Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

اَدیب کو حقیقت کا علم دُنیا دیکھ کر نہیں ہو سکتا

Updated: March 23, 2025, 12:54 PM IST | Mohammad Mujeeb | Mumbai

اس کیلئے خلوص، سچائی، دیانت اور ہمت ضروری ہے مگر کافی نہیں۔ انسانی سیرت کا علم بھی خواہ وہ کتنا ہی گہرا اور مکمل کیوں نہ ہو، ادیب کیلئے کافی نہیں۔

The nature of the writer, which has a special ability to understand and examine human nature, recognizes lies and hypocrisy from afar. Photo: INN.
ادیب کی طبیعت جو انسانی فطرت کو سمجھنے اور پرکھنے کی خاص صلاحیت رکھتی ہے، جھوٹ اور ریاکاری کو دور سے پہچان لیتی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

زبان اور ادب جماعت کی ملک ہے افراد کی نہیں۔ افراد کو ان کے حسب مقدور اس کا ایک حصہ امانت کے طور ملتا ہے اور اسے وہ چاہیں تو ضائع بھی کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ضائع کرنا نہیں چاہتے اور اسے اپنا خاص حق ٹھہراکر جماعت کے عام خزانے سے الگ رکھنا نہیں چاہتے تو انہیں وہ تمام شرطیں اور پابندیاں قبول کرنا ہوں گی جو جماعت کے کاموں کو جاری رکھنے اور ترقی دینے کیلئے ضروری ہوتی ہیں۔ انہیں زبان کواس طرح سیکھنا ہوگا جیسے کسی فن کو سیکھتے ہیں۔ غلط اور صحیح میں اسی طرح فرق اور غلطی سے بچنے کی فکر اسی طرح کرنی ہوگی جیسے نازک آلات بنانے والے کرتے ہیں۔ انہیں ان نمونوں کو جنہیں زبان جاننے والے معیاری مانتے ہیں، اسی طرح ذہن نشین کرنا ہوگا جیسے کسی علم یا فن کے بنیادی اصول ذہن نشین کئے جاتے ہیں اور اپنے ہر کام کو اس سختی سے جانچنا ہوگا جو بےمروت ممتحن کا حصہ مانی جاتی ہے۔ 
ریاضت کا یہ سلسلہ تکمیل کو پہنچ جائے تب سمجھنا چاہئے کہ شخصیت ظاہر کرنے کا موقع آتا ہے، لیکن یہ شخصیت جواب ظاہر ہوگی فن کو مٹاکر نہیں، اپنے آپ کو مٹاکر بنی ہوگی۔ اسے اپنی صلاحیتوں کا صحیح اندازہ ہوگا۔ وہ ایسے ہی کام اٹھائے گی جنہیں انجام دے کر وہ فن کی عزت بڑھاسکے۔ اسے ناکام اورگمنام رہناگوارا ہوگا مگر وہ اپنی کسی گستاخی سے فن کو بے آبرو نہ کرےگی۔ ایسی شخصیت اپنے مقصد کے بارے میں سوال نہیں کرتی اور دوسرے اسکا مقصدمعلوم کرنا چاہیں تو جواب نہیں دیتی۔ اسے اپنے کام سے مطلب ہوتا ہے اور اس کو بہتر سے بہتر انجام دینے سے۔ اس کا مقصد تھا کہ اپنی خا ص استعداد کا پتہ چلا لے اور استعداد کے مناسب کام کو سیکھ لے۔ یہ سب منشا ہو گیا تو پھر مقصد کا سوال نہیں رہتا، بس استعداد دکھانے اورفن کی خدمت کرنے کی آرزو ہوتی ہے۔ 
ہمارے ادیبوں کی تربیت اس نہج پر ہو تو بہت سی پیچیدگیاں، جو اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ ادیب اپنے آپ کو فن سے برتر سمجھتے ہیں اور اپنا ہر کام دل میں یہ ٹھان کر کرتے ہیں کہ وہ جماعت اور فن پر ایک احسان کر رہے ہیں، دور ہو جائیں گی۔ یہ مقصد کی بحث بھی جو فطرت اور تہذیب کے خلاف باتیں کرایا کرتی ہے، ختم ہو جائےگی اور ادیب صیح معنوں میں آزاد ہو جائے گا۔ مگر ٹھہریے ہم کو ایک اوچھے فلسفے نے اس غلط فہمی میں ڈال دیا ہے کہ آزادی ایک اثباتی چیز نہیں ہے، رکاوٹوں کے موجود نہ ہونے کا دوسرا نام ہے۔ اس کا تعلق سیاست اور قانون سے ہے، انسانیت اور تہذیب سے نہیں۔ اب میں آپ سے یہ کیسے کہوں کہ آزاد وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے تعلیم کی ساری پابندیاں قبول کی ہوں، اپنی خاص استعداد کا صحیح اندازہ کر لیا ہو، جسے ایسی تربیت دی گئی ہو کہ وہ اپنی استعداد سے پورا کام لے سکے، جس کی جماعت اس کی قدر کرے اور جو فن کو ترقی دینا، جماعت کی خدمت کرنا اپنا منصب جانے۔ میرے ذہن میں آزاد ادیب کا جو تصور ہے وہ ایسے شخص کا ہے جسے اپنی زبان میں پورا ملکہ ہو، جو اپنے فن کے امکانات سے واقف ہو اور اس سے ایسے کام لینے کا خیال ہی نہ کرے جس کے لئے وہ موزوں نہیں۔ ایسا ادیب کبھی کبھی اپنا اور دوسروں کا جی بہلائےگا، اگر اسے جی بہلانا آتا ہے۔ اپنے کام میں اپنی شخصیت کو ظاہر کرےگا اور جتنا نمایاں اس کا کام ہوگا اتنی ہی نمایاں اس کی شخصیت ہوگی۔ وہ کامل حسن کے دیدار کے لئے تڑپتا رہےگا اور یہ دیدار اسے نصیب ہوا تو وہ اس کے کام کو کامل حسن کا نمونہ بنا دےگا۔ ایسے ادیب کو حقیقت کی تلاش ہوگی اور وہ چاہےگا کہ اس کا ہر کام حق کی جستجو میں اسے ایک قدم آگے لے جائے۔ 
وہ یہ کبھی تصور ہی نہ کر سکےگا کہ انسانی زندگی معنی اور مقصد سے خالی ہو سکتی ہے۔ وہ ظاہری باتوں سے دھوکہ نہ کھائےگا۔ حقیقت نگاری کے بہانے سے حالات کی لاحاصل عکاسی نہ کرےگا اور رومانیت کو اپنا مقصد بتاکر جذبات کو آوارہ نہ چھوڑےگا۔ اسے اپنی خامیوں کا، اپنے علم کی کمی کا ایسا احساس ہوگا کہ وہ رہنما بننے کا حوصلہ نہ کرے گا، مگر اسے اپنے اوپر اتنا قابو ہوگا کہ خالی اور کمی کا احساس فاسد مادہ بن کر اس کی طبیعت میں بگاڑ نہ پیدا کر سکےگا۔ اس کے دل میں فن کی عزت ہوگی اور اس جماعت سے محبت ہوگی جس کی گود میں اس فن نے پرورش پائی ہے۔ جماعت کی دنیا اس کی دنیا ہوگی اور وہ جانتا ہوگا کہ اس دنیا سے الگ اور باہر اس کا وجود محض فرضی ہے۔ جماعت کا دین اس کا دین ہوگا اور وہ جانتا ہوگا کہ جس نے اس دین کو چھوڑا، وہ اگر پیغمبر نہ ہوا تو شیطان بن جائےگا۔ 
ادیب کو حقیقت کا علم دنیا دیکھ کر نہیں ہو سکتا اور اس کی نظر دنیا ہی پر نہ ہونا چاہئے۔ اس کے لئے خلوص، سچائی، دیانت، ہمت ضروری ہے مگر کافی نہیں۔ انسانی سیرت کا علم بھی خواہ وہ کتنا ہی گہرا اور مکمل کیوں نہ ہو، ادیب کے لئے کافی نہیں۔ اس لئے کہ انسان کی قدر معین اور معلوم نہیں۔ اس کی شخصیت ایک حالت پر قائم نہیں رہتی اور ادیب کی نظر میں صرف کسی ایک وقت کی کیفیت ہوئی تو اس کے تصورات اور اس کے سارے کام ناقص رہیں گے، اوپر کی تسلی اس کے فن اور اس کی شخصیت کی تکمیل کے لئے لازمی ہے کہ جس طرح اس نے اپنی جماعت کی زبان کو اور اس کے ادب کو قبول کیا ہے اسی طرح وہ اپنی جماعت کے عقائد کو قبول کرے اور اسے یقین ہوکہ ان عقائد پر جیسا کہ چاہئے عمل کیا گیا تو انسانی زندگی کے ابدی مقاصد حاصل ہو جائیں گے۔ 
ادیب کی طبیعت جو انسانی فطرت کو سمجھنے اور پرکھنے کی خاص صلاحیت رکھتی ہے، جھوٹ اور ریاکاری کو دور سے پہچان لیتی ہے۔ جذبات کی کشمکش جو بےشمار کیفیتیں پیدا کرتی ہے، انہیں محسوس کرتی ہے اور بیان کر سکتی ہے، کبھی اسے گوارانہ کرےگی کہ وہ ایسے عقائد کو زبان سے صحیح کہے جنہیں وہ دل میں غلط سمجھتا ہو، اس لئے وہ اپنی جماعت کی اور اپنے عقائد کی اس طریقے پر جانچ کرےگا جو اسے آتا ہے اور جماعت پر یہ واضح کرےگا کہ وہ اپنے اصل نمونے سے کس قدر مختلف ہو گئی ہے لیکن آدھی بات کہنے سے بہتر ہے کہ کچھ نہ کہا جائے۔ آدھے راستے تک لے جاکر چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ رہنمائی کا دعویٰ نہ کیا جائے۔ ایسا ادیب اچھا ہو سکتا ہے جو زندگی کا دلچسپ پہلو دیکھے اور دکھائے، مایوسی اور رنج کو ہنساکر یا جی بہلاکر دور کرے، لیکن اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس میں بس اسی کی صلاحیت ہے۔ ایسا ادیب بھی اچھا ہو سکتا ہے جو زندگی کے طریقے کا مانے ہوئے اخلاقی اصولوں سے مقابلہ کرے اور اپنی جماعت کا علم عام کرکے طبیعتوں میں گہرائی، تخیل میں وسعت اور برتاؤ میں رواداری پیدا کر سکتا ہے۔ مگر یہیں سے اس کی دشواریاں بھی شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے لئے خالی اصول معیار کا کام نہیں دے سکتے۔ وہ منطقی یافلسفی نہیں ہوتا۔ جیسے مصور رنگوں اور سنگ تراش پتھر کے بغیر معذور ہو جاتا ہے، ادیب بھی عقیدے اور اصول کو سمجھ نہیں سکتا جب کہ وہ ان جیتی جاگتی ہستیوں میں مشکل نہ ہو جو اس کی نظر اور دل میں سمائی رہتی ہیں۔ سچا ادیب اس منزل پرپہنچ کر بیٹھ نہیں جاتا اور واپسی کا ارادہ نہیں کرتا۔ جیسے زبان کو سیکھتے وقت اس نے ان صفات کو جم کر مان لیا تھا جو خود اس میں موجود نہ تھیں اور پھر آہستہ آہستہ انہیں اپنے اندر پیدا کیا تھا، ویسے ہی اس مقام پر وہ اس تعلیم کو جو وجدانی یا الہامی علم کی بنا پر دی جاتی ہے، صحیح مان کر اپنے فن کو اس کا رازداں اور حامل بناتا ہے۔ 
(طویل مضمون ’ادب اور ادیب کا مقصد‘ کا ایک حصہ)
(مورخ، معلم اور دانشور محمد مجیب ۱۹۴۸ء سے ۱۹۷۲ء تک جامعہ کے ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر تھے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK