• Sun, 24 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

آتا ہے مجھ کو یاد

Updated: August 19, 2024, 11:50 AM IST | Shakeel Ejaz | Mumbai

اسکول کے چپہ چپہ پر خوب اچھی طرح جھاڑو لگائی جاتی۔ جھاڑو لگانے والے ہر شخص کے سر پر ایک ٹیچر سوار ہوتا، ’’اس کونے کا کچرا نکالو یہ پتھر اٹھا کر دور پھینکو۔ ‘‘پھریرے تیار کر کے آویزاں کئے جاتے۔ دو لڑکےڈوری پکڑتے اور ایک لڑکا چونا پائوڈر سے بھری بالٹی سے چونا نکال نکال کر اس ڈور کے مطابق لائن بناتا چلا جاتا۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

پندرہ اگست، چھبیس جنوری، ان قومی تہواروں کی تیاریاں ایک دن پہلے شروع ہو جاتی تھیں۔ کسی کو اسکول یونیفارم دھوبی کے ہاتھ سے دُھل کر اور استری ہو کر تیار مل جاتے، کسی کا یونیفارم امی دھوتیں اور ابا جان کوئلے کی استری سے پریس کر کے دیتے، کوئی خود اپنے ہاتھ سے دھوتا اور کوئلے کی استری سے پریس کرتے ہوئے ہاتھ کو چٹکا لگا لیتا یا کوئلوں کی چنگاری سے کپڑوں پر باریک دائرہ نما سوراخ کر لیتا تھا۔ جن کے گھر چولہوں میں انگارے بھی نہ ہوتے، ان کے کپڑے دھو کر، سکھا کر، دادی، نانی، پریس کی طرح تہہ کرکے اس پر وزن رکھ دیتیں۔ صبح صبح جب اس وزن کو ہٹایا جاتا، تو یونیفارم تقریباً پریس کئےہوئے لگتے۔ 
اسکول کے چپہ چپہ پر خوب اچھی طرح جھاڑو لگائی جاتی۔ جھاڑو لگانے والے ہر شخص کے سر پر ایک ٹیچر سوار ہوتا، ’’اس کونے کا کچرا نکالو یہ پتھر اٹھا کر دور پھینکو۔ ‘‘پھریرے تیار کر کے آویزاں کئے جاتے۔ دو لڑکےڈوری پکڑتے اور ایک لڑکا چونا پائوڈر سے بھری بالٹی سے چونا نکال نکال کر اس ڈور کے مطابق لائن بناتا چلا جاتا۔ ان کاموں کے لئے اسکول میں جو خدمتگار ہوتے وہ کم پڑ جاتے اس لئے بچوں کو آدھے دن سے چھٹی دینے کے بعد چند محنتی لڑکے روک لئے جاتے جو ان خدمتگاروں سے زیادہ تیزی سے کام کرتے۔ اس زمانے میں اساتذہ بچوں کو دوست نہیں بناتے تھے رعب دبدبہ بنائے رکھتے تھے لیکن قومی تہوار کی تیاریوں کے لئے رکائے گئے لڑکوں کے ساتھ یہی ٹیچر جب ہنسی مذاق اور ہلکی پھلکی زبانی چھیڑ چھاڑ کرتے تو بچوں کو بہت اچھا لگتا۔ ان اساتذہ کے ساتھ بیٹھ کر چائے ناشتہ کرنا کسی خواب کی طرح معلوم ہوتا تھا۔ تمام کام ختم ہونے کے بعد تھکے ہوئے لوگ اسکول پر نظر ڈالتے تو صاف صفائی اور آراستگی دیکھ کر جی خوش ہو جاتا۔ دنیا حَسین لگتی، زندگی جینے کے لائق لگتی۔ کام کرتے کرتے اندھیرا ہو جاتا تو چند اساتذہ ان بچوں کو گھروں تک پہنچا دیتے۔ یہ۱۹۶۳ء کی بات ہے۔ صبح صبح اسکول جانا ہے، اس لئے رات ہی میں ساری چیزیں ایک جگہ رکھ دی جاتیں ۔ صبح اٹھ کر، نہا کر، اُجلے اُجلے کپڑے پہن کر، اپنے اُجلے دوستوں کے ساتھ اسکول کے لئے گھر سے چلتےتو راستے میں میونسپل کمیٹی کی طرف سے ایک ٹرک کے ذریعے سڑکوں پر پانی کا چھڑکاؤ نظر آتا۔ 
اُس زمانے میں شہر میں بھی ہر طرف سڑکیں نہیں تھیں، اس لئے مٹی کی بھینی بھینی خوشبو آتی، راستوں میں جگہ جگہ چھوٹے بڑے منڈپ لگے ہوتے، جن میں چائے ناشتہ کا انتظام مفت ہوتا۔ وہ زمانہ گراموفون ریکارڈ کا تھا، ہر منڈپ میں ان ریکارڈس پر دیش بھگتی کے گیت اونچی آواز میں بجائے جاتے۔ جیسے ’’چھوڑو کل کی باتیں، کل کی بات پرانی‘‘، ’’اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹا سکتے نہیں ‘‘، ’’اے میرے وطن کے لوگو، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی، جو شہید ہوئے ہیں ان کی ذرا یاد کرو قربانی‘‘ ’’جہاں ڈال ڈال پر سونے کی چڑیا کرتی ہے بسیرا‘‘، ’’ یہ دیش ہے ویر جوانوں کا، البیلوں کا، مستانوں کا ‘‘، اور بہت سے گیت تھے۔ پورے شہر میں، اسکول میں، حد درجے صفائی دکھائی دیتی۔ ایسی صفائی اور خوشیاں کسی اور تہواروں پر بھی نظر نہ آتیں ۔ اسکول میں جھنڈا بندھن، راشٹریہ گیت کے بعد کچھ تقریریں ہوتیں جن میں بچے اور بڑے حصہ لیتے۔ پھر ہم پرائمری اسکول کے بچوں کو جہاں کھڑے تھے، وہیں قطار میں بیٹھنے کا حکم ہوتا اور چند لڑکوں کے ہاتھ میں پیپرمنٹ اورسنترہ گولیوں کے پیکٹ دئیے جاتے، جن سے وہ قطار میں بیٹھے بچوں کو تقسیم کرتے۔ لڑکیوں کی قطار میں یہ پیکٹ جلد تقسیم ہو جاتے۔ پھر محروم لڑکوں کیلئے دوسرا پیکٹ دیا جاتا۔ 
یہ دو دن، پندرہ اگست اور چھبیس جنوری، اسکول کے بچوں کے لئے ایسے ہوتے کہ ٹیچرس موجود ہیں لیکن ڈانٹتے پیٹتے نہیں۔ پولیس پورے شہر میں موجود ہے لیکن اس سے ڈر نہیں لگتا۔ گھروں پر اور دکانوں پر ترنگے لگے ہوتے۔ گھر اور اسکول میں پڑھائی سے چھٹی مل جانے سے خوشیاں دو بالا ہو جاتیں۔ بچے اپنی اسکول کے اساتذہ کی نگرانی میں شہر کے کچھ خاص راستوں پر گشت لگاتے۔ لوگ، ہم بچوں کو ہمارے ہنستے مسکراتے چہروں کو بہت خوش دلی سے دیکھتے اور ان کے اپنے بچپن کے دن یاد کرتے۔ فلم تھیٹرس میں اس روز داخلہ مفت ہوتا خصوصاً بچوں کے لئے۔ دیش بھکتی کی فلمیں دکھائی جاتیں۔ پورے شہر میں چھٹی اور خوشیوں کا ماحول ہوتا۔ 
اکولہ ٹاور کے پاس بہت بڑے میدان میں شہر کی سب سے بڑی تقریب ہوتی جس میں ملٹری، پولیس، اسکاؤٹ، ہوم گارڈس وغیرہ کی پریڈ ہوتی، جس میں کلکٹر اور منسٹر شریک ہوتے۔ اس پروگرام کی شان و شوکت اور دبدبہ دیکھنے کے لائق ہوتا تھا۔ ڈرم، اونچی آواز میں اور اس طرح بجائے جاتے کہ انتہائی جوش اور ولولہ کے سبب دل کی دھڑکن بہت بڑھ جاتی۔ ان دو قومی تہواروں سے چند روز پہلے اسکول میں اسپورٹس گیمز ہوتے۔ تحریر، تقریر، خوشخطی وغیرہ کے مقابلے ہوتے۔ پھر اس خاص روز انعامات تقسیم کئے جاتے اور ہم بچے ان انعامات اور اچھی اچھی یادوں کے ساتھ خوشی خوشی گھر پہنچتے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK