Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ہمیں نئی ادبی تخلیقات کو محض کم حقیقت سمجھ کر نظرانداز نہیں کردینا چاہئے

Updated: March 09, 2025, 12:19 PM IST | Mujtaba Hussain | Mumbai

یہ کچھ عجیب سی بات ہوگی کہ زمانہ بدلتا رہے اور ادبی مذاق میں کوئی تغیر نہ ہو۔ یہ ادب کے تخلیقی ارتقا کو جھٹلانا ہوگا اور خود اپنی بدمذاقی اور ادب ناشناسی کی دلیل ہوگی۔

Only by encouraging new writers can the path for new writers be paved. Photo: INN.
نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے ذریعے ہی نئے ادیبوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ تصویر:آئی این این۔

کیا آپ نے موجودہ دور کی ادبی تخلیقات کو پڑھتے ہوئے کبھی محسوس کیا ہے کہ ہمارے ادب میں بحیثیت ِ مجموعی پہلی جیسی جاذبیت، اثرانگیزی اور بلند نگہی نہیں رہ گئی ہے اور ہم موجودہ ادب کو خصوصاً نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کو اس طرح ٹوٹ کر نہیں پڑھتے جیسے پہلے پڑھا کرتے تھے؟ پہلے کوئی نیا افسانہ، نظم یا غزل چھپ جاتی تھی تو ہم گھنٹوں اس پر بحث کیا کرتے، اس کو پڑھ کرایک دوسرے کو سناتے اور نئے رسالوں کے اشتیاق میں سرگرداں رہتے تھے۔ مگر اب وہ بات نہیں رہ گئی ہے۔ اسکی وجہ کیا ہے؟ یا تو یہ ہے کہ ہمارے نئے لکھنے والوں کی تخلیقات میں واقعی وہ بات نہیں ملتی جو پہلے پائی جاتی تھی یا پھر خود ہمارا مذاق ادب ایک منزل پر آکر رُک گیا ہے اور ہم موجودہ افسانوں، غزلوں، نظموں اور دیگر تخلیقات سے متاثر ہونے اور لطف لینے کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ 
یہ دونوں سوال ایسے ہیں جن پر غیرجانب داری سے بحث کرنا بہت مشکل ہے۔ ادب کے معاملے میں ہمارا ذوق ہمیں یہ باور کرانے پر ہمیشہ مصر رہتا ہے کہ ہماری رائے مستند اور معتبر ہے، ہم ادیبوں اور ادب کا غلط اندازہ لگا ہی نہیں سکتے اور جب ہم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہیں تو یقیناً وہ چیز ناپسند کرنے کے لائق ہوگی۔ اس میں لازماً خرابیاں ہوں گی اور ہم صرف ناپسندیدگی کے اظہار ہی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے اسباب اور دلائل بھی تلاش کرلیتے ہیں۔ ان میں بعض دلائل اور اسباب صحیح بھی ہوسکتے ہیں۔ بڑے سے بڑے ادیب کی تخلیقات کے بارے میں اختلافات کی گنجائش نکل سکتی ہے اور نکلتی رہی ہے۔ 
ادب کی بلندی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے سلسلے میں ہرشخص کواظہار رائے کی اجازت دے دیتا ہے۔ صرف شرط یہ رکھتا ہے کہ یہ رائے پڑھے لکھے آدمی کی ہو جو ادب سے واقعی دلچسپی رکھتا ہو۔ ادب نے اپنی وسعت قلبی سے کام لے کر ادبی تنقید کوجنم دیا۔ یہ اس کا کارنامہ ہے۔ دنیا کے کسی بھی علمی اور فنی شعبے میں تنقیدی مضامین شاید اتنی کثرت سے نہ ملیں گے جتنی کثرت سے ادب کے شعبے میں ملتے ہیں، ادب کو ہماری تہذیب کا سب سے بڑا مظہر بنانے کی ایک وجہ غالباً یہ بھی رہی ہے۔ ادب میں فکری اختلافات کو ہمیشہ فال نیک سمجھا گیا۔ یہ اس کو کمزور کرنے کے بجائے تنومند اور بالغ نظر بناتے رہے۔ ادب کی اسی وسعت، لچک اور بلند ظرفی سے فائدہ اٹھاکر ہم ادب کے بعض مسلمہ اصول اور قوانین سے بھی انحراف کربیٹھتے ہیں۔ اسی لئے جب اپنے مذاق کو حق بجانب کہنے کا سوال اٹھتا ہے تو ہم دلائل کے ساتھ آسانی سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ لکھنے والوں کی تحریر وں میں کوئی قابل ذکر بات نہیں رہ گئی ہے۔ ان دلائل کو توجہ سے بہرحال سننے کی ضرورت ہے۔ ہماری ادبی تربیت کا ایک اہم تقاضہ یہ بھی ہے۔ ہم اِن دلائل کو صرف اتنا کہہ کر نہیں ٹال سکتے کہ یہ محض اپنے ذوق کی ’’پچ‘‘ میں پیش کئے گئے ہیں اور ان میں خودپسندی اور انانیت سے کام لیا گیا ہے۔ ہمیں ہرشخص کو خواہ وہ ادب کا طالب علم ہو یا ادیب اس بات کی تھوڑی سی اجازت دینا ہوگی کہ وہ اپنے ذوق پر بھروسہ کرسکے اور اس کی ’’پچ‘‘ کرسکے۔ اس حسن ظن یا ’خودپسندی‘ کے بغیر کوئی بھی شخص ادب سے نہ لطف لے سکتا ہے نہ اسے سمجھ سکتا ہے۔ یہی جذبہ قاری یا ادیب میں ادب سے گہری اور خصوصی وابستگی پیدا کرتا ہے۔ ورنہ یوں امتحان پاس کرنے کے لئے سب ہی تھوڑا بہت ادب کا مطالعہ کرلیتے ہیں۔ ادب کا ایک بڑا کام یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دلچسپی لینے والے میں اس ضروری خوداعتمادی کو پیدا کردیتا ہے جس سے کسب زر کا نظام اُسے اکثر و بیشتر محروم کئے رہتا ہے۔ زندہ رہنے کی توانائی اور زندگی سے لطف لینے کی صلاحیت اسی ادبی خوداعتمادی اور اپنے مذاق پر اعتبار کرنے کی عادت کی عطا کردہ ہوتی ہے۔ ادب کے بارے میں کوئی بھی ایسی رائے قائم نہیں کی جاسکتی جو ذاتی ذوق اور پسند کی یکسر نقیض ہو کیونکہ ایسی صورت میں اس کے ایک ہی معنی ہوتے ہیں کہ ایسا شخص ادب پر سرے سے کوئی رائے نہیں رکھتا۔ اسی لئے ہم موجودہ ادب اور نئے لکھنے والوں کی تخلیقات کی خوبیوں سے انکار صرف دو ہی طرح کرسکتے ہیں یا تو سوچ سمجھ کر جس میں ذاتی ذوق کی پاسداری یقیناً شامل ہوتی ہے یا پھر بغیرسوچے سمجھے اور صرف اپنے ذوق کی پاسداری میں۔ پہلی صورت میں نئے لکھنے والوں کی تحریروں کے بارے میں جن خیالات کااظہار ہوسکتا ہے اس کی طرف توجہ ضروری ہے البتہ دوسری صورت میں جن خیالات سے ہمیں سابقہ پڑسکتا ہے اس پر غصہ نہیں بلکہ درگزر کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف نئے لکھنے والوں یا ان کو پسند کرنے والوں کی جانب سے اسی شدومد سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کا ذوق ناقص ہے اور آپ کی رائے جلدبازی اور حقیقت ناشناسی پر مبنی ہے۔ اچھا اور برا ادب آج بھی پیش کیا جارہا ہے۔ بات صرف اتنی ہوئی ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اور آپ نہیں بدلے۔ جدیدترین افسانوں، نظموں اور غزلوں میں زندگی کے جدید ترین پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے اور انہیں پسند کرنے کے لئے آدمی میں اتنی دیانت ضرور ہونی چاہئے کہ وہ اپنی پسند ہی کو سب کچھ نہ سمجھ بیٹھے اور دوسروں کو اس کا حق دے کہ وہ اپنی پسند سے بے نیاز ہوکر بھی اچھی چیزوں کے لکھنے کی صلاحیت رکھ سکتے ہیں۔ ساری خوش مذاقی صرف ایک شخص یا چند اشخاص پر ختم نہیں ہوگئی ہے۔ یہ خوش مذاقی اُن بے شمار لکھنے والوں میں پائی جاتی ہے جو آج پرانے لکھنے والوں کے مقابلے میں زیادہ لکھ رہے ہیں اور اگر ان سے اچھا نہیں لکھ رہے ہیں تو اُن سے بُرا بھی نہیں لکھ رہے ہیں۔ اگر نئے لکھنے والوں میں برائی یہی ہے کہ وہ پرانے لکھنے والوں کے جیسا نہیں لکھ رہے ہیں تو یہ ایک لحاظ سے نئے لکھنے والوں کی انفرادیت کا اعتراف ہے۔ وہ بدلے ہوئے حالات میں جب دنیا آئے دن فکرو نظر کی نئی راہوں سے گزر رہی ہے پرانی چیزیں لکھ ہی نہیں سکتے۔ وہ تو وہی لکھیں گے جو آج لکھا جاسکتا ہے اور جو کل نہیں لکھا جاسکتا تھا۔ نئے لکھنے والوں کایہ جواب اپنی جگہ بہت مسکت (چپ کرانے والا)ہے۔ واقعی یہ کچھ عجیب سی بات ہوگی کہ زمانہ بدلتا رہے اور ادبی مذاق میں کوئی تغیر نہ ہو۔ یہ ادب کے تخلیقی ارتقا کو جھٹلانا ہوگا اور خود اپنی بدمذاقی اور ادب ناشناسی کی دلیل ہوگی۔ اسی لئے ہمیں نئی ادبی تخلیقات کو محض کم حقیقت اور غیروقیع سمجھ کر نظرانداز نہیں کردینا چاہئے بلکہ پوری توجہ اور ذہنی آمادگی کے ساتھ اُن کے مطالعے سے اپنے ذوق کو برابر تازہ اور ادبی مطالعے کو وسیع تر کرتے رہنا چاہئے۔ ادب کے طالبعلم، ناقد یا خود ادیب کے حق میں ’’غنودگی‘‘ کبھی سودمند ثابت نہیں ہوئی۔ ادبی دلچسپی مستقل بیداری کا تقاضہ کرتی ہے۔ 
ممکن ہے کہ نئے لکھنے والوں کی حمایت میں اٹھنے وا لی یہ آواز ضرورت سے زیادہ پرجوش ہو اور اس میں بھی اپنے ذوق اور اپنے عہد کی ’’پچ‘‘ کرنے والا جذبہ پایا جاتا ہو لیکن اس کے معنی یہ کبھی نہیں ہوتے کہ ہم ’’ادبی اشتعال انگیزی‘‘ کا شکار ہوکر تمام نئی تحریروں کو سطحی اور بے معنی قرار دے دیں۔ ادب کا ذوق اتنا ذاتی بھی نہیں ہوتا کہ صرف ذاتیات میں الجھ کر رہ جائے۔ 
(طویل مضمون’’نئی اور پرانی نسل‘‘ سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK