Inquilab Logo Happiest Places to Work

اہل ِاُردو کو اِس کا احساس نہیں کہ وہ کیا کھو کر کیا پارہے ہیں !

Updated: April 20, 2025, 12:15 PM IST | Masud Husain Khan | Mumbai

مضمون نگار نے، جو مسلم یونیورسٹی میں سماجیات کے پروفیسر تھے، یہ مضمون اب سے کم و بیش پانچ چھ دہائی پہلے لکھا تھا۔ تب سے اب تک اُردو اور اہل اُردو کا حال مزید ابتر ہوا ہے۔

Urdu speakers lack intensity in their love for their language. Photo: INN.
اردو والوں کا اپنی زبان سے محبت میں شدت کا فقدان ہے۔ تصویر: آئی این این۔

اردو زبان تاریخ کے ایک سَیل کی رَو میں پیدا ہوئی، آج یہ سیاست کی زد میں آکر اپنے وجود پر پیچ و تاب کھا رہی ہے۔ ایک طرف اس کے بارے میں خوش فہمیاں ہیں جن کے سبب ہم اس کی صورتِ حال کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر ہیں، دوسری جانب اغیار میں اس کے سلسلے میں کچھ ایسی غلط فہمیاں پھیل گئی ہیں اور اس کو اس قدر خطرناک مجرم قرار دے دیا گیا ہے کہ سیاسی اختلافات رکھنے والی پارٹیاں بھی اس کی مخالفت میں ایک ہوجاتی ہیں۔ پہلے اپنی خوش فہمیوں سے بحث کرلی جائے۔ 
اردو والے اب تک اسے ایک ہمہ گیر زبان سمجھتے ہیں اور ۱۹۴۷ء سے قبل کی زبان میں اسے ایک کل ہند حقیقت تسلیم کرانے پر اصرار کرتے ہیں جب کہ ہندوستان کا ایک ضلع بھی ایسا نہیں جہاں اس کو مادری زبان لکھوانے والے اکثریت میں ہوں۔ یہ ضرور ہے کہ یہ ہندوستان کی چھٹی بڑی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی مجموعی تعداد دو کروڑ ۹۶؍ لاکھ (تب جب یہ مضمون لکھا گیا تھا) سے اوپر ہے۔ یہ گجراتی، ملیالم، کنڑ، اڑیہ، پنجابی، اَسمیا اور کشمیری بولنے والوں سے زیادہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرمردم شماری میں اس سے متعلق دھاندلی ہوتی ہے اور اس کے بولنے والوں کے اندراج میں صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ 
اردو کے سلسلے میں ایک اور تاریخی حقیقت کا اظہار بھی یہاں بے مصرف نہیں ہوگا۔ مشترکہ زبان کی حیثیت سے اردو کا نقطۂ عروج ۱۹۰۰ء کے قریب ملتا ہے حالانکہ ہندی اردو جھگڑے کا آغاز ہنگامہ ٔ غدر کے فوراً بعد سے ہوگیا تھا جب سرسید جیسے محب وطن کو بنارس میں اِس سلسلے پر ۱۸۶۷ء میں پہلا دھکا لگا تھا۔ یہ بات حالیؔ کی زبان میں سنئے، کہتے ہیں : ’’چنانچہ ۱۸۶۷ء میں بنارس کے بعض سربرآوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری عدالتوں میں سے اردو زبان اور فارسی کے موقوف کرانے میں کوشش کی جائے اوربجائے اس کے بھاشا زبان جاری ہو جو دیوناگری میں لکھی جائے۔ سرسید کہتے تھے کہ یہ پہلا موقع تھا جب کہ مجھے یقین ہوگیا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ چلنا اور دونوں کو ملا کر سب کے لئے ساتھ ساتھ کوشش کرنا محال ہے۔ ‘‘
لیکن وہ غیرمسلم جو اُردو کے دائرہ میں داخل ہوچکے تھے ان کی اس سے محبت کسی طرح کم نہیں ہوئی۔ سرشارؔ، چکبست، پریم چند، سرتیج بہادر سپرو، پنڈت دتا تریہ کیفی ایسے بیسیوں نام ہیں۔ ان کے دم سے اردو کا خم باقی ہے۔ اسی دَور میں بیشتر غیرمسلموں نے اپنے لسانی دائرے بدلنا شروع کردیئے، انہیں جدید ہندی کے ارتقاء میں اپنی پراچین سبھیتا کا ایک نشان نظر آیا، اور یہ حقیقت بھی تھی۔ لہٰذا بیسیویں صدی میں اُردو کے حلقے سے ہندی کے حلقے میں داخل ہونے کا یہ عمل تیز تر ہوگیا۔ کانگریس نے گاندھی جی کی قیادت میں ’ہندوستانی‘ دونوں لکھاوٹوں کا پروگرام تیار کیا۔ ۱۹۲۵ء کے کانپور کے کانگریس سیشن میں اس مقصد کیلئے باقاعدہ قرارداد منظور کی گئی مگر پرشوتم داس ٹنڈن اور ان کی ہندی ساہتیہ سمیلن نے اس نکتہ پر ’پوجیہ‘ گاندھی جی کی بات تک نہیں مانی اور انہیں سمیلن سے استعفیٰ دینا پڑا۔ 
دراصل اہلِ اردو کی یہ کوتاہ نظری رہی کہ انہوں نے ابھرتی اور بڑھتی ہوئی ہندی کے مقام کو نہیں پہچانا اور اسی نسبت سے دبتی اور گھٹتی ہوئی اردو کا مقام ایک لسانی اقلیت کے طور پر متعین کرنے سے اغماز کرتے رہے۔ فلموں اور مشاعروں کے حوالوں سے وہ اردو کی برتری قائم رکھنے کی کوشش کرتے رہے اور اپنے تعلیمی اداروں میں اسے ایک علمی زبان بنانے سے غفلت برتی۔ مجھے یہ کہنے میں تردد نہیں ہے کہ علی گڑھ نے سرسید سے لے کر تاحال اُردو کے حق کو ادا نہیں کیا ہے۔ اس کے سربراہوں نے اردو کی لڑائی کالج کی چہاردیواری کے باہر تو لڑی اپنے صحن میں نہیں۔ یہی حال جامعہ ملیہ کا ہے جو ایک اردو اساس ادارہ کے بطور وجود میں آئی اور رفتہ رفتہ اپنا اصل کردار کھوتی گئی۔ 
یہیں سے یہ تکلیف دہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اردو، اہل اردو کے لئے ایک ’قدر‘ کا حکم رکھتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو خاص طور پر ہماراتعلیم یافتہ اور متوسط طبقہ اپنے بچوں کی تعلیم میں اس کی جانب سے اغماز کیوں کررہا ہے؟ غیرمسلموں کے ذہنی رویے کو تو سمجھا جاسکتا ہے۔ اردو کے ایک غیرمسلم معروف پروفیسر نے ایک بار بڑی صفائی سے کہا تھا کہ اردو میری پیشہ کی زبان ہے تہذیبی زبان نہیں، حالانکہ غیرمسلم حضرات میں معدودے چند ایسے حضرات بھی ہیں جن کے رگ و پے میں اردو اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے جس طرح کسی اردو کو چاہنے والے مسلمان میں۔ میں آنند نرائن ملّا کا وہ بیان کبھی نہیں بھول سکتا جو انہوں نے اردو کانفرنس میں آزادی ملنے کے فوراً بعد دیا تھا: ’’میں اپنا مذہب چھوڑ سکتا ہوں، اپنی مادری زبان نہیں چھوڑ سکتا۔ ‘‘ کیا کوئی مسلمان اُردو کے عشق میں یہاں تک جاسکتا ہے؟ حالانکہ اردو کا خُلقہ (ایتھوزEthos ) بیشتر اسلامی ہے اور آزادی کے بعد مذہب کی طرح یہ اسلامی تشخص کی سب سے بڑی علامت بنتی جارہی ہے لیکن ہمارے قائدین ملت اس نکتے سے تاحال بے خبر ہیں، وہ فروعات کو اصل اسلام سمجھتے ہیں، ان کے لئے بڑی بڑی تحریکیں چلاتے ہیں لیکن اردو زبان کے سلسلے میں نہ کوئی جلوس نکالتے ہیں اور نہ دھرنا دینے کے قائل ہیں۔ 
اردو کی لڑائی ہمیں دو محاذوں پر لڑنی ہوگی۔ سیاست کے میدان میں اور اپنے گھر آنگن میں۔ میں گھر کے آنگن کی لڑائی کو بنیادی سمجھتا ہوں۔ اس لئے کہ کسی بھی تہذیب کی اساس میں زبان کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ عربی کے بغیر اسلام کا، سنسکرت کے بغیر ہندودھرم کا اور عبرانی کے بغیر اسرائیلیت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ بیشتر قومیتوں کی بنیادیں زبان پر قائم ہیں۔ زبان کھوکر کوئی جماعت اپنے خُلقیہ کو قائم نہیں رکھ سکتی۔ 
اگر اردو والوں کا اعتقاد ایک بار اپنی زبان پر راسخ ہوجائے اور وہ اسے اپنے تشخص کیلئے ایک لازمی عنصر گرداننے لگیں تو اس کے تحفظ و بقا کے کئی پروگراموں پر عمل کیا جاسکتا ہے، مثلاً: 
(۱) اردو کے آئینی حق کو تسلیم کرانے کے لئے ریاست بہار کے انداز پر اُترپردیش اور دیگر ریاستوں میں جہاں اردو بولنے والے کافی تعداد میں موجود ہیں اُس ریاست کی زبان کے ایکٹ میں ترمیم کراکے اردو کا ثانوی حیثیت سے اس میں شمول کرانا۔ اس راہ میں سنگ ِ گراں حائل ہیں البتہ اس کے لئے ہمیں ہر سیاسی جماعت کے روشن خیال طبقے کا تعاون حاصل کرنا ہوگا۔ 
(۲) اردو کے تعلیمی نظام کی ازسرنو تشکیل کی ضرورت۔ یوپی میں مسلم یونیورسٹی کے تین اسکولوں کو چھوڑ کر ایک بھی اردو میڈیم کا ہائی اسکول باقی نہیں رہا۔ متوسط طبقے کے بچے یا تو انگریزی اسکولوں کا رخ کرتے ہیں یا جن کے والدین ان کے اخراجات کے کفیل نہیں ہوسکتے وہ سرکاری ہندی میڈیم کے اسکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ اس کے برعکس ریاست بہار، آندھرا اَور مہاراشٹر میں بڑی تعداد میں اردو اسکول کامیابی کے ساتھ سرکاری امداد سے چل رہے ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ہمارے مکتبوں میں دینی تعلیم کے رہنماؤں کی بدولت اردو کے ذریعہ سے تعلیم دی جاری ہے لیکن ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا تعلق بالعموم نچلے اور نادار طبقے سے ہے۔ یہ بچے جب ثانوی اسکول کے درجوں میں آکر اپنا ذریعۂ تعلیم بدلتے ہیں تو درجے میں پھسڈی رہ جاتے ہیں۔ اس لئے ہمیں اردو ذریعہ ٔ تعلیم کی ازسرنوتشکیل کی سخت ضرورت ہے۔ 
(۳) دراصل ہم جب بھی ذریعہ ٔ تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں تو روزی روٹی کمانے کے لئے سرکاری ملازمتوں کو پیش نظر رکھتے ہیں لیکن یہ بات اعداد و شمار سے ثابت کی جاسکتی ہے کہ سرکاری ملازمتیں بیس فیصدی سے بھی کم روزی روٹی کا بندوبست کرتی ہیں۔ اردو والوں کے سلسلے میں تو تین چار فیصد سے بھی کم، لہٰذا کمائی کا وسیلہ دراصل دیگر پیشے ہیں جن کیلئے مادری زبان کے ذریعے دی ہوئی تعلیم سے بخوبی کام چل سکتا ہے، البتہ اس تعلیم کو جدید انداز کی ہونا چاہئے، دینی کے ساتھ دنیوی بھی۔ 
(۴) اردو ذریعہ تعلیم کے نظام میں ہمیں دوسری ملکی اور غیرملکی زبانوں کی تعلیم کا مناسب بندوبست کرنا ہوگا۔ انگریزی کا وہ مقائم قائم نہیں رہ سکتا جو اب تک رہا ہے۔ ہندی زندگی کے ہر شعبے میں رابطے کی زبان کی حیثیت سے انگریزی کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اردو والوں کیلئے دونوں کا اپنا اپنا مقام ہوگا جو ان کی عملی ضروریات کے پیش نظر متعین کرانا ہوگا۔ غیرہندی کے علاقے کے اردو والوں کو وہاں کی علاقائی زبان (تمل، تلگو، مراٹھی وغیرہ) بھی سیکھنا ہوگی۔ 
(۵) میرے لئے اس کا تصور بھی ناممکن ہے کہ روزی روٹی کے نام پر یا سرکاری ملازمتوں کے لالچ میں کوئی گروہ اپنی نئی نسل کو اپنے لسانی ورثے اور ترکے سے محروم کردے۔ میں اسے اخلاقی دیوالیہ پن کہوں گا۔ ہر جماعت کی زبان اس کے تشخص اور شناخت کا مرکزی نقطہ ہوتی ہے۔ یہ بعض اوقات عقائد سے بھی زیادہ مؤثر اور قوی تر بن جاتی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے بنگلہ دیش کی مثال ہے۔ 
یہ اردو والوں کی بدقسمتی ہے کہ اپنی زبان کیلئے وہ اس شدت سے محسوس نہیں کرتے۔ ہندی ریاستوں میں اُن کا تعلیمی نظام برباد کردیا گیا ہے۔ اردوبولنے والے بچوں کو ان کی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم تک دینے کی سہولت نہیں دی جاتی جو دستورِ ہند کی ہدایات اور دفعات کے عین منافی ہے۔ اگر ہم لب کشا ہوتے ہیں تو ہماری حب الوطنی اور وفاداری کو مشتبہ قرار دیا جاتا ہے۔ الیکشن کے موسم میں وعدے کئے جاتے ہیں وہ ایفا نہیں کئے جاتے اور ہماری توجہ بنیادی مسائل سے ہٹا دی جاتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK