زبان کے مرکز کسی کے قائم کئے سے قائم نہیں ہوتے۔ جس طرح فطری زبانیں خود بخود بنتی چلی جاتی ہیں، زبان کے مرکز بھی خود بخود بن جاتے ہیں۔
EPAPER
Updated: March 16, 2025, 12:28 PM IST | Shahid Ahmad Dehlvi | Mumbai
زبان کے مرکز کسی کے قائم کئے سے قائم نہیں ہوتے۔ جس طرح فطری زبانیں خود بخود بنتی چلی جاتی ہیں، زبان کے مرکز بھی خود بخود بن جاتے ہیں۔
دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی طرح اردو بھی مقامی بولیوں اور دوسری زبانوں کو اپنے اندر جذب کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کا تو خمیر ہی زبانوں اور بولیوں کے آمیز ے سے اٹھا ہے۔ چھوت چھات کی یہ نہ تو پہلے کبھی قائل تھی اور نہ اب ہے۔ زندہ زبانیں چھوت چھات کو نہیں مانتیں اور نہ اچھوت رہنا پسند کرتی ہیں۔ ان کا تال میل سب سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اردو ہر جائی بھی ہے، حریص بھی ہے، جس کی جو چیز پسند آتی ہے لے کر اپنے اندر جذب کر لیتی ہے، کبھی پرائی چیز کو جوں کا تو رہنے دیتی ہے اور کبھی اس کی شکل ہی بدل ڈالتی ہے۔ یہ عادت بھی اس نے اپنی ترقی پزیر بہنوں سے سیکھی ہے جبھی تو من موہنی بن گئی اور اس کا جادو سارے ہندوستان پر چل گیا تھا۔ بھلا جس نے عوام میں جنم لیا ہو، سرکاروں، درباروں میں قدم رکھا ہو، بادشاہوں کی منہ چڑھی رہی ہو، اس کی بڑھوتری کیسے رک سکتی تھی؟ ککڑی کی بیل کی طرح بڑھتی ہی چلی گئی اور ہندوستان کی سرحدوں کو پھلانگ کر دوسرے براعظموں پر بھی چولائی کی طرح پھیلنے لگی۔ اب دنیا میں آپ جہاں چاہے چلے جائیں، اردو بولنے والے آپ کو مل ہی جائیں گے۔
اور صاحب، غضب کی ڈھیٹ زبان ہے، بڑی سخت جان، اردو کو نہ صرف اچھوت بنایا جا رہا ہے، بلکہ اسے قتل کرنے کے سامان کئے جا رہے ہیں، مگر یہ ہے کہ ڈٹی ہوئی ہے اور برابر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ عجب بلا ہے کہ یونانی صنمیات کے ہائیڈرا کی طرح اگر اس کا سر قلم کیا جاتا ہے تو ایک کے بدلے دو سر نکل آتے ہیں۔ اردو کسی کے مارے نہیں مر سکتی۔ یہ تو یونہی نئے نئے میدان مارتی چلی جائےگی۔ کوئی صاحب اگر اس کے باب میں چھوت چھات کے وہم میں مبتلا ہیں تو اس وہم کو دل سے نکال دیں۔
جی ہاں، کسی زمانے میں اردو کے دو مرکز تھے۔ پہلا مرکز دلی اور دوسرا لکھنؤ۔ اگر دونوں مرکزوں میں روز مرہ، تذکیر و تانیث اور بعض لفظوں کے استعمال میں فرق تھا تو کیا غضب آ گیا؟ ہر زبان جغرافیائی اور مقامی لحاظ سے چولے بدل لیتی ہے۔ انگریزی زبان کو دیکھو کہ اسکاٹ لینڈ میں، آئرلینڈ میں، ویلز میں، پھر ان پڑوسی ملکوں سے نکل کر سات سمندر پار کے ملکوں میں کس کس طرح اور کس کس فرق سے بولی جا رہی ہے۔ اور تو اور امریکہ ہی کو لے لیجئے۔ انگریز ہی تو جا کر امریکہ میں بسے تھے۔ اپنی زبان انگریزی ہی تو ساتھ لے گئے تھے۔ ان ہی انگریزوں کی اولاد کو دیکھئے کہ اب کیسی بولی بول رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے تو لفظوں کسے حروف تک بدل ڈالے اور لفظ کے حروف تلفظ سے ہم آہنگ کر دئے۔ تبدیلی تو صاحب اس حد تک بھی ہو سکتی ہے۔ دلی اور لکھنؤ کے ذرا ذرا سے فرق پر کیوں گرفت کی جائے؟ یہ بھی زبان کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے کہ وہ مقامی اثرات کو قبول کرتی رہتی ہے۔ اگر دلی سے نکل کر لکھنؤ، بہار، پنجاب اور حیدرآباد دکن وغیرہ میں اردو اپنے نئے ماحول کے اثرات قبول نہ کرتی تو البتہ تعجب کی بات ہوتی اور اردو مسدود ہو کر حجریات میں شامل ہو جاتی۔ اردو بولنے والوں کی طرح اردو بھی کشادہ دل ہے۔ اگر ایسی نہ ہوتی تو حضرت امیر خسرو ہی کے زمانے میں ٹھٹھر کر مر جاتی۔ مرتی وہ زبانیں ہیں جو تنگ دل ہوتی ہیں اور جن کے بولنے والے تنگ دل ہوتے ہیں ۔ زبان کے مرکز کسی کے قائم کئے سے قائم نہیں ہوتے۔ جس طرح فطری زبانیں خود بخود بنتی چلی جاتی ہیں، زبان کے مرکز بھی خود بخود بن جاتے ہیں۔ جس شہر میں ثقہ اہل زبان زیادہ ہوتے ہیں، مستند شاعر اور ادیب زیادہ ہوتے ہیں وہ شہر مرکز بن جاتا ہے اور زبان کی سند اسی شہر کے بزرگان ادب سے ملنے لگتی ہے۔ دلی میں جب تک مغل بادشاہوں کی خوش اقبالی اور درباروں میں فارغ البالی رہی، اہل ہنر اور اہل کمال بھانت بھانت کے کھینچ کر آتے رہے اور اس شہر کے نام کو چار چاند لگاتے رہے۔ اس شہر کو انہوں نے اپنا وطن بنایا اور اسی شہر میں پیوند خاک ہو گئے:
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہرِ غلطاں، تہہِ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں اتنا خزانہ ہرگز
دلی ان اہل کمال کی وجہ سے زبان کی ٹکسال بنی اور اسی ٹکسال سے اردو کا سکہ جاری ہوا۔ جب مغل بادشاہی برائے نام رہ گئی اور شاہی خزانے خالی ہو گئے تو متوسلین شاہی اور اہلِ ہنر اور اہلِ فن نے ترکِ وطن کر کے پورب کا رخ کیا۔ فیض آباد اور فیض آباد کے بعد لکھنؤ کا شاہی دربار ان کا مرجع بنا۔ دلی کی کوکھ اجڑتی رہی اور لکھنؤ کی کوکھ ہری ہوتی رہی۔ مرکز اینٹ پتھر سے نہیں بنتا، اہلِ کمال سے بنتا ہے۔ چنانچہ لکھنؤ دوسرا مرکز بنا:
ہر کجا چشمۂ بود شیریں =مردم و مور و ملخ گرد آیند
جو سخت جاں تھے وہ دلی ہی میں رہے۔ لال قلعہ میں مغلوں کی شمع جھلملا رہی تھی۔ اس کے گرد پروانے جمع ہوتے رہے۔ انہیں کے دم سے دلی کی مرکزیت قائم رہی۔ لہٰذا دونوں مرکز اپنی اپنی جگہ پر قائم رہے۔ حالات و واقعات اور ان سے بڑھ کر ماحول نے ان دونوں مرکزوں میں چھوٹے چھوٹے سے اختلافات پیدا کر دیے جو آگے چل کر بڑے بڑے معرکوں کی شکل اختیار کر گئے۔ جب دو برتن ہوتے ہیں تو کھڑک ہی جاتے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی بات پر اڑے رہے، وہ اپنی خونہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں۔ یہ اختلافات بھی زبان کی ترقی کا ذریعہ بن گئے کہ اردو کے دو بڑے دبستان قائم ہو گئے۔ دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ۔ دوسرے شہر والوں نے جسے پسند کیا اس کی تقلید و پیروی کرنے لگے۔ اردو کیلئے دونوں آنکھیں برابر تھیں۔ ان میں سلوک بھی رہا اور چشمکیں بھی ہوتی رہیں۔ تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ دنیا کی ریت ہی یہ ہے۔ ہم اختلاف اس لئے کرتے ہیں کہ ہم میں اتفاق ہو۔
آپ نے بڑے مزے کی بات کہی ہے کہ ’’جو چیز لکھنؤ سے مؤنث چلتی تھی، وہ دلی پہنچ کر مذکر بن جاتی تھی۔ ‘‘ یہ فقرہ ناتمام ہے۔ اسے یوں ہونا چاہئے، ’’جو چیز لکھنؤ سے مؤنث چلتی تھی وہ دلی پہنچ کر مذکر بن جاتی تھی اور لاہور پہنچ کے مخنث۔ ‘‘ یعنی مذکر بھی اور مؤنث بھی۔ یہ خرابی ہے دو کشتیوں میں ایک ساتھ پاؤں رکھنے کی۔ اب یہ کہ ’’لکھنؤ نہ وہ لکھنؤ ہے۔ نہ دلی وہ دلی ہے۔ اردو کے طالب علم کدھر جائیں ؟ کسے اپنا امام تسلیم کریں ؟ کس سے سند پائیں ؟‘‘ اس مسئلہ کو واقعی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ یہ نہ بھولیے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد دلی اور لکھنؤ سے زیادہ لاہور اردو علم و ادب اور زبان کا مرکز بن گیا تھا۔ ۱۸۵۶ء میں شاہان اودھ کی بساط الٹی اور اس کے ایک سال بعد لال حویلی اجڑی۔ اہلِ کمال آشفتہ حال ہوئے اور جس کے جہاں سینگ سمائے نکل گیا۔ مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا حالیؔ نے لاہور کو اپنے لئے پسند کیا۔ کسی نے رام پور اور کسی نے حیدرآباد دکن کی راہ لی۔ آگے چل کر دکن بھی اردو کا ایک مرکز بن گیا۔ بہار والوں کو بھی بہار کے مرکز ہونے پر اصرار رہا۔ مگر یہ سارے مرکز اب ختم ہو چکے ہیں لہٰذا آپ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ، ’’اردو کے طالب علم اب کدھر جائیں ؟ کسے اپنا امام تسلیم کریں، سند کس سے پائیں ؟‘‘ سند اس سے لی جاتی ہے جو سند دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ شہروں سے سند نہیں لی جاتی۔ مستند اہلِ زبان جہاں بھی ہوں ان سے سند لیجئے۔ مستند مصنفوں کی مستند تصنیفوں سے سند لیجئے۔ اگر سائلؔ و بیخودؔ سے سند لی جاتی تھی تو جوشؔ ملسیانی سے بھی سند لی جاتی تھی اور لی جاتی ہے۔ اگر امیرؔ و داغؔ، آزادؔ و سرشارؔ مر چکے ہیں تو ان کے دیوان اور ان کی کتابیں تو نہیں مریں ؟ وہ اپنی گزار گئے مگر ہمارے لئے ہدایت کے چراغ تو چھوڑ گئے۔ ’’چھوڑیے صاحب!‘‘ کی بھی ایک ہی رہی۔ یہ آپ کے چھڑائے کب چھوٹتے ہیں ؟ انہوں نے تو آبِ حیات پیا ہے اور اردو کو آب حیات پلایا ہے۔ ہاں اردو کو چھوڑ دیجئے تو ان سے آپ کا پیچھا چھوٹ جائےگا۔ آپ ماضی سے اپنا رشتہ منقطع کرنے کے بعد کہاں رہ جائیں گے؟ آج کا ماحول اتنا تو نہیں بدلا کہ امیرؔ و داغؔ اس میں ناکارہ ثابت ہوں۔ ابھی تو ہم مرزا مظہر جانِ جاناں اور سوداؔ اور میرؔ کو بھی نہیں چھوڑ سکے۔
(مدیر ’نقوش‘ طفیل احمد کو لکھے گئے ایک خط سے)