شکل جی اب تک ڈھیر ساری نظمیں اور کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ ناول ’’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی‘‘ پر اُنہیں ساہیتہ اکادیمی انعام (۱۹۹۹ء) دیا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: April 06, 2025, 11:50 AM IST | Shahid Latif | Mumbai
شکل جی اب تک ڈھیر ساری نظمیں اور کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ ناول ’’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی‘‘ پر اُنہیں ساہیتہ اکادیمی انعام (۱۹۹۹ء) دیا گیا تھا۔
دو ہزار چوبیس (۲۰۲۴ء) کے گیان پیٹھ ایوارڈ کیلئے ججوں کی نگاہ ہندی کے منفرد نثر نگار اور اپنی شاعری سے متاثر کرنے والے ونود کمار شکل پر جا ٹھہری ہے جو اُن فنکاروں میں سے نہیں ہیں جو ایوارڈ حاصل کرنے کیلئے مسلسل تگ و دو کرتے ہیں، جوڑ توڑ اور سفارشوں کا سہارا لیتے ہیں اور وہ سب کرتے ہیں جو دباؤ ڈالنے کی سیاست (لابئنگ)کے ذیل میں آتا ہے۔ شکل کی بے نیازی اُن کا اہم شناخت نامہ ہے۔ نہ تو مشاعروں میں شرکت اُنہیں بھاتی ہے نہ ہی کسی سنگوشٹی کی شوبھا بڑھانے کی آرزو اُنہیں ستاتی ہے۔ نیتاؤں سے صاحب سلامت بھی اُن کا شیوہ نہیں۔ ایسے ہی کسی ادیب اور شاعر کو جب کوئی اعزاز ملتا ہے تو اسے حق بحقدار رسید کہنا اچھا لگتا ہے۔ شکل جی عمر کی ۸۸؍ ویں بہار دیکھ رہے ہیں۔ اعزاز و انعام سے اُن کی بے نیازی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب اُن سے گیان پیٹھ ملنے کی بابت سوال کیا گیا تو اُن کا جواب تھا: ’’یہ بہت بڑا پرسکار ہے، مَیں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ مجھے ملے گا، دراصل میں نے کبھی پرسکاروں پر دھیان نہیں دیا، لوگ مجھ سے اکثر کہتے تھے کہ مجھے گیان پیٹھ ملنا چاہئے لیکن میں کیا کہتا؟ جھجک کے سبب مَیں کبھی صحیح شبد کھوج نہیں پایا۔ ‘‘
شکل جی اب تک ڈھیر ساری نظمیں اور کئی ناول لکھ چکے ہیں۔ ناول ’’دیوار میں ایک کھڑکی رہتی تھی‘‘ پر اُنہیں ساہیتہ اکادیمی انعام (۱۹۹۹ء) دیا گیا تھا۔ بہت کچھ لکھنے کے باوجود اُنہوں نے اِنکساری کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں : ’’مجھے لکھنا بہت تھا، بہت کم لکھ پایا، میں نے دیکھا بہت، سنا بھی بہت، محسوس بھی کیا بہت لیکن لکھنے میں تھوڑا ہی لکھا، کتنا کچھ لکھنا باقی ہے، جب سوچتا ہوں تو لگتا ہے بہت باقی ہے، اس بچے ہوئے کو مَیں لکھنا چاہتا ہوں، اپنے بچے ہونے تک مَیں اپنے بچے ہوئے لیکھن کو شاید لکھ نہیں پاؤں گا، تو مَیں کیا کروں، بڑی دُوِدھا میں رہتا ہوں، مَیں اپنی زندگی کا پیچھا اپنے لیکھن سے کرنا چاہتا ہوں مگر میری زندگی کم ہونے کے راستے پر تیزی سے بڑھتی ہے اور مَیں لیکھن کو اُتنی تیزی سے بڑھا نہیں پاتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔ ‘‘
معیار پر مقدار کو ترجیح دیتے ہوئے کئی کتابیں تصنیف کرجانے، مشہور ہوجانے، انعام پر انعام اور اعزاز پر اعزاز حاصل کرلینے اور کئی اہم مناصب پر فائز ہوجانے کے غالب رجحان کے اِس دور میں یہ ایسا ادیب اور شاعر ہے جو عمر کی آخری سرحد کے قریب پہنچنے کے بعد بھی کہتا ہے کہ بہت تھوڑا لکھا جبکہ اسے انفرادیت اور تخلیقی روانی کی دولت حاصل ہے۔ لکھنے کو بہت لوگ لکھتے ہیں، مشہور بھی ہوتے ہیں، پیسہ بھی کما لیتے ہیں مگر اُن کا فن چند موسم بھی نہیں جھیل پاتا، بھلا دیا جاتا ہے اور اگر وہ خود کو بار بار یاد دلواتے رہیں تب بھی اُن کا ایک شعر، ایک کہانی اور ایک قول بھی دل میں نہیں اُترتا۔
شکل جی لکھتے ہی نہیں خوب لکھتے ہیں۔ اُن کے فن میں مظاہر قدرت کو بڑا دخل ہے، وہ چڑیوں، تاروں، ستاروں، چاند، سورج، پھول پتیوں، پیڑوں اور پرندوں کو اپنے فن میں اس طرح جگہ دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے یہی اُن کی جگہ ہے۔ اسی طرح اُنہیں عام آدمی سے، اپنے قصبے کے مشہور مقامات سے، اپنے عزیزوں اور پڑوسیوں سے بڑی محبت ہے، اسی لئے وہ اپنے کسی بھی فن پارے کو اُس وقت تک نامکمل تصور کرتے ہیں جب تک ان میں سے کسی کا ذکر نہ کرلیں۔ اُن کی نظموں میں مظاہر قدرت کی مثال دیکھئے، کہتے ہیں : ’’پہاڑ، ٹیلے، چٹانوں، تالاب، اسنکھیہ پیڑ، کھیت، کبھی نہیں آئینگے میرے گھر، کھیت کھلیانوں جیسے لوگوں سے ملنے، گاؤں گاؤں، جنگل گلیاں جاؤنگا‘‘ (نظم جو میرے گھر کبھی نہیں آئیں گے)۔ اسی طرح اُن کی انسان دوستی ملاحظہ کیجئے، کہتے ہیں : ’’سب سے غریب بیمار آدمی کے لئے، سب سے سستا ڈاکٹر بھی، بہت مہنگا ہے‘‘ (نظم: سب سے غریب آدمی) یا ’’رئیسوں کے چہرے پر، اُٹھی ہوئی اونچی ناک، اور قیمتی سینٹ، خوشبو مَیں نہیں جانتا، دکھ جانتا ہوں ‘‘ (نظم رئیسوں کے چہرے پر)۔ اُن کی نظم ’’ہتاشا (مایوسی) سے ایک ویکتی بیٹھ گیا تھا‘‘ تو بے پناہ ہے اور بار بار پڑھنے پر اُکساتی ہے۔ کہتے ہیں : ’’ہتاشا سے ایک ویکتی بیٹھ گیا تھا، ویکتی کو مَیں نہیں جانتا تھا، ہتاشا کو جانتا تھا، اس لئے میں اس ویکتی کے پاس گیا، مَیں نے ہاتھ بڑھایا، میرا ہاتھ پکڑ کر وہ کھڑا ہوا، مجھے وہ نہیں جانتا تھا، میرے ہاتھ بڑھانے کو جانتا تھا، ہم دونوں ساتھ چلے، دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے، ساتھ چلنے کو جانتے تھے۔ ‘‘ اُن کا پیغام واضح ہے۔ مدد کا طالب چاہتا ہے کہ کوئی اُس کی مدد کرے، جب مدد کو ہاتھ بڑھتا ہے تو وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون مدد کررہا ہے، اسی طرح مدد کا جذبہ رکھنے والا یہ نہیں دیکھتا کہ وہ کس کی مدد کررہا ہے، وہ صرف مدد کررہا ہوتا ہے۔ دُنیا میں دونوں طرح کے افراد ہیں اور دونوں کو ایکدوسرے کی حاجت ہے، ایک کو مدد دَرکار ہے، دوسرے میں مدد کا جذبہ ہے، شاعر ان دونوں کے درمیان پُل بن کر ایک اہم ذمہ داری نبھانا چاہتا ہے اور اس حوالے سے بہت سوں کو اُن کی ذمہ داری یاد دلاتا ہے۔ شکل جی کی نظموں میں سماج کے ایسے کئی کردار ہیں جن کے بارے میں عموماً سوچا بھی نہیں جاتا۔ مثال کے طور پر ایک نظم ’’آنکھ بند کرلینے سے‘‘ میں وہ نابینا افراد کی محرومی کو اُجاگر کرتے ہیں کہ اُن کے حصے میں اُتنی ہی دُنیا آتی ہے جتنی وہ چھو‘ کر دیکھ سکتے ہیں، بقیہ کی خواہش اُنہیں بیقرار چین رکھتی ہے (’’طرح طرح کی آوازوں کے بیچ، کرسی بناتا ہوا ایک اندھا، سنسار سے سب سے ادھیک پریم کرتا ہے، وہ کچھ سنسار اسپرش کرتا ہے اور، بہت کچھ اسپرش کرنا چاہتا ہے‘‘)۔ یہ نکتہ وہی اُجاگر کرسکتا ہے جو نابینا افراد کے تئیں مخلصانہ جذبات رکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کوشش میں بصارت سے محروم افراد کی بے چینی تک پہنچ جاتا ہے جن کی پہلی اور آخری خواہش یہی ہے کہ وہ چیزوں کو چھو کر دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کا چھونا ہی دیکھنا ہے اور دیکھنا ہی اُن چیزوں کو دائرۂ تسخیر میں لانا ہے۔ ایسی جدوجہد بینائی والے افراد کو نہیں کرنی پڑتی جو کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہیں مگر نہ تو اپنے دیکھنے کو محسوس کرتے ہیں نہ ہی بینائی جیسی عظیم نعمت کی قدر کرتے ہیں۔
ونود کمار شکل کی اس فنی خصوصیت کی داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے افراد کی اُمیدیں، آرزوئیں، محرومیاں، ناکامیاں، بیماریاں، بے کیفی اور ثروتمندوں کی بے رُخی جیسے موضوعات کو برتتے ہوئے اُن کا لہجہ نہ تو اتنا تلخ ہوتا ہے کہ گراں گزرے نہ ہی اتنا بلند کہ نعرہ یا شور بن جائے۔ وہ اپنی بات سادگی اور نرمی سے کہتے ہیں، اُن کے لہجے میں برہمی نہیں ہے، اپنی بات سمجھانے کا جذبہ ہے۔ وہ اِس خوبصورت دُنیا کی خوبصورتی کو بچائے رکھنا چاہتے ہیں، اس میں لوگوں کو ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتے ہیں، تیزی سے بدلتی ہوئی دُنیا سے اُنہیں شکایت ضرور ہے مگر یہ اعتراف بھی ہے کہ دُنیا ہے تو بدلے گی ہی، جوں کی توں تو کبھی نہیں رہ سکتی مگر وہ اپنے پڑھنے اور سننے والوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ تسلسل کے ساتھ تغیر پزیر دُنیا میں ہمیشہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس کا تحفظ ضروری ہے، اسی لئے کہتے ہیں : ’’یہ چیتاؤنی ہے کہ ایک چھوٹا بچہ ہے، یہ چیتاؤنی ہے کہ چار پھول کھلے ہیں، یہ چیتاؤنی ہے کہ خوشی ہے اور گھڑے میں بھرا ہوا پانی پینے کے لائق ہے، ہوا میں سانس لی جاسکتی ہے یہ چیتاؤنی ہے‘‘۔ چیتاؤنی اس اعتبار سے کہ ان سب چیزوں کا تحفظ لازم ہے ورنہ یہ نعمتیں چھن بھی سکتی ہیں۔ جنگوں کی تباہی کے خلاف انتباہ پر ختم ہونے والی اس نظم میں سکون سے جینے کی خواہش کے ساتھ سکون سے مرنے کی آرزو کو بھی اُجاگر کیا گیا ہے، شکل کہتے ہیں : ’’کسی ہونے والے یدھ (جنگ) سے جیو ِت بچ کر مَیں اپنی اہمیت سے مرنا چاہتا ہوں ‘‘۔ یہ ایسی شاعری ہے کہ ایک بار پڑھ کر اُس کی گہرائی و گیرائی کو سمجھا نہیں جاسکتا، اسے بار بار پڑھنے میں لطف بھی آتا ہے اور تفہیم بھی آسان ہوجاتی ہے۔
(مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے)