Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو، ہارورڈ یونیورسٹی اور وقف قانون

Updated: April 25, 2025, 10:52 AM IST | Shamim Tariq | Mumbai

تینوں معاملات اہم ہیں۔ اُردو کے معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا اُردو گنگا جمنی تہذیب کی ترجمان ہے۔ جو کچھ ہارورڈ یونیورسٹی میں ہورہا ہے اس میں اُردو والوں کیلئے بڑا سبق ہے۔ وقف قانون نہ صرف دستور کی روح کے بلکہ ہندوستانیت کی روح کے بھی خلاف ہے۔

In the case of Urdu, the Supreme Court said that Urdu is the expression of the Ganga-Jamni civilization. Picture: INN
اُردو کے معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا اُردو گنگا جمنی تہذیب کی ترجمان ہے۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ ہفتہ تین خبریں خصوصیت سے ہماری توجہ کا مرکز بنیں۔ ہر خبر اس قابل ہے کہ اس پر تفصیل سے لکھا جائے مگر کالم میں جگہ کی قلت کے سبب تینوں خبروں پر ایک ساتھ کچھ لکھنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ پہلی خبر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ہے کہ اُردو گنگا جمنی تہذیب کی ترجمان ہے۔ یہ اسی ملک میں پیدا ہوئی اور ہندی و اُردو کا رشتہ شدت پسندوں کے رویے کے باعث متاثر ہوا۔ اس کی ابتدا نو آبادیاتی طاقتوں کی اس تقسیم کے سبب ہوئی تھی کہ اُردو مسلمانوں اور ہندی ہندؤں کی زبان ہے ورنہ زبانوں کا تعلق معاشرہ سے ہوتا ہے۔ زبانیں کسی مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں۔ یوں بھی زبانوں کا کام رابطہ ہے نہ کہ تقسیم کرنا۔ عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنی زبانوں سے متعلق غلط فہمیوں اور تعصبات کو حقیقت کی کسوٹی پر رکھنا ضروری ہے۔ ایک اہم بات عدالت عالیہ نے یہ کہی کہ آٹھویں شیڈول میں جو بھی زبانیں شامل ہیں مثلاً مہاراشٹر کی مراٹھی اور اُردو دونوں کو برابر کا درجہ حاصل ہے۔ عدالتی نظام سے اس زبان کے خصوصی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ فوجداری قوانین ہوں یا دیوانی قوانین، یہ اُردو کے اثر کی واضح مثالیں پیش کرتے ہیں مثلاً عدالت، حلف نامہ، پیشی وغیرہ اُردو کے ہی الفاظ ہیں۔
 اس فیصلے پر انڈین ایکسپریس، ٹائمز آف انڈیا، لوک ستہ، مہاراشٹر ٹائمز، نوبھارت ٹائمز وغیرہ نے جو خبریں اور اداریے تحریر کئے وہ بھی مثبت سوچ اور صحتمند فکر کی ترجمانی کرتے ہیں، ان میں حقیقت پسندی کا ثبوت دیا گیا۔ البتہ، اقلیتی تعلیمی اداروں میں اُردو اور اس کی تقریبات کا جو حال ہے جس کی وجہ سے ان کے اقلیتی کردار کے چھین لئے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اس پر تو کسی نے کچھ لکھا ہی نہیں ہے۔ حالانکہ لکھا یہ بھی جانا چاہئے تھا کہ اُردو کے اجتماعات میں ناجائز طریقے سے گھس پیٹھ کرنے والے تو بہت ہیں مگر سپریم کورٹ کی حقیقت بیانی کا جشن منانے والے کم  ہیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اُردو ان کی تشہیر اور اُردو تقریبات ان کا قد بلند کرنے کا ذریعہ ہیں اور بس۔ اس فیصلے کے حوالے سے یہ لکھا جانا بھی ضروری تھا کہ اُردو کو فروغ دینے کے مقصد سے قائم کئے گئے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے اور شعبے اپنے کام اچھی طرح نہیں کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی ہر طرف بھرمار ہے جو صرف ان تقریبات کو اچھا کہتے ہیں جہاں ان کو مدعو کیا جائے، جہاں نہ مدعو کیا جائے ان تمام تقریبات کو وہ بُرا کہتے ہیں۔ ان کے مقابلے تو سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان اور ہندی، مراٹھی، انگریزی (جن کے اخبارات میری نظر سے گزرے ہیں) کے ادارتی عملے کے لوگ اچھے ہیں جو بے غرض ہو کر اُردو کی ستائش اور حقیقی حیثیت کا اعتراف کر رہے ہیں ورنہ اُردو والوں کا معاملہ یہ ہے کہ فوٹو چھاپو اور پھر ان کو کاپی بھی پہنچاؤ۔
 دوسری خبر یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس الزام میں ۳۰۰؍ طلبہ کے ویزے منسوخ اور ۱۷؍ یونیورسٹیوں کی مجموعی طور پر ۱۱؍ ارب ڈالر کی امداد روک دی ہے کہ یہ طلبہ ان کے بقول یہود دشمنی میں مبتلا ہیں اور یونیورسٹی انتظامیہ یہود دشمنی پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ صرف ہارورڈ یونیورسٹی کی ۲ء۳؍ ارب ڈالر کی رقم روکی گئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یونیورسٹی کو ایک خط بھیجا تھا کہ وہ طلبہ اور اساتذہ کے اختیارات محدود اور ان کی سرگرمیوں کو رپورٹ کرے مگر یونیورسٹی کے صدر (وائس چانسلر) نے ان مطالبات کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی اپنے آئینی حقوق کو کسی دباؤ میں نہیں چھوڑے گی۔ انہوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر مقدمہ بھی دائر کر دیا ہے۔ اس کے وکلاء کا کہنا ہے کہ اگر حکومت کو یونیورسٹی کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں مداخلت کی اجازت دے دی گئی تو سائنسی ایجادات اور اختراعات کو خطرہ لاحق ہوگا۔ 
 ہندوستان میں تو کئی اقلیتی تعلیمی ادارے اور اُردو اساتذہ اُردو کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیںا ور کوئی بدلنے والا نہیں ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے موقف کی یہاں کے تدریسی عملے  اور سابق صدر بارک اوبامہ نے بھی حمایت کی ہے۔ ہمارے اداروں میں صرف خوشامدیوں اور سماجی دباؤ بنانے والوں کی سنی جاتی ہے۔ نام نہیں لئے جاسکتے کہ اس طرح صفحے کے صفحے بھر جائینگے۔ ایک ریاست کے وزیراعلیٰ نے جب یہ کہا کہ اُردو پڑھ کر طلبہ کٹھ ملا بنتے ہیں یا جب اسی ریاست کی اسمبلی میں اقبال کی نظموں ترانۂ ہندی، ملی ترانہ اور وطنیت کے کچھ مصرعوں کو ایک ساتھ جوڑ کر غلط تاثر دینے کی کوشش کی گئی تب بھی کسی نے نہیں کہا کہ ’’ترانۂ ہندی‘ میں حب الوطنی، ملی ترانہ میں عام انسانیت کا حصہ ہونے کا اعلان اور وطنیت میں ’نیشنلزم‘ کے اس تصور کی مخالفت ہے جو یورپ سے درآمد کیا گیا ہے۔ شاید کسی کو یہ فرق معلوم ہی نہیں تھا یا معلوم بھی تھا تو بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ 
 ہارورڈ کی انتظامیہ قابل مبارکباد ہے کہ وہ ٹرمپ جیسے صاحب ِ اقتدار اور اس کی انتظامیہ کے سامنے نہیں جھکی۔ اُردو اداروں کے سربراہوں کے خوشامدیوں کیلئے تو اس میں اور بڑا سبق ہے۔ اس مبارکباد میں ان اداروں، ان کے سربراہوں اور ان کے خوشامدیوں کی مذمت بھی شامل ہے جو اقلیتی اداروں کو اُن کے اقلیتی کردار سے محروم کروا دینے کے در پے ہیں۔
 تیسری خبر وقف قانون پر چیف جسٹس آف انڈیا کے سوالات اور سالیسیٹر جنرل کی یہ یقین دہانی ہے کہ اگلی سماعت تک حکومت نئے قانون کی بعض دفعات کو  نافذ نہیں کریگی۔ راقم الحروف تمام ملی جماعتوں کا قدردان ہے مگر اس کو شکایت ہے کہ یہ جماعتیں اپنے اندر چھپی ہوئی تحریکوں اور صحافی کا لبادہ اوڑھ کر ملی اور حقیقی انصاف کے خلاف کام کرنے والوں کو پہچاننے اور بے اثر کرنے میں ناکام ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ صرف مسجدیں، اوقاف اور قبرستان چھین رہے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ انہوں نے بہتوں کا ضمیر پہلے ہی چھین لیا ہے۔ 
 راقم الحروف کا موقف یہ ہے کہ حکومت ہند اور پارلیمنٹ کو وقف قانون میں ترمیم کرانے کا حق ہے مگر وقف قانون ۲۰۲۵ء  نہ صرف دستور کی روح کے بلکہ ہندوستانیت کی روح کے بھی خلاف ہے۔ اس کا منشاء وقف کی یا وقف کے طور پر استعمال ہونے والی جماعتوں پر قبضہ جمانا ہے۔ اس کی مخالفت تمام انصاف پسندوں کو ساتھ لے کر کی جانی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی کھل کر کہی جانی چاہئے کہ ہم غیر وقف کو وقف میں شامل کئے جانے کے بھی خلاف ہیں اور وقف کی زمین، جائیداد، املاک پر کسی حیلے سے اپنوں یا غیروں کے قبضہ کرنے کے بھی۔ ایک اور خبر ابھی ابھی موصول ہوئی ہے مگر اس پر فی الحال اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ  پہلگام میں جو قتل و خون ہوا وہ صریحاً غلط اور قابل ِ مذمت ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK