• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ایسا بھی ہوتا ہے

Updated: January 06, 2025, 11:56 AM IST | Raheem Raza | Mumbai

روزانہ نماز فجر اور سحر خیزی کے بعد گھر آکر وہ تلاوت قرآن کرتا۔ پھر اخبارلے کر بیٹھ جاتا۔ دس بجے کے آس پاس ناشتہ کرتا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ ناشتے کے دوران ہی دوستوں کے فون آنا شروع ہو جاتے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

ناشتے سے فارغ ہوکر اس نے چائے کی پیالی کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھاکہ موبائل پر کال آنے لگی۔ کال ریسیو کرتے ہوئے اس نے کہا ’’ہاں بھئی آرہا ہوں، بس چند منٹ میں پہنچ رہا ہوں ‘‘، حسب معمول اس نے آہستہ سے جواب دیا۔ 
وہ عمر کے اس پڑاؤ پر تھا جہاں پہنچ کر انسان میں ایک قسم کا ٹھہراؤ آجاتا ہے۔ وہ سنبھل کر چلتا ہے اور گفتگو بھی نپے تلے انداز میں کرتا ہے یہ سب فطری چیزیں ہیں وہیں کچھ لوگ اس عمر میں نسیان کے مریض ہوجاتے ہیں کبھی اپنا چشمہ توکبھی چابی کہیں رکھ کر بھول جاتے ہیں یا اپنی کوئی چیز ادھر ادھر ہوجانے پر جھلا اٹھتے ہیں۔ وہ بھی اب چونسٹھ پینسٹھ کے لپیٹے میں تھا۔ سر اور ڈاڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے۔ ریٹائرمنٹ کو تقریباً سات سال ہوگئے تھے۔ پنشن اچھی خاصی تھی، دو بیٹے بھی برسرروزگار تھے۔ سرکاری ملازمت میں تو نہ تھے لیکن اپنے کاروبار سے اچھا خاصا کما لیتے تھے۔ وفا شعار بیوی، دو بہوئیں اور پوتے پوتیاں تھیں۔ دن بھر گھر میں چہل پہل رہتی تھی۔ 
روزانہ نماز فجر اور سحر خیزی کے بعد گھر آکر وہ تلاوت قرآن کرتا۔ پھر اخبارلے کر بیٹھ جاتا۔ دس بجے کے آس پاس ناشتہ کرتا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ ناشتے کے دوران ہی دوستوں کے فون آنا شروع ہو جاتے۔ وہ لوگ کبھی کسی کافی شاپ پر تو کبھی کسی دوست کے گھر یا دوکان پر بیٹھ جاتے۔ جہاں دنیا جہان کی باتیں ہوتیں۔ کبھی حالات حاضرہ پر تبصرہ ہوتاتو کبھی زبان و ادب پر گفتگو ہوتی اور قلمکار احباب اپنی نگارشات ایک دوسرے کو سناتے جس پر کھلے دل سے تعریفیں بھی ہوتیں اور تنقیدیں بھی۔ سب لطف اندوز ہوتے کوئی کسی کی بات کا برا نہ مانتا۔ یہی وجہ تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قلمکاروں کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ بدستور جاری تھا۔ سچ ہے زبان وادب کے فروغ کے لئے ایسی نشستیں سازگار ہوتی ہیں لیکن اس کے لئے وسیع القلبی اور وسیع النظری بے حد ضروری ہےلیکن اب یہ ماحول خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ 
ان میں جو لوگ قلمکار نہیں تھے وہ بھی مطالعہ کے عادی اور زبان وادب کے شیدائی تھے۔ اسے بھی مطالعہ کا ذوق وراثت میں ملا تھا۔ والدین تعلیم یافتہ تھے۔ خصوصاً اس کی والدہ تو مطالعہ کی بے حد شوقین اور خاندانی روایات کی پاسدار خاتون تھیں۔ ننیہال کے زیادہ تر لوگ سرکاری محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔ نانا جان کے گھر مراٹھی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے اخبارات ورسائل کے علاوہ نظموں اور قصے کہانیوں والی کتابیں بھی مل جاتی تھیں جنہیں پڑھ اسے خوب لطف آتا تھا۔ اکثر دوپہر یا رات میں سونے سے پہلے بچے نانی جان کو گھیر لیتے اور کہانی سننے کی ضد کرتے تب نانی جان اسلاف کے کارنامے اور بزرگوں کے قصے کہانیاں سناتیں۔ اب وہ دور کہاں اب تو ا یک ہال میں بیٹھ کر بھی کیا بچے اور کیا بڑے سب ایک دوسرے سے بیگانے اپنے اپنے موبائل میں گھنٹوں گم رہتے ہیں۔ 
اسے اب بھی یاد ہے بچپن میں جب وہ ننیہال جاتا تو ڈاکیے کو دیکھتے ہی دوڑ کر جاتا اوراپنی پسند کی کتاب یا رسالہ پاتا تو اسے اپنے کمرے میں لے جاکر پڑھتا۔ اکثر کتابیں اور رسالے واپسی پر اپنے ساتھ لے آتا اور خود پڑھ کر لطف اٹھاتا۔ دوستوں کوبھی دیتا اور ان سے اپنی تعریف سن کر خوش ہوتا۔ 
کبھی کبھی ناناجان کوئی کتاب یا رسالہ نہ پاکر اس سے پوچھ لیتے تو چپ رہتا۔ اس خوف سے کہ ایک تو دیر سے دینےپر ڈانٹ پڑے گی اور کتاب بھی چھوڑ کر جانا پڑےگا۔ وہ خاموش رہنے میں ہی عافیت سمجھتا۔ جب کوئی دوست اس بات کی یاد دلاتا تووہ ہنس کر ٹال جاتا۔ اسے اس وقت اس بات کا احساس بالکل بھی نہیں تھا کہ رسالہ یا کتاب نہ پاکر نانا جان کس کرب سے گزرتے ہوں گے۔ 
پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس میں لکھنے کا شوق بھی پروان چڑھتا رہا۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور انجینئرنگ مکمل کرتے ہی اسے محکمۂ آب پاشی میں ملازمت مل گئی۔ دن بھر کھیتوں کھلیانوں، ندی نالوں اور جنگلات میں گزرتا لیکن مطالعہ کا ذوق اب بھی برقرار تھا اسی لئےگھر میں اس کی ذاتی لائبریری تھی۔ ڈاک سے بھی کئی رسالے آیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکیے کو دیکھتے ہی محلے والے سمجھ لیتے کہ ضرورڈاکیہ خان صاحب انجینئر کے گھر جارہا ہوگا۔ اکثر گلی کے نکڑ پر گھنٹوں بیٹھے رہنے والے نوجوان ڈاکیے سے ڈاک لے کر اس کے گھر دے جاتے اور کئی دن تک ڈاکیے سے ملاقات بھی نہ ہوپاتی۔ اسے ان نوجوانوں پر غصہ بھی آتا جو گھنٹوں موبائل لئے کبھی مقامی تو کبھی بین الاقوامی مسائل پر لا حاصل بحثیں کرتے لیکن وہ دل مسوس کر رہ جاتا کہ اب یہ عام بات ہے۔ 
اسے تشویش اس وقت ہوئی جب کئی دنوں سے نہ کوئی کتاب ملی نہ کوئی رسالہ۔ کافی دن دن گزر گئے اور اس کی بے چینی بڑھتی گئی۔ بالآخر اس نے ڈاک گھرجاکر پوسٹ ماسٹر سے شکایت کی اور اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ پھر گھر آکر اپنی ڈائری چیک کی لیکن ایک دو کو چھوڑ کر باقی اخبارات ورسائل کی تجدید خریداری میں کافی وقت تھا پھر ایسا کیوں ؟ اس نے رسائل کے مدیران سے بھی شکایت کی لیکن ان کے مطابق اس کو رسالے ہمیشہ کی طرح اسی پتے پر باقاعدگی سے بھیجے گئے ہیں۔ اب اس سے سے رہا نہ گیا وہ پھر ڈاک گھر پہنچا اور پوسٹ ماسٹر کو ایڈیٹرکا حوالہ دے کر اپنی شکایت دہرائی۔ 
’’دیکھیے خان صاحب! آپ کا پتہ وہی ہے اور دوسال سے آپ کے علاقے کا وہی پوسٹ مین چودھری ہے۔ اب ڈاک کا نظام اتنا برا بھی نہیں کہ کئی کئی دن ڈاک نہ پہنچائی جائے۔ ‘‘پوسٹ ماسٹر نے صفائی دی۔ 
’’پھر میری ڈاک جاتی کہاں ہے؟ ‘‘، وہ کچھ بگڑ کر بولا۔ 
’’شریمان! ابھی چودھری اور سب پوسٹ مین ڈاک بانٹنے جاچکے ہیں۔ آپ کل صبح جلدی آجائیے ہم چودھری سے بھی بات کر لیتے ہیں۔ ‘‘ پوسٹ ماسٹر نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ 
دوسرے دن وہ ناشتہ کئے بغیر ڈاک خانے پہنچ گیا۔ ’’آئیے خان صاحب بیٹھیے۔ ‘‘اس کے بیٹھتے ہی انہوں نے پوسٹ مین چودھری کو آواز دی۔ ’’پر نام خان صاحب ‘‘، چودھری نےآتے ہی مسکراتے ہوئے پر نام کیا۔ ان کی شکایت ہے کہ۔ پچھلے کئی دنوں سے ان کو ڈاک نہیں مل رہی ہے۔ ‘‘’’آں۔ ۔ ۔ ؟ ان کی ڈاک تو تقریباً ہر ہفتے آتی ہے بلکہ کبھی کبھی صرف اکیلے ان کی ڈاک پہنچانے کے لئے ہی ادھر جانا پڑتا ہے اورمیں تو پابندی سے پہنچاتا ہوں۔ ہاں کبھی کبھی آپ کی گلی کے نکڑ پر بیٹھے لڑکے مجھ سے یہ کہہ کر ڈاک لے لیتے ہیں کہ وہ آپ کو دے دیں گے۔ میرے انکار کرنے پر بھی وہ نہیں مانتے۔ 
’’ہاں پہلے کبھی کبھی وہ میرے گھر پہنچا دیا کرتے تھے۔ ‘‘ اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔ یہ سلسلہ تو پچھلے ایک سال سے چلا آرہا ہے۔ پھر آپ کی طرف سے بھی کوئی شکایت نہیں ملی۔ ابھی چار دن پہلے ہی دہلی سے دو کتابیں آپ کے نام آئی تھیں۔ پچھلے ہفتے دو رسالے بھی دئیے تھے ڈاکیے نے تفصیل سے بتایا۔ 
’’لیکن مجھے تو کئی ہفتوں سے کچھ نہیں ملا۔ ‘‘ اس نےکرسی پر پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ ’’ بد معاش کہیں کے ! میں ان کی خبر لیتا ہوں ۔ یہ تو بہت بری بات ہے۔ اس میں ہماری بھی بدنامی ہے۔ ‘‘ پوسٹ مین تیوری چڑھاتے ہوئےبولا۔ 
بالکل! چودھری تم آج اور ابھی خان صاحب کے ساتھ چلے جاؤ اور بتاؤ کس کے پاس ان کی ڈاک دیتے رہے ہو اور آئندہ گھر تک پہنچانا یہ تمہاری ڈیوٹی ہے۔ پوسٹ ماسٹر نے برہمی کا اظہار کیا۔ چلیے خان صاحب !اس نے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنے کا اشارہ کیا۔ ’’میں ابھی ان نالائقوں کو بتاتا ہوں ، شریر، بد تمیز کہیں کے۔ ‘‘ پوسٹ مین غصے سے تلملا اٹھا۔ 
خان صاحب کو خاموش خلاء میں گھورتا دیکھ کر پوسٹ مین، پوسٹ ماسٹر اور وہاں موجود اسٹاف حیرت سے دیکھنے لگے۔ خان صاحب سوچ میں گم تھے کہ شاید یہ اپنی بچپن کی غلطی اور نادانی کی سزا ہے۔ میں جس کرب سے گزرتا ہون یقیناً ناناجان بھی گزرتے ہوں گے۔ کاندھے پر پوسٹ مین کے ہاتھ رکھتے ہی وہ کھڑے ہوکر بولے
’’جانے دیجیے ! میں نے انہیں معاف کردیا۔ آخر بچے ہیں۔ ہوسکتا ہے مطالعہ کے لئے اپنے کام کی ڈاک رکھ لیتے ہوں لیکن اب آپ میرے گھر ہی پہنچایا کیجیے گا۔ چلتا ہوں شکریہ۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK