• Sat, 21 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ادب، نقاد اورعہدِجنگ میں ادبی نقاد کا کردار

Updated: December 08, 2024, 4:05 PM IST | Dr. Ashraf Lone | Mumbai

یہ صحیح ہے کہ کوئی بھی ناول، افسانہ یا نظم لکھنے یا پڑھنے سے کوئی جنگ نہیں رُک سکتی لیکن یہ کیا کم ہے کہ آپ دنیا تک اپنی بات پہنچا رہے ہیں، آپ تاریخ کے ایک اہم واقعے کو الفاظ و تحریر کے ذریعے محفوظ کررہے ہیں۔

The purpose of creation should be to accurately reflect what is happening in front of us. Photo: INN
تخلیق کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جو کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے اس کی صحیح عکاسی ہو۔ تصویر: آئی این این

تاریخی کتب ان باتوں یا واقعات سے بھری پڑی ہیں کہ فلاں سیاست داں نے فلاں جنگ میں کیا رول ادا کیا، کیا اُس کی کوششوں سے جنگ رُک گئی اور کیا مزید جانیں تلف ہونے سے بچ گئیں، کس سیاستداں نے ثالثی کا رول ادا کیا، کس نے جنگ کو ہوا دی۔ اس طرح سیاست یا میڈیا کے رول پر ہمیشہ بحث ہوتی آئی ہے۔ کیا میڈیا غیر جانبدار رہا، کیا میڈیا نے دونوں فریقوں کی صحیح تصویر پیش کی؟ کیا اس میڈیا نے مظلوم کی مظلومیت اور بے بسی کو دنیا یا دنیا کے حکمرانوں کے سامنے پیش کیا؟ کیا میڈیا نے پروپیگنڈا چلا کر یا غلط خبریں چھاپ کر یا نشر کرکے جنگ کو اپنے نفع کی خاطر جان بوجھ کر بڑھنے دیا؟ یہ سب سوالات تقریباََ ہمیشہ موضوع بحث رہتے ہیں اور آگے بھی رہیں گے۔ 
لیکن آج اکیسویں صدی کے ادب کی دنیا میں ایک اہم بحث یہ اٹھی ہے کہ ادبی نقاد کا جنگ کے دوران میں کیا رول ہونا چاہیے یا ایک ادبی نقاد کو کیا رویہ اپنانا چاہیے جب لاکھوں بے قصور لوگ بمباری میں مارے جارہے ہوں ؟ یہ اس نظریہ پر کاری ضرب لگاتا ہے کہ ادب اپنے عہد سے دور یا ماحول سے متاثر نہیں ہوتا۔ ممکن ہے یہ احساس بھی ہو کہ اس سے مقتدر طبقہ ناراض ہوجائے جس کے نزدیک ادب محض تفریح طبع کا ذریعہ ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے۔ 
معروف ادبی نقاد اور دانشور ایڈورڈ سعید نے کہا تھا کہ متن کا موجودہ عہد یا موجودہ زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔ متن کا ایک تاریخی پہلو ہوتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایڈورڈ سعید کے مطابق’ متن کے زندگی سے تعلق‘ نے ادبی نقاد پر کئی اہم ذمہ داریاں عائد کی ہیں جن میں سیاسی ذمہ داری بھی ہے مگر ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ موجودہ نقاد نے دُنیا سے منہ موڑ لیا ہے یا وہ اس دنیا سے اپنے آپ کو ایک الگ مخلوق تصور کرتا ہے۔ ایڈورڈ سعید مزید فرماتے ہیں کہ امریکہ میں اس وقت ادبی تھیوری نے متن کو عہد حاضر کے حالات و واقعات سے الگ کرکے رکھا ہے، ان مادی احساسات سے اسے دور کردیا ہے جنہوں نے اس کو بڑی طاقت عطا کی تھی۔ 
ٓٓٓایڈورڈ سعید نے ہی اپنی مشہور کتاب ’’ شرق شناسی‘‘ (Orientalism) سے ادبی تنقید کو ایک نیا رُخ عطا کیا اور دلائل سے واضح کیا کہ کس طرح مستشرقوں نے مشرقی یا افریقی اقوام کو غلط انداز میں پیش کیا۔ جن نظریات کے تحت انہوں نے ایسا کیا وہ کس حد تک جھوٹ پر مبنی تھے، اس کے پس پردہ کیا عوامل کارفرما تھے یا کیا پروپگنڈہ تھا، اس تناظر میں اگر آج ادبی تنقید کے رول پر بات کریں تو ہمیں ذہن میں رکھنا ہوگا کہ محض بورژوا، سامراجی یا سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ اداروں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ادب یاادبی تنقید کو اپنا غلا م بنالیا ہے، جو ادبی تنقید کا ایک گمراہ کن پہلو ہے اور جسے اب بعض بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں میں فروغ دیا جارہا ہے۔ اس کے تحت اب نہ صرف کانفرنسوں میں بلکہ پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کے ایسے عنوانات چُنے جارہے ہیں یا ایسے عنوانات کو فروغ دیا جارہا ہے جن سے پروپیگنڈہ اور مفاد پرستی کی بو آرہی ہے۔ 
یہ صحیح ہے کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں اُسے ہوبہو یا فوراََ ادبی فارم یا ہیئت میں ڈھالنا یا اتارنا، اسے کوئی ادبی شکل دینا چاہے وہ شاعری ہو یا ناول سب کیلئے ممکن نہیں اور شاید ’فن کے دعویدار‘ یہ بھی دعویٰ کریں کہ یہ فن نہیں ہے لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ جب ہمارے سامنے لاکھوں لوگوں کو قتل کیا جارہا ہو، ان پر بم برسائے جارہے ہوں، انہیں بے گھر کیا جارہا ہو، ہزاروں بچوں کو قتل کیا جارہا ہو، انہیں یتیم اور بے سہارا کیا جارہا ہو، وغیرہ، اور اس پر ہم بات نہ کریں، اس پر کوئی مزاحمتی نظم یا کہانی نہ لکھیں، تو کیا ہم اس کا بھی حق نہیں رکھتے یا سامراجیت نے ہمیں اتنا سُست، مادی زندگی میں مصروف یا مجبور کردیا ہے کہ ہمیں اس سانحہ پر چند منٹ کیلئے سوچنے کی فرصت بھی نہیں ؟ کیا اس کیلئے بھی ہمیں دہائیوں انتظار کرنا پڑے گا تاکہ ہم کوئی ’’اچھا فن پارہ‘‘ تخلیق کرسکیں جو ’’ادبی ٹھیکیداروں ‘‘ کی نظر میں بڑا ہو اور انہیں پسند آئے؟ اگر ان ہولناکیوں کے دوران میں کوئی نقاد ایسا کہتا ہے تو ا سکی حیثیت کسی پروپیگنڈسٹ سے زیادہ نہیں۔ ایسی درسی، سرکاری یا کارپوریٹ تنقید سے نہ ادب کو کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ عالم انسانیت کو اُس سے بھلائی کی امید رکھنی چاہئے۔ بلکہ الٹا ایسی تنقید سے گمراہی پھیلنے کا زیادہ امکان ہے اور ہم نہ صرف ادب بلکہ تاریخ کے ایک بڑے واقعے و سانحے کو حرف یا الفاظ میں محفوظ کرنے سے محروم ہوکر رہ جائینگے۔ 
اتنی بات تو طے ہے کہ مظلوم سے امن کی اپیل کرنا ایسا ہی جیسے ہم کسی مفلس سے مالی مدد کی اپیل کریں ۔ یہ نہ صرف ایک شرمناک عمل ہے جو ایک مظلوم ومجبور کو مزید ظلم سہنے کی طر ف دھکیل دیتا ہے اور ظالم کے ظلم کا جواز پیدا کرتا ہے۔ کیا آج کا نقادبھی اس کا مرتکب ہے کہ جب مظلوم کیلئے انصاف کے سب دروازے بند ہوچکے ہیں اور نقاد مظلوم سے امن کی اپیل کر رہا ہے، مظلوم کے سامنے شرائط رکھ رہا ہے، ایک مظلوم جس کے پاس کچھ بھی نہیں اس کو اس بات کیلئے مجبور کیا جارہا ہے کہ آپ جنگ اور خونریزی کی تمام ذمہ داری اپنے سر لے لیں۔ اس طرح ایک ایسا بیانیہ ترتیب دیا جاتا ہے جس سے لگے کہ شاید اصل میں مظلوم ہی خطاوار اور ’ظالم‘ ہے۔ لیکن ایسے کھوکھلے بیانیے کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہوتی، یہ فریب اور دھوکہ دہی پر مبنی پروپیگنڈہ ہے۔ 
 ایک دانشورنقاد کا معاملہ یہ ہونا چاہئے کہ ادب کے قارئین کو یہ بتائے کہ فلاں فن پارہ کیسا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ نقاد موجودہ حالات سے صرف نظر نہ کرے، ان کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے بجائے ان سے مکالمہ کرے اور یہ بتائے کہ ادب کو موجودہ حالات میں کیا کرنا ہے یا کرنا چاہئے۔ کیا ایک ادیب جو سب کچھ دیکھ رہا ہے چپ رہے یا اپنے قلم کو مظلوم کے حق میں اٹھائے؟چپ رہنے سے لفظ کی حرمت جاتی رہے گی اور ادب سستی تفریح بن جائیگا۔ 
مشہور مصنف و دانشور فرانز فینن نے زبان و ادب کا مطالعہ نوآبادیت، استعماریت اور سامراجیت کے تناظر میں کیا ہے، بلکہ ان کی تحریروں کے مطالعے کے بغیر ہم استعماریت یا نوآبادیت کی جارحیت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ انہوں نے استعماریت کا مطالعہ نفسیاتی حوالے سے کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کی تصانیف ’’ افتادگان ِ خاک‘‘ اور ’’ سیاہ جلد اور سفید مکھوٹے‘‘ کا مطالعہ ناگزیر ہے جن میں فینن نے مابعد نو آبادیت اور اس کے بھیانک نتائج سے بحث کی اور سمجھایا ہے کہ کس طرح سفید فام یا یورپی اقوام نے افریقی اقوام کو غلط رنگ میں پیش کیا اور ان افریقی اقوام پر روا رکھے گئے مظالم کیلئے جواز فراہم کیا۔ فینن نے اس دہرے پن اور منافقت کا پردہ فاش کیا اور اس کے خلاف احتجاج کیا۔ اس طرح فینن نے اپنے قلم سے آنے والے ادبی نقادوں کیلئے راہ ہموار کی، ادیبوں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ ظالم اور مظلوم کے فرق کو سمجھیں اور ان سازشوں سے بھی بچیں جو سامراجی طاقتوں نے اسے زیر کرنے کیلئے روا رکھی ہیں۔ 
یہ صحیح ہے کہ کوئی بھی ناول، افسانہ یا نظم لکھنے یا پڑھنے سے کوئی جنگ نہیں رُک سکتی لیکن یہ کیا کم ہے کہ آپ دنیا تک اپنی بات پہنچارہے ہیں، آپ تاریخ کے ایک اہم واقعے کو الفاظ و تحریر کے ذریعے محفوظ کررہے ہیں۔ امریکی ناول نگار میکسین ہانگ کنگسٹن نے کہا ہے:’’تحریر عدم تشددکا ایک عمل ہے، لیکن یہ بہت فعال، بہت جارحانہ عمل ہے، لیکن آپ بم یا بندوقیں نہیں چلارہے ہیں ۔ صرف قلم کا استعمال کر رہے ہیں۔ یہ ایک چیخ ہے تاکہ آپ کی آواز پوری دنیا میں سنی جائے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ ابھی جنگ کو روکنے کے قابل نہ ہوں، لیکن الفاظ ماحول پر اثرانداز ہوسکتے ہیں اور مستقبل میں بھی دنیا کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ‘‘
ادبی نقاد، قاری کی رہنمائی اس صورت میں کریگا کہ مظلوموں پر جو بم برسائے جارہے ہیں اس سے کس حد تک تباہی مچ رہی ہے، کتنے لوگ مر رہے ہیں، کتنے بچے یتیم ہورہے ہیں، کتنے گھر اور اسکول تباہ ہورہے اور یہ کہ اس تباہی کے پیچھے کون سے عناصر کارفرما ہیں، تاریخ میں اس تباہی کو کس طرح دیکھا جائے گا، آئندہ دور میں اس کے کیا نتائج ہوں گے اور اس مظلوم سماج پر اس تباہی کا کیا اثر ہوگا۔ یہاں پر نقاد ایک ادیب سے یہی تقاضا کریگا کہ وہ جو دیکھ رہا ہے اس کی سچی تصویر پیش کرے اور لفظ کی حرمت کا خیال رکھے اور یہ ادب صرف لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ اس کا جو سماجی، تاریخی و ثقافتی پہلو ہے اس سے ایک ادیب دستبردار نہیں ہوسکتا۔ نقاد یہ بھی دیکھے کہ موجودہ دور کا ادیب ان بھیانک حالات کی درست عکاسی میں کامیاب ہے یا نہیں ؟ 
ٰٰٓٓایک کہانی کار کی طاقت اس کے قلم یا اس کے الفاظ ہیں جس سے وہ اپنی کہانی کی دنیا سجاتا ہے۔ وہ اپنی ان کہانیوں سے ظالم کو اُس کا اصل چہرہ اور اس کے ظلم سے مظلوم پر کیا بیتتی ہے وہ دکھاتا ہے، جنگ، ظلم اور ناانصافی سے پیدا شدہ بھوک اور افلاس کی عکاسی کرتاہے، ظلم و انصافی میں پسے ہوئے انسان کی کہانی، اُس کے جذبات و احساسات اور اُس کی مظلومیت کو اپنی تخلیقات کا حصہ بنانا ایک ادیب کا بڑا کارنامہ ہے، جسے صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے اور جس کی تاریخی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 
عہدِ جنگ میں جو ادب لکھا جاتا ہے وہ صرف الفاط کا گورکھ دھندا نہیں ہے۔ اس ادب کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جو کچھ ہمارے سامنے ہورہا ہے اس کی صحیح عکاسی ہو، جنگ کی ہولناکیاں اور تباہ کاریاں اس ادب کے ہر لفظ سے عیاں ہوں۔ سرکاری یا کارپوریٹ یا سرمادارانہ نظام کے اندر فروغ پانے والی تنقید سے اس کی توقع رکھنا عبث ہے لیکن ایک باضمیر نقاد یا ادیب، ادب کو صحیح سمت دے گا اور قاری کی درست رہنمائی کریگا۔ ادب یا تنقید کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ ہم نہ تو جنگ یا اس میں شامل ظالم کی طرف کھڑے ہیں نہ ہی ظلم کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں بلکہ ہمارا ہر لفظ مظلوم کیلئے ہے۔ یہودی قوم کو دوسری عالمی جنگ کے دوران میں جن ہولناکیوں سے گزرنا پڑا وہ ادب، ناول، یادداشت، نظم، افسانہ وغیرہ کے ذریعے ہی ہم تک پہنچا اور آج تک کتابوں محفوظ ہے۔ اس تناظر میں جاپانی مصنف اِرس چانگ نے بجا کہا ہے کہ’ ہولوکاسٹ کا بھُلانا دوسری بار قتل یا مارنے کے متردف ہے۔ ‘ 
(مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق اسکالر ہیں )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK