اس بار بہار اسمبلی انتخاب میں اگر مسلم ووٹروں نے سیاسی بصیرت سے کام نہیں لیا اور جذباتی بہکاوے میں آ گئے جس کی کوشش ہو رہی ہے تو نہ صرف مسلم سیاست کا بیڑا غرق ہوگا بلکہ بہار کی سیاست کارخ بھی تبدیل ہوگا اور یہاں بھی وہی منظر عام ہوگا جو ملک کے دیگر حصوں میں دکھائی دے رہا ہے۔
بہار کا آئندہ اسمبلی انتخاب نومبر۲۰۲۵ء میں ہونا ہے لیکن اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے کچھ اس طرح کی سرگرمیاں تیز ہو گئی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی دن ریاست میں اسمبلی انتخاب کا اعلان ہو سکتا ہے۔ دراصل حکمراں جماعت جنتا دل متحدہ کے سپریمو اور بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار نے حالیہ دنوں میں کچھ اس طرح کے بیانات دیئے ہیں جس سے یہ امید جاگ گئی ہے کہ ممکن ہے کہ ریاست میں اسمبلی انتخاب اپنی مدت کار پوری نہ کر کے قبل از وقت اسمبلی تحلیل کر دی جائے اور اسمبلی انتخاب کا اعلان کر دیا جائے۔ مگر نتیش کمار کی جانب سے اب تک حتمی طور پر اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں دیا جا رہا ہے۔ البتہ ریاست میں اپوزیشن اتحاد کی جانب سے اس طرح کی سرگرمیاں تیز کر دی گئی ہیں کہ نتیش کمار خاموش اس لئے ہیں کہ مرکز کی جانب سے ابھی انہیں ہری جھنڈی نہیں مل رہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی انتخاب کے بعد سے ہی نتیس کمار کی خواہش تھی کہ ہریانہ اور جموں کشمیر کے ساتھ ساتھ بہار کا بھی اسمبلی انتخاب ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب نتیش کمار چاہتے ہیں کہ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے ساتھ بہار کا اسمبلی انتخاب ہو۔ مگر بھارتیہ جنتا پارٹی جو اس وقت بہار میں نتیش کمار کی قیادت والی جنتا دل متحدہ حکومت کابینہ میں شامل ہے وہ چاہتی ہے کہ بھارتہ جنتا پارٹی کو ریاست میں استحکام ملے اور اس کے لئے پارٹی نے اپنے تنظیمی ڈھانچہ کو مستحکم کرنے کے لئے طرح طرح کے پراوگراموں کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک طرف جنتا دل متحدہ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ این ڈی اے میں شامل لوک جن سکتی پارٹی چراغ پاسوان بھی قدرفعال ہو گئے ہیں اور جیتن رام مانجھی بھی اپنے ورکروں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اسمبلی انتخاب کبھی بھی ممکن ہے۔ دوسری طرف بہار میں پرشانت کشور کی نئی سیاسی جماعت جن سوراج گزشتہ چھ ماہ سے اسمبلی انتخاب کی تیاری کے لئے اپنی جماعت کے کارکنوں کو فعال بنا رہے ہیں اور ریاست کی سطح پر خصوصی مہم چلا رہے ہیں ۔ پرشانت کشور کی جانب سے مسلم حلقے میں زیادہ سرگرمیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔ در حقیقت پرشانت کی کوشش ہے کہ بہار میں مسلمانوں کی اکثریت راشٹریہ جنتا دل یعنی لالو پرساد یادو کے ساتھ ہے۔ اس لئے جن سوراج کی طرف سے یہ اعلان کیا جا رہا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب میں زیادہ سے زیادہ مسلم امیدواروں کو ترجیحات دی جائیں گی۔ ظاہر ہے کہ اگر اس پارٹی کے ذریعے مسلمانوں کو بڑی تعداد میں کھڑا کیا گیا تو ووٹوں کی تقسیم ہوگی اور اس کا فائدہ کس کو ملے گا وہ اظہر من الشمس ہے۔ پرشانت کس کیلئے کام کرتے رہے ہیں وہ بھی جگ ظاہر ہے۔
بہر کیف!بہار میں وسط مدتی اسمبلی انتخاب ہو یا معینہ وقت پر ہو، اتنا تو طے ہے کہ اس بار ریاست کے اسمبلی انتخاب میں سب کی نگاہ مسلم ووٹ پر ہوگی اور جس طرح مسلمانوں کے ووٹوں کو منتشر کرنے کی سازش شروع ہو گئی ہے اس کا نتیجہ بہت ہی چوکا نے والا ہوگا۔ مگر ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ راشٹریہ جنتا دل نے بھی اپنی طرف سے یہ کوشش شروع کر دی ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے ووٹوں میں انتشار نہ ہو۔ جنتادل متحدہ کی جانب سے بھی یہ کوشش ہے کہ اگر مسلمان راشٹریہ جنتا دل کی طرف سے ٹوٹتا ہے اور وہ جن سور اج کی طرف جائے گا تو اس کا بھی نقصان ہوگا۔ کیونکہ حالیہ دنوں میں مسلمانوں کا ووٹ نتیش کمار کو بھی ملتا رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نتیش کمار بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت ریاست میں چلا رہے ہیں مگر وہ بھاجپا کی بہت سی پالیسیوں کوریاست میں نافذ کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے اس وقت وقف ترمیم بل پر بھی نرم رویہ اختیار کیا ہے۔ اگرچہ پارلیمنٹ میں ان کے ممبران نے اس بل کے حق میں ووٹ کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر وسط مدتی اسمبلی انتخاب ہوتا ہے تو مسلمانوں کا رخ کس طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ بہار کی سیاست میں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہے۔ اگر واقعی مسلمانوں نے جن سورا ج کی طرف اپنا رخ موڑا اور مسلمانوں کے ووٹ میں انتشار پیدا ہوا تو ممکن ہے کہ اس کا فائدہ بھاجپاکو ہوگا ۔ اس لئے راشٹریہ جنتا دل اور جنتا دل متحدہ دونوں کی یہ کوشش ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ منتشر نہ ہو اور بالخصوص جن سوراج کی طرف وہ نہیں جائے۔ کیونکہ جنتادل متحدہ کے لیڈرنتیش کمار بھی اندرونی طور پر اس بات کے لئے کبھی تیار نہیں ہیں کہ ریاست میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیٹیں بڑھیں۔ کیونکہ بھاجپا کی طرف سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ وہ جنتادل متحدہ کے ساتھ تو رہے لیکن آئندہ اسمبلی انتخاب میں بھارتی جنتا پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن جائے تاکہ نتیس کمار کی قیادت سے نجات مل سکے۔ دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی کے تمام بڑے لیڈروں کی خواہش ہے کہ اب بہار کی باگ ڈور نتیش کمار کے ہاتھوں میں نہ ہو کر خالص طور پر بھاجپا کے ہاتھوں میں ہو۔ مگر نتیش کمار بھی سیاست کی اس شطرنجی چال سے انجان نہیں ہیں ۔ وہ بھی اندر ہی اندر اس طرح کی حکمت عملی تیار کر رہے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر ریاست میں بھاچپا کو سب سے بڑی سیاسی جماعت نہ بننے دیں اورحکومت کی کنجی ان کے ہاتھوں میں رہے۔ لیکن بھاجپا اس کوشش میں ہے کہ مسلم ووٹوں میں انتشار پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ گزشتہ اسمبلی انتخاب کی طرح چراغ پاسوان کے سہارے نتیش کمار کو کمزور کیا جائے۔
مختصر یہ کہ اس بار بہار اسمبلی انتخاب میں اگر مسلم ووٹروں نے سیاسی بصیرت سے کام نہیں لیا اور جذباتی بہکاؤے میں آ گئے جس کی کوشش ہورہی ہے تو نہ صرف مسلم سیاست کا بیڑا غرق ہوگا بلکہ بہار کی سیاست کارخ بھی تبدیل ہوگا اور یہاں بھی وہی منظر عام ہوگا جو ملک کے دیگر حصوں میں دکھائی دے رہا ہے۔ خاص طور پرشمالی بہار کے سیمانچل جہاں مسلم اکثریت ہے اور اس علاقے میں اسد الدین اویسی کی پارٹی فعال کردار ادا کر رہی ہے اگر حالیہ سیاسی فضا میں سیمانچل کے مسلمانوں نے اپنی سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیا تو اس علاقے کی سیاست میں بھی زہریلی ہوا پروان چڑھ سکتی ہے۔