• Thu, 07 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

انڈہ

Updated: November 04, 2024, 2:20 PM IST | Ghani Gazi | Mumbai

زمانہ قدیم میں اہل روم مور اور چینی کبوتر کے انڈے پسند کرتے تھے۔ بھکمری کے زمانہ میں مگر مچھ اور کچھوے کے انڈے بھی ہضم کرلئے گئے۔ شتر مرغ کا انڈا تما م انڈوں میں بڑاہوتا ہے جبکہ کبوتر، تیتر، بٹیر، چڑیا، ہریل بگلا وغیرہ کے انڈے مرغی اور پٹھوڑی کے انڈوں سے چھوٹے ہوتے ہیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

سائنسی ارتقاء نے چاند پر قدم رکھ دیا، خلاؤں میں مصنوعی سیارے اتار د ئیے، فضاؤں میں اڑانیں بھر لیں، ستاروں پر کمندیں ڈال دیں، انٹرنیٹ سے زمین اور آسمان کے قلابے ملادئیے، سمندروں کو کھنگال ڈالا، دیوہیکل جہازوں کو سطح آب پر تیرنے کا گر سکھادیا، اجَرام فلکی کے راز ہائے سر بستہ کھول دئیے اور زمین کی پرتوں تک کو ٹٹول ڈالا۔ یہ تمام کرشمہ سازیاں منظور مگر سائنس داں یہ گتھی اب تک نہ سلجھا سکے کہ ’’ دنیا میں مرغی پہلے آئی یا انڈا پہلے آیا ! یہ رمز بھی حیرت انگیز ہے کہ بیضوی شکل کے اندر گول مٹول سپیدی اور زردی کیسے رہتی ہے؟ سائنس یہ گر ہیں بھی نہ کھول سکی کہ مرغی کے پیٹ میں چھوٹی چھوٹی زردیاں باہرآتے ہی سفید خول کے اندر کیسے بند ہوجاتی ہیں اورچند سیکنڈ میں سفید براق خول بن جاتی ہے۔ ایجادا ت، تحقیقات اور انکشافات کے ماہرین اس وقت انگشت بدنداں نظر آتے ہیں جب بیضہ کے اندرکے ساکت مادہ سے چوزہ بر آمد ہوتاہے۔ محققین آج تک طے نہیں کر پائے کہ انڈا ویج ہے یا نان ویج!اسی سبب تو دنیا کے کونے کونے میں ویجیٹیر ین اور نان ویجیٹیرین اس کو منہ لگائے ہوئے ہیں۔ سنسکرت کے انڈے کو اہلیان عرب وفارس بیضہ کہہ کر بڑے شوق سے کھا رہے ہیں۔ ہندوستانیوں نے انڈا بر قرار رکھا مگر بیضہ کو بیدا بناڈالا !
زمانہ قدیم میں اہل روم مور اور چینی کبوتر کے انڈے پسند کرتے تھے۔ بھکمری کے زمانہ میں مگر مچھ اور کچھوے کے انڈے بھی ہضم کرلئے گئے۔ شتر مرغ کا انڈا تما م انڈوں میں بڑاہوتا ہے جبکہ کبوتر، تیتر، بٹیر، چڑیا، ہریل بگلا وغیرہ کے انڈے مرغی اور پٹھوڑی کے انڈوں سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ مچھلیوں کے انڈے منگل سوتر کے کالے باریک منکوں کی طرح مگر بہت لذیذ ہوتے ہیں۔ انڈے کو بنانے کی تراکیب کو بھی مختلف اور متعدد اسمائے گرامی سے نوازاگیا ہے۔ سنگل آملیٹ، ڈبل آملیٹ، ہاف فرائی، انڈا کری، انڈامسالہ، بیدا قیمہ گھوٹالا، انڈا بھرجی، انڈا ٹماٹر چٹنی، انڈا پاؤ اور انڈا بریانی پلاؤ۔ اِیران میں تو بیضہ کو گھی میں تل کر اُسے ستارہ کہا جاتاہے۔ 
 ابلے ہوئے یا اس کے خول پر گیلی مٹی کی ہلکی سی پرت لگا کر انگاروں پر بھونے ہوئے انڈے کے دو نوں حصوں پر کالی مرچ اور نمک چھڑک کر کھانسی ، زکام، سردی، جسمانی کمزوری اور بخار کے مریضوں کو بطور دوا کھلاتے ہیں۔ دمہ کے مریض تو ہلکے گرم دودھ میں تخم ِمرغ ڈال کر گٹک لیتے ہیں۔ یہ انڈا نظر یا بیماری میں صدقہ اتارنے کے بھی کام آتا ہے۔ اور تو اور دولہے کے گھوڑے کی ٹاپ کے نیچے بزور بازو رکھ کر توڑا جاتا ہے۔ انسانوں کے لئے یہ ایک رسم ٹھہری مگر بے زبان اور بے قصور انڈے کی تو جان گئی نا ! عیسائی اپنے تہوا ر ایسٹر کے دن منقش انڈے ایک دوسرے کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔ ایران میں جشن نو روز کے لئے باقاعدہ انڈوں پر نقش و نگار کر کے کھیلا جاتا ہے جس کا انڈا پھوٹا سمجھو وہ ہار گیا۔ اس پھینکا پھانکی میں بھی بے بس انڈے کی جان پر بن آتی ہے۔ زمانۂ قدیم ہی سے گھروں ، کھیتوں ، کھلیانوں اور جنگلوں میں مرغ پالن کارواج رہا ہے۔ انڈوں پر مرغیاں بٹھا کر چوزے نکالے جاتے ہیں ۔ مرغ اور مرغیوں کے انڈے فروخت کر کے گھریلو اخراجات پورے کئے جاتےتھے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ انڈوں کی بڑھتی ہوئی مانگ کے پیش نظر بڑے بڑے چکن فارم وجود میں آگئے ہیں جہاں مرغیوں اور انڈوں سے لاکھوں کروڑوں کی کمائی ہوتی ہے۔ انڈے کی تجارت ملک کی معیشت کو مستحکم بنارہی ہے۔ امیر ہو کہ غریب، شہری ہوکہ دیہاتی ہر کوئی انڈے کاشوقین ہے۔ دیسی یا گائوران مرغی کے انڈے قدرے مہنگے لیکن برائلر مرغی کے انڈے سستے اور غریبوں کی دستر س میں ہوتے ہیں۔ بڑے شہروں میں لوگ کھڑے کھڑے انڈا پاؤ کھا کر دوڑتی بھاگتی زندگی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ سردیوں میں انڈوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ البتہ موسم گرما میں انڈے سستے ہو جاتےہیں۔ شدید گرمی سے انڈے گندے اور نا قابل ِ استعمال ہوجاتے ہیں۔ شرارتی، آوارہ اور اوباش لڑکوں کو گندے انڈے بھی کہا جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے ! ماں باپ کے بے جا لاڈ و پیا ر سے بچہ بگڑ گیا تو اس میں انڈے کا کیا قصور ہے ؟
گھوڑے کے پاؤں کی بیماری کو بھی بیضہ نام دیا گیا ہے۔ ماہرین ارضیات کی جدید تحقیق کے مطابق زمین چپٹی یا گول نہیں بلکہ ’بیضوی‘ ہے۔ ماہرین ار ضیات نے ہاتھ اور گھٹنے ٹیک دئیے کہ بیضہ نہ ہوتا تو زمین کی شکل کو کس کے مشابہ بتاتے ؟ انڈا اور اس کے بنانے کی تراکیب و نسخہ ٔ جات کومختلف نام دے کر حضرت انسان نے اس بے زبان کو بھی فرقہ بندی کا شکار بنادیا ہے لیکن اُسے جس نام سے پکارو جس ترکیب سے بناؤ چاہے دنیا کے جس کونے میں لے جاؤ یہ انڈا اپنی لذت، شناخت اور تشخص بہر حال قائم رکھتا ہے۔ وہ ذات پات، مذہب و ملت، رنگ و نسل کی تفریق کئے بنا خدمت خلق میں پہلے بھی مصروف تھا اور آج بھی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK