Inquilab Logo Happiest Places to Work

اَدب بیک وقت حال کی آواز اور مستقبل کی بشارت ہے

Updated: April 13, 2025, 12:18 PM IST | Majnun Gorakhpuri | Mumbai

ادب جماعت اور افرادکی زندگی کی نہ صرف تصویر ہے بلکہ اس کی تنقید ہے۔ ادب اگر زندگی کی تنقید ہے تو وہ محض حال پر بھی نہیں اکتفا کر سکتا۔ تنقید کا مقصد ہمیشہ نئی تعمیر ہوتا ہے۔

The environment creates the writer, but the writer helps rebuild the environment. Photo: INN.
ماحول ادیب کو پیدا کرتا ہے، مگر ادیب ماحول کی ازسرنو تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

 ایک مشہور روسی ادیب کا خیال بہت صحیح ہے کہ ’’ادب برائے ادب‘‘ کا میلان اس بات کی دلیل ہے کہ ادیب اور اس کے ماحول کے درمیان تصادم ہے۔ مادی دنیا سے انسان اس وقت بھاگتا ہے جب وہ مشکلات کا سامنا کرنے کی تاب اپنے اندر نہیں پاتا۔ خالص جمالیات کے حامیوں نے ایک پرانی مثل سے بہت غلط فائدہ اٹھایا اور اس کی تاویل میں بڑی زبردستی کی۔ کہا گیا ہے کہ انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہےگا۔ اس میں سب سے اہم لفظ ’’صرف‘‘ ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں تھے کہ انسان بغیر روٹی کے بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ادب بھی زندگی کا ایک شعبہ ہے، اور زندگی نام ہے ایک جدلیاتی حرکت (Dilectic Process) کا جس کے ہمیشہ دو متضاد پہلو ہوتے ہیں۔ ادب بھی ایک جدلیاتی حرکت ہے اور اس کے بھی دو متضاد رخ ہیں۔ ایک تو خارجی یا عملی یا افادی۔ دوسرا داخلی یا تخیلی یا جمالیاتی۔ حسن کار یا ادیب کا کام یہ ہے کہ وہ ان دو بظاہر متضاد میلانات کے درمیان توازن اور ہم آہنگی قائم کئے رہے ورنہ ان میں سے جہاں ایک کا پلہ بھاری ہوا وہیں فساد و انتشار پیدا ہونے لگےگا۔ مارکس نے جو کچھ کہا تھا اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ادیب کو زمانے کے پیچھے نہ ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہ تھے کہ ادیب زمانے کا غلام بن جائے۔ 
ادب حال کا آئینہ دارضرور ہوتا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ مستقبل کا اشاریہ بھی ہوتا ہے اور اس کے لئے بیک وقت واقعیت اور تخیلیت، افادیت اور جمالیت، اجتماعیت اور انفرادیت سب کی ضرورت ہے۔ ماحول ادیب کو پیدا کرتا ہے، مگر ادیب ماحول کی ازسرنو تعمیر میں مدد کرتا ہے۔ ادب بیک وقت حال کی آواز اور مستقبل کی بشارت ہے۔ سب سے بڑا ادیب وہ ہے جو حال اور مستقبل کو ایک آہنگ بناکر پیش کرے۔ دنیا میں جتنے بڑے ادیب و شاعر گزرے ہیں وہ سب واقعات کی کثیف دنیا میں گردن تک ڈوبے کھڑے ہیں مگر ان کے ہاتھ ستاروں کو پکڑنے کے لئے آسمان کی طرف بڑھے ہوئے ہیں۔ ادب ایک آلہ نشرواشاعت، ایک ذریعہ تحریک و تبلیغ ضرور ہے، لیکن ایسا آلہ اور ہر ایسا ذریعہ ادب نہیں ہوتا۔ 
اخباروں سے بڑھ کر نشرواشاعت اور تحریک وتبلیغ کا ذریعہ کیا ہو سکتا ہے۔ مگر اخباروں کو ادب میں شمار کرنے کی جرأت انقلابی تنقید بھی مشکل ہی سے کر سکتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اخبارات میں سوا روح عصر کے کچھ نہیں ہوتا اور ادب میں علاوہ ’’روح عصر‘‘ کے بھی ایک عنصر ہوتا ہے جس کا تعلق ’’ماورائے عصر‘‘ سے ہوتا ہے اور جس کی بدولت وہ ادب ہر زمانہ کی چیز بن جاتا ہے یعنی وہی واقعیت (Realism) اور تخیلیت (Idealism) کا شیروشکر ہونا ادب کا اصلی چہرہ ہے۔ مشہور انگریزی نقاد جے بی پریسٹلی کا خیال بہت صحیح ہے کہ حسن کاری یعنی آرٹ کو زندہ رکھنے کیلئے تھوڑی سی افیون کی ضرورت ہمیشہ پڑے گی۔ میتھو آرنلڈ نے ادب کو جو زندگی کی تنقید کہا تھا تو اس کامطلب یہی تھا۔ ادب جماعت اور افرادکی زندگی کی نہ صرف تصویر ہے بلکہ اس کی تنقید بھی ہے اور مارکس کے نظریے کا مطلب بھی اس سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ اس کا یہ کہنا بہت صحیح ہے کہ فلسفہ اور ادب دونوں صدیوں تک دُنیا کی یا تو بجنسہ تصویریں پیش کرتے رہے ہیں یا اس کی تاویلیں کرتے رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دُنیا پر تنقیدی نظر ڈالی جائے اور اس کو بدلا جائے اور بہتر سے بہتر بنایا جائے۔ 
مارکس اصرار کے ساتھ ہم کو صرف یہ سمجھانا چاہتا تھا کہ ایک جدلیاتی کیفیت اور تغیر اور نمو اور ارتقا زندگی کی فطرت میں داخل ہیں۔ ادب کو اس کا ثبوت دینا چاہئے۔ اس نے قدیم یونانی فنون لطیفہ اور ادبیات کی مثال دے کر ہم کو سمجھایا ہے کہ یہ ادب صرف اس یونانی معاشرے کا نتیجہ ہو سکتا تھا جو بجائے خود دیو مالائی قسم کی چیز تھی جو دیومالائی تصورات پر مبنی تھی۔ آج کل کا صنعتی دور اور صنعتی تمدن اس ادب کو دہرا نہیں سکتا۔ اگر ادیب کو واقعی زندہ رہنا ہے اور وہ معاشرت کی تہذیب و ترقی میں کوئی نمایاں حصہ لینا چاہتا ہے تو وہ بھاگ کر ماضی میں پناہ نہیں لے سکتا۔ 
ادب اگر زندگی کی تنقید ہے تو وہ محض حال پر بھی نہیں اکتفا کر سکتا۔ تنقید کا مقصد ہمیشہ نئی تعمیر ہوتا ہے اور نئی تعمیر کیلئے ہمیشہ ایک استقبالی میلان کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دوسرا نام تخیل ہے۔ کامیاب ادب قدماء کے نزدیک بھی دو متضاد عنصروں سے مرکب ہے: محاکات اور تخیل۔ محاکات کا تعلق حال سے ہوتا ہے اور تخیل کا تعلق مستقبل سے۔ واقعے کے ہمیشہ دو رُخ ہوتے ہیں ایک تو واقعی یا ساکن اور دوسرا امکانی یا متحرک، اور ادیب کی بصیرت ان دونوں کو ایک کر دیتی ہے۔ گویا خواب اور حقیقت کے امتزاج کا نام ادب ہے؟ مارکس کے نظریے پر تبصرہ کرتے وقت ہم کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ وہ اس وقت پیدا ہوا جبکہ جرمنی میں ماورائیت (Transcedentalism) بری طرح چھا رہی تھی اور حکمائے کائنات کا مرکز مادی سطح سے ایک دم ہٹاکر روحانی سطح پر قائم کرنا چاہتے تھے۔ وہ مادے سے انکار کر رہے تھے اور صرف ایک جوہر اعلیٰ یاروح کو اصل حقیقت مانتے تھے۔ کائنات اور حیات انسانی کی روح رواں یہی جوہر اعلیٰ ہے جو خدا کا دوسرا نام ہے۔ 
مختصر یہ ہے کہ کامیاب ترین ادب وہ ہے جو حال کا آئینہ اور مستقبل کا اشاریہ ہو، جس میں واقعیت اور تخیلیت، افادیت اور جمالیت ایک آہنگ ہوکر ظاہر ہوں، جس میں اجتماعیت اور انفرادیت دونوں مل کر ایک مزاج بن جائیں، جو ہمارے ذوق حسن اور ذوق عمل دونوں کو ایک ساتھ آسودہ کر سکے۔ اب تک ادب جو کچھ بھی رہا ہو، لیکن اب اس کو یہی ہونا ہے۔ 
(کتاب’ ’ادب اور زندگی‘‘ میں شامل مضمون سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK