فراق، قرۃ العین حیدر، سردار جعفری اور پھر شہریار کے بعد گلزار پانچویں اُردو ادیب و شاعر ہیں جنہیں ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ’گیان پیٹھ‘ کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ اس اعزاز کے پیش نظر یہ مضمون:
EPAPER
Updated: February 25, 2024, 12:55 PM IST | Astuti Agarwal | Mumbai
فراق، قرۃ العین حیدر، سردار جعفری اور پھر شہریار کے بعد گلزار پانچویں اُردو ادیب و شاعر ہیں جنہیں ملک کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ’گیان پیٹھ‘ کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ اس اعزاز کے پیش نظر یہ مضمون:
گلزار بر صغیرہند میں واحد ایسے تخلیق کار ہیں، جنہوں نے ہندی اور اردو کے درمیان کی تفریق کو مٹا دیا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی یعنی عام بات چیت کی بھاشا کو اپنی شاعری کی زبان بنایا۔ وہ ایسے شاعر ہیں جو ہمیشہ پڑھے جائیں گے، اُن کی فلمیں نسلیں دیکھیں گی۔ اُن کی کاوشات پر تحقیق جاری رہے گی۔ ہندوستانی زبان میں جب بھی بات لطیف انداز سے کہی جائے گی، گلزار صاحب کا نام ایک ’مثال‘کے طور پر لیا جائے گا۔ عمر کی نویں دہائی میں بھی وہ اپنی شاعری سے سولہ،اٹھارہ سال کا وہ لڑکا جو محبت کی گرفت میں ہے اور تجربہ کار بزرگ، دونوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ایک جملے میں اُن کے متعلق کہا جائے تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ سادگی اور پُر از تحمل شخصیت۔
ہر بار نئے نظرآتے ہیں گلزار
ایک عظیم فنکار کی طاقت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بنائے گئے ڈھانچوں کو خود ہی منہدم کرتا ہے۔ جو تخلیق کار وقت کی کسوٹی پر کھرا نہ اترے اور نسلِ نو سے وابستگی نہ محسوس کرے، وہ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتا۔ گلزار صاحب اپنے گزشتہ دور میں لکھتے ہیں’گنگا آئے کہاں سے، گنگا جائے کہاں رے‘ دوسری طرف وہ لکھتے ہیں کہ’دل تو بچہ ہے جی، تھوڑا کچا ہے جی‘،’گولی مار بھیجے میں، بھیجا شور کرتا ہے‘،’ چڈھی پہن کے پھول کھلا ہے‘ وغیرہ۔ وہ حال سے تعلق استوار رکھے ہوئے ہیں۔ زمانے کی نبض کو تھامے ہوئے ہیں۔ وہ اِس بات کا رونا نہیں روتے کہ پرانا زمانہ اچھا تھا، نیا زمانہ خراب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار نئے نظر آتے ہیں۔ وہ بچوں کی نفسیات پر لکھتے ہیں کہ ’لکڑی کی کاٹھی، کاٹھی پہ گھوڑا‘ وہ رومانوی گیت لکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ’آپ کی آنکھوں میں کچھ مہکے ہوئے سے راز ہیں‘۔ اسی لئے بعض اوقات یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ایک گلزار میں کتنے گلزار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گلزار ہرفن مولیٰ ہیں۔
گلزار کا چاند
چاند کو موضوع بناکر بہت سی باتیں کہی گئی ہیں۔ اردو شاعری میں تو چاند کو محبوب کی علامت قرار دے کر بات کہنے کی پرانی روایت ہے۔ لیکن گلزار صاحب نے تو چاند کو روٹی تک بنا دیا، چاند کو کھلونابنا دیا،چاند کو نائو اور چاند کو دوست بنا دیا۔ چاند اُن کی رہگزر ہے،اُن کا ہمسایہ ہے جو ہمیشہ اُن کے ساتھ چلتا رہا ہے۔ چاند اُن کے لئے ایک بھروسا ہے۔ چاند اُن کے ساتھ لڑنےجھگڑنے والا ساتھی ہے۔ گلزار صاحب نے اپنی ماں کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ کم عمری میں ہی ان کی ماں نہیں رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ چاند میں اپنی ماں کے چہرے کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔چاند کے ساتھ ان کا ایک ممتا کا رشتہ ہے۔
زندگی کے سوالات سے جو‘جھتے گلزار
گلزار صاحب واحد ایسے گیت کار ہیں جنہوںنے فلمی گیت اور اسکرپٹ لکھتے ہوئے زندگی میں آنے والی پریشانیوں اور مدنیت کے سوال سے جوجھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے تقسیم ِ ہند کا منظر دیکھا ہے۔ وہ سات آٹھ سال کے تھے، تب اپنے والد کے ساتھ پاکستان کے دینہ سے دلّی میں آکر آباد ہو گئے۔ اِس موضوع پر ان کی کئی کہانیاں ہیں مثلاً ’ایل او سی‘، ’جامن کا پیڑ‘،’کلدیپ نیر‘ اور ’پیر صاحب‘ جیسی کہانیاں۔ بے شمار قلمکار بٹوارے کے بعد سرحد پار کر کے اِدھر سے اُدھر گئے۔ اُن کی تخلیقات میں تقسیم کا خوفناک منظر اور تلخی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن گلزار صاحب کی تحریروں میں ایسا نہیں ہے۔اِس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد نے اُن کی اس طرح پرورش کی جس سے ان کے ذہن میں کوئی تلخی نہ لے سکی۔ اُس تلخی اور کڑواہٹ کو بھی انھوںنے محبت اور رواداری کا پیکر عطا کر دیا۔
اُن کی اداسی صرف اپنے لئے ہے
اُن کی شاعری،نظموں اور کہانیوں میں اداسی بہت ہے مگر وہ اداسی صرف ان کے اپنے لئے ہے۔ وہ دوسروں کو صرف خوشیاں بانٹتے ہیں۔ فلمی گیت لکھتے ہوئے بھی زندگی جینے کے تجربے سکھاتے ہیں۔ ان کا گیت ہے کہ ’اے زندگی گلے لگا لے، ہم نے تیرے ہر غم کو گلے سے لگایا، ہے نا!‘ اُن کی اپیل زندگی کو گلے لگانے کی ہے نہ کہ موت کو۔ اُن کا گیت ہے کہ ’میں نے تیرے لئے ہی سات رنگ کے سپنے چُنے۔‘گلزار دوسروں کے لئے ست رنگی سپنے چُننے والے شاعر ہیں۔ گلزار بہت پُر امید شخص ہیں۔ لکھنے کے علاوہ ڈائریکشن سمیت سنیما کی مختلف اصناف میں کام کیا ہےلیکن وہ خود کو صرف ’مصنف‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ مصنف کے وقار کے ساتھ جو شخص جینے کا حوصلہ دیتا ہے، وہ گلزار ہے۔
پاپولر ہونا کوئی گناہ ہے کیا؟
گلزار نے گیتوں میں جتنے تجربے کئے ہیں، شاید ہی کسی نے کئے ہوں۔ وہ کہتے ہیں،’ہم نے دیکھی ہے اِن آنکھوں کی مہکتی خوشبو‘جو منفرد ہے۔ اُس دور میں اِس پر تنقید بھی ہوئی لیکن جتنے بھی تجربے ہیں، گلزار نے اپنی شرائط پر انہیں منظور کیا۔ کوئی بھی ادیب جب لکھتا ہے تو وہ اپنے وقت، اپنے حالات اور اپنی لفظیات میں رد و بدل کر سکتا ہے۔ وہ اس لئے نہیں لکھتا کہ وہ مستند ہو یا اُسے کسی سے لوہا منوانا ہے۔ یہ عوام ہوتے ہیں جو اُس کے فن کے اصل پارکھ ہوتے ہیں اور کسی تخلیق کار کو دلوں میں جگہ دیتے ہیں۔ لوگ کئی بار گلزار صاحب کو یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ وہ پاپولر رائٹر ہیں۔ مَیں کہتا ہوں پاپولر ہونا کوئی گناہ نہیں ہے۔ مشہور وہی ہوگا جو زندگی کے ساتھ زمانے سے وابستہ ہوگا۔ جب ہم عوام سے ناطہ توڑ دیں گے تو اپنے دل کی بات نہیں کہہ پائیں گے۔
کتنے سلجھے ہوئے ہیں گلزار
گلزار صاحب عمر کے اُس پڑائو پر ہیں کہ انہیں زیادہ سے زیادہ آرام کی ضرورت ہےلیکن وہ کسی محفل میں ہوتے ہیں تو ان کے فینس انھیں گھیر لیتے ہیں اور وہ ہر فرد کا سلام قبول کئے بغیر نہیں ہٹتے، اُن کے ساتھ فوٹو کھنچواتے ہیں۔ ہر رشتے کے لئے اُن کے پاس جگہ ہے۔ اُن کی قابلِ ستائش بات یہ ہے کہ کوئی ان کے پاس چلا جائے تو اسے کمتری کا احساس ذرا نہیں کرواتے۔ یہی بات انھیں بڑا بناتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب اُن کے لئے آسکر ایوارڈ کا اعلان ہوا، تب میں ان کے ساتھ جے پور میں تھا۔ میں فوراً ہی اُن کے کمرے میں لپک کر گیا۔ میں نے پُر جوش انداز میں کہا، ’’سر، آپ کو آسکر ملا ہے۔‘‘ انہوں نے اظہارِ تشکر کیا مگر پھر بولے،’’دس منٹ میں کپڑے بدل کر ہم لوگ ملیں۔‘‘ آسکر ایوارڈ ملنے جیسی خبر پر بھی اُن کا ردِ عمل عامیانہ تھا۔ آج بھی مَیں نے انہیں گیان پیٹھ کی مبارکباد دی تو بہت خوش تھے لیکن معمول کے مطابق تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج بھی کوئی عام سا دن گزرا ہو۔
۵۰؍برس سے سفیدی کا مستقل ٹھکانہ
گلزار ست رنگی مَن کے تخلیق کار ہیں۔ ست رنگی قوس قزح سفیدی پر منعکس ہوتا ہے۔ تقریباً ۵۰ ؍ برس سے سفید لباس نے اُن کے جسم پر اپنا مستقل گھر بنا رکھا ہے۔ گر چہ انہوںنے سفیدی اوڑھ رکھی ہے لیکن وہ ست رنگی من کے مالک ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ زندگی کو سادگی سے دیکھنے کا یہی احساس انہیں سفید لباس پہننے کی ترغیب دیتا ہے۔