شاندار کامیابی نہ ملتی۔ شاہو مہاراج کو کولہا پور کے ہر طبقے اور ہر فرقے کے ووٹ ملے جس کا نتیجہ تھا کہ اس پارلیمانی حلقے میں کانگریس کو پچیس سال میں پہلی مرتبہ کامیابی ملی اور اس طرح تاریخ رقم ہوئی۔ سمبھا جی انہی کے صاحبزادے ہیں۔ 
اپنے خاندانی وقار کے پیش نظر ضروری تھا کہ سمبھا جی حالات کو بگڑنے سے پہلے ہی سنبھال لیتے۔ بحیثیت موجودہ رکن پارلیمان یہ شاہو مہاراج کی بھی ذمہ داری تھی کہ اپنے صاحبزادے کو متنبہ کرتے کہ غیر قانونی قبضہ جات کے خلاف مہم ضروری ہے تو جمہوری طریقے پر عمل بھی ضروری ہے۔ اُنہیں علاقے کے امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہئے تھا۔ مگر، ایسا لگتا ہے کہ ہر کوئی ہر محاذ پر ناکام ہوا۔ وشال گڑھ کی ناخوشگوار صورت ِ حال کیلئے ریاست کی شندے اور فرنویس حکومت بھی خطا وار ہے جس نے امن و امان کے تحفظ کیلئے پولیس کو ضروری ہدایات نہیں دیں اور جو ہورہا تھا اُسے ہونے دیا۔ 
چونکہ ریاستی اسمبلی کا انتخاب دور نہیں ہے اس لئے ایسے واقعات سے عوام میں کسی اور کے نہیں، شندے فرنویس حکومت کے خلاف ہی برہمی پیدا ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK