ادیب کے گردوپیش کی دنیا، اس کا حسن اور بدصورتی، کشمکش اور الجھاؤ، اس میں بسنے والوں کی امیدیں اور مایوسیاں، خواب اور امنگیں، بہار اور خزاں اس کے موضوع بنتے ہیں۔
EPAPER
Updated: February 02, 2025, 2:15 PM IST | Syed Ehtisham Husain | Mumbai
ادیب کے گردوپیش کی دنیا، اس کا حسن اور بدصورتی، کشمکش اور الجھاؤ، اس میں بسنے والوں کی امیدیں اور مایوسیاں، خواب اور امنگیں، بہار اور خزاں اس کے موضوع بنتے ہیں۔
ادب اور فنون لطیفہ کی دوسری شکلوں کا خواب کثرت تعبیر سے ہمیشہ پریشان رہا ہے۔ کسی قسم کی مادی بنیاد کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے شعروادب کی دنیا اکثر وبیشتر خواب وخیال کی دنیا سمجھی گئی جس کی نہ تو راہیں متعین ہیں اور نہ سمت مقرر ہے، یعنی ادیب اپنے جذبات اور خیالات کے اظہار کے لئے آزاد ہے اور کوئی ضرورت نہیں کہ ہم اس کے جذبات اور خیالات کی بنیاد وں کی جستجو کرکے اسے کسی قسم کا مشورہ دیں کیونکہ خیالات کی غیر مادی نوعیت اور جذبات کے بے روک بہاؤ سے الجھنا کوئی معنی نہیں رکھتا، لیکن خیالات کی یہ رفتار بہت دنوں تک قائم نہ رہ سکی۔
تاریخ اور سماج کے مطالعہ نے بتایا کہ خیالات اور ان کے فنی مظاہر بھی انسان کی مادی زندگی کے عروج و زوال سے تعلق رکھتے ہیں اور انسان جس طرح کا سماجی اور معاشی نظام رکھتا ہے، اسی کے مطابق اس کے خیالات اور شعور کا ارتقا ہوتا ہے۔ اس تاریخی حقیقت نے اس فلسفیا نہ اصول کی طرف رہنمائی کی کہ انسان کا مادی وجود اس کے شعور کا تعین کرتا ہے۔ اس اصول کو پیش نظر رکھ کر دیکھیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑےگا کہ ادیب کے تخلیقی کا رنامے ان حقیقتوں کا عکس ہوتے ہیں جو سماج میں پائی جاتی ہیں، ہو سکتا ہے کہ کوئی ادیب اس فلسفے سے واقف نہ ہو لیکن پھر بھی اس کی تخلیق میں وہ حقیقتیں کسی نہ کسی شکل میں نمایاں ہوں گی جو اس کے گرد وپیش ہیں، جو اس کے ذہن کی تشکیل کرتی ہیں۔ یوں دیکھا جائے تو خیال اور شعور کی حیثیت بھی مادی ہو جاتی ہے اور جب ادب کے مادی تصور پر غور کیا جائےگا تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ادب میں جن جذبات، خیالات اور تجربات کا اظہار کیا گیا ہے ان کے مادی اور سماجی پس منظر کو پیش نظر رکھا جائے تاکہ حقائق کی اصل بنیاد کا علم ہو سکے۔
ادیب کے گردوپیش کی دنیا، اس کا حسن اور اس کی بدصورتی، اس کی کش مکش اور اس کا الجھاؤ، اس میں بسنے والوں کی امیدیں اور مایوسیاں، خواب اور امنگیں، رنگ اور روپ، بہار اور خزاں اس کے موضوع بنتے ہیں اور مختلف تاریخی ادوار میں انسانی جذبات سے ان کا تعلق یکساں نہیں ہوتا بلکہ انسان کی معاشی زندگی اور اس کی پیحیدگیوں کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور کا ادب اپنا مخصوص رنگ رکھتا ہے، جس طرح ہر دور کا شعور اپنی مخصوص ہیئت رکھتا ہے، یہی نہیں بلکہ ہر ادیب کے شعور کے مطابق ایک ہی دور کے ادبی کارناموں میں فرق پایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک بات اور واضح ہو جاتی ہے، معاشی زندگی اور طریق پیداوار، مادی ارتقاء اور ادبی شعور میں تعلق تو لازمی طور پر ہوتا ہے لیکن یہ تعلق ایک سیدھی لکیر کی طرح واضح اور متعین نہیں ہوتا۔ اس تعلق کو تلاش کرنے کے لئے کسی ملک، قوم یا دور کے معاشی ڈھانچے اور اس ڈھانچے پر بننے والی زندگی اور اس کی تاریخ کو بڑی گہری نظر سے دیکھنا چاہئے۔
اسی کے ساتھ الگ الگ ہر ادیب کے شعور کا مطالعہ بھی اس نظر سے کرنا ہوگا کہ اس کا تعلق سماجی ارتقاء کے ساتھ کس قسم کا ہے۔ فلسفہ مادّیت کے بعض مبلغوں نے اس مسئلے کو خالص میکانکی نظر سے دیکھا ہے اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا ہے کہ مادّی حالات انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن صرف انفعالی طور پر نہیں بلکہ انسان خود سماج اور فطرت کے خلاف جدوجہد کرکے مادی حالات میں تغیر پیدا کرتا ہے اور حالات بدلنے کے دوران میں خود بھی بدل جاتا ہے۔ یہ عمل میکانیکی طور پر اثر قبول کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ ایک صورت میں انسان بالکل بے اختیار نظر آتا ہے، دوسری صورت میں باشعور اور صاحب اقتدار دکھائی دیتا ہے۔ ادب کی سماجی اہمیت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک ہم ادیب کو باشعور نہ مانیں۔ اسلئے ادب کا مادی تصور سب سے پہلے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ادب انسانی شعور کی وہ تخلیق ہے کہ جس میں ادیب اپنے ذہن سے باہر کے مادی اور خارجی حقائق کا عکس مختلف شکلوں میں فنی قیود اور جمالیاتی تقاضوں کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ عکس فوٹوگراف کی طرح ساکن یا بنا بنایا نہیں ہوتا بلکہ متحرک حقیقتوں کا متحرک عکس ہوتا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کسی مخصوص دور کے ذرائع پیداوار اور اس دور کے ادب یافنون لطیفہ کا رشتہ کس طرح ظاہر ہوتا ہے، اس کو واضح ہونا چاہئے۔ اگر ہم اس کو مثال سے سمجھانا چاہیں تو اس کی ایک اچھی مثال ابتدائی سماج میں مل سکتی ہے، جہاں سماج پیچیدہ نہیں تھا، ذرائع پیداوار سیدھے سادے تھے۔ ایک ساتھ مل جل کر کام کرنے میں ابتدائی انسان کو اندازہ ہوا کہ ایک آہنگ کے ساتھ کام کرنے، مخصوص قسم کی آوازیں نکالنے اور جسم کو ایک خاص طرح حرکت دینے میں کام جلد بھی ہوتا ہے، تھکن بھی کم ہوتی ہے اور اچھا بھی معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے ان حرکات و سکنات، آوازوں اور بولیوں کو انہوں نے اپنے کام کے طریقوں اور ذہنی تفریح کے ذریعوں سے وابستہ کر لیا، یہی زبان، رقص، موسیقی اور شاعری کی بھدی مگر فطری ابتدا تھی جس کا تعلق براہ راست پیداوار کے ذرائع سے تھا۔ سماج اور ذرایع پیداوار میں جتنی پیچیدگی بڑھتی گئی فنون لطیفہ اور ادب سے ان کا تعلق بھی پیچیدہ ہوتا گیا۔ اس سلسلہ میں ایک اور بات یاد رکھنا ضروری ہے۔ ذرائع پیداوار اور ادب کے رشتہ کو تسلیم کرتے ہوئے یہ ماننا غلط ہوگا کہ دونوں کے زوال یا ارتقاء کی سطح بھی یکساں اور متناسب ہوگی۔ کسی ملک کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہو جائےگا کہ معمولی سماجی ارتقاء کے عہد میں بھی اعلیٰ ادب پیدا ہوا ہے۔ یونان نے غلامی کے عہد میں افلاطونؔ، ارسطوؔ، ایس کائیؔ لس اور یوروپیڈیز ہی کو نہیں ہو مرؔ کو بھی جنم دیا۔ یہ سمجھنا بھی درست نہ ہوگا کہ ایک عہد کا ادب اسی عہد کی ساتھ ختم ہو جاتا ہے اور نئے عہد میں ماضی سے سارے رشتے توڑ کر نیا ادب سر ابھارتا ہے۔ کسی عہد کے تمام ادیب شعور کی ایک ہی سطح پر نہیں ہو سکتے۔ ذہنوں پر خاندانی، طبقا تی اور سماجی ورثوں کا بوجھ ہوتا ہے، جسے زندگی کی کشمکش کو سمجھے بغیر اتار پھینکنا تقریباً ناممکن ہے۔
(طویل مضمون ’ادب کا مادی تصور‘ کا ایک باب)