برسوں بعد جب میں نے اس کا نام پتہ اور فون نمبر کسی رسالہ کے ورق پر دیکھا تو حیرت کے ساتھ مسرت کے احساس نے آگھیرا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔
EPAPER
Updated: December 23, 2024, 12:29 PM IST | Moinuddin Usmani | Mumbai
برسوں بعد جب میں نے اس کا نام پتہ اور فون نمبر کسی رسالہ کے ورق پر دیکھا تو حیرت کے ساتھ مسرت کے احساس نے آگھیرا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔
یقین سے تو نہیں کہہ سکتا مگر ایسا ضرور لگتا ہے کہ بات غالباً دو یا تین سال پرانی ہوگی جب کسی معاصر رسالہ کا افسانے سے متعلق خصوصی نمبر شائع ہوا تھا۔ اس خصوصی شمارے کی خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں اُس کا افسانہ شائع ہوا تھا۔برسوں بعد جب میں نے اس کا نام پتہ اور فون نمبر کسی رسالہ کے ورق پر دیکھا تو حیرت کے ساتھ مسرت کے احساس نے آگھیرا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں۔ یادوں کا ایک سیلاب تھا جو دل میں راستہ بنا نےلگا تھا۔ جذبات تھے کہ بے قابو ہوا چاہتے تھے۔ میں نے دماغ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر سب سے پہلے افسانہ پڑھا۔ مجھے اچھا لگا ، یاد نہیں کہ اس سے پہلے کبھی اس کی کوئی تحریر نظروں سے گزری تھی بھی یا نہیں ، بہت ممکن ہے کبھی پڑھی بھی ہو تو احساس ہی نہ رہا ہوگا کہ یہ وہی شخص ہے جس کو میں جانتا تھا۔ عموماً ایک نام کے کئی اور بھی تو اشخاص ہو سکتے ہیں ، پھر رسائل والے ہر مرتبہ نام کے ساتھ تمام تفصیلات بھی تو نہیں چھاپتے۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ کوئی ضروری بھی تو نہیں ہے۔ اب چونکہ فون نمبر سامنے تھا تو یکلخت جی میں آیا کہ اسی بہانے افسانے کی تعریف کرکے اس سے تعارف حاصل کرلیا جائے۔مگر دوسرے ہی لمحے خیال آیا کہ کوئی اور ہوا تو خواہ مخواہ سبکی ہوگی۔ ویسے بلا وجہ کسی سے رابطہ کرنا مجھے پسند نہ تھا، بلکہ یہ با ت میری سرشت میں تھی کہ ملنے جلنے والوں کے علاوہ ٹیلی فونک رابطہ کے احباب بھی محدود تھے۔ سبکدوشی کے بعد زندگی کے دن افراد خانہ کے ساتھ یوں ہی سکون سے گزررہے تھے۔دن کا بیشتر حصہ مطالعہ کی نذر ہو جاتا۔تھوڑا بہت خالق کائنات کی تعریف و توصیف میں ، اس میں سے کچھ وقت چرا کر گھر کے ننھے منوں کے حوالے کرتا تو شریک سفر شکایت کرنے لگتی کہ دو گھڑی کبھی ادھر بھی متوجہ ہوجایا کرو۔زندگی کی برف رفتہ رفتہ پگھلتی جا رہی ہے، نہ جانے کس گھڑی سانسوں کی ڈور ہاتھ سے پھسل جائے پھر ہم کہاں اور آپ کہاں ؟مجھے اکثر اس کی باتوں میں سچائی نظر آتی مگر کیا کروں مطالعہ کی لت نے تو گویا زندگی پر جیسے قبضہ ہی کرلیا تھا۔
پھریوں ہوا کہ اچانک اس کا سراپا میری نظروں کے سامنے گھوم گیا۔مجھے نہیں معلوم کہ وہ ہمارے شہر میں کیوں کر آیا تھا۔ یاد پڑتا ہے کہ پہلی ملاقات تو اس سے محلے کی مسجد میں ہوئی تھی۔ وہ بھی میری ہی طرح مسجد میں نماز ادا کرنے کے علاوہ مکتب کی تعلیم کے لئے آیا تھا۔ درمیانہ قد، ساتھ میں گوری رنگت ، چہرے پر فرشتوں کی سی معصومیت تھی ، لباس میں سادگی اور سر پر دو پلی ٹوپی نے تو شخصیت کو مزید پروقار بنا دیا تھا۔ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ آٹھویں درجے میں داخل ہوا ہے۔دو سال پیچھے ہونے کے سبب اسکول میں کم مگر مسجد اور مکتب میں ہماری ملاقاتیں زیادہ ہونے لگیں بلکہ ایک دو مرتبہ تواس کے گھر جانے کا بھی اتفاق ہوگیا تھا۔ جھونپڑی نما اس کے گھر کے دروازے پر پردہ لگا دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی تھی کیوں کہ اس وقت پردے کا ہمارے پاس تصور بھی نہیں تھا۔ مولوی نما اس کے والد سے بھی ملاقات ہوئی تھی۔
وقت کا پنچھی اڑان بھرتا رہا۔ اچانک پتہ چلا کہ وہ لوگ کسی دوسرے شہر کی طرف کوچ کر گئے۔ اس میں ان کی مجبوریاں تھیں یا کوئی اور بات آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔جب حد درجہ طویل عرصہ گزر گیا اور اس کی کوئی خبر نہیں آئی اور وہ بھی نہیں آیاتو ذہن کے پردے پر اس کے تصور کو زمانے کی گرد میں دھند لانا تھا ، وہ دھندلا گیا۔مگر آج کئی دہائیوں بعد جب صفحہ قرطاس پر اس کا نام نظر آیا تو ماضی کے اوراق دھیرے دھیرے پلٹنے لگے۔اس کی سنگت میں گزرا وقت نظروں کے سامنے رقص کرنے لگا۔مسجد کے صحن میں اس کا بیٹھنا، سبق کی گردان میں اس کا دھیمی آواز میں پڑھناکانوں میں گونجنے لگا۔ گلیاروں اور میدانوں کی مٹی اس کے ہونے کی گواہی دینے لگی تو میرے ہاتھ موبائل کی جانب غیر ارادی طور پر بڑھ گئے۔ میں نے رسالہ میں درج نمبر پر فون لگا دیا۔
علیک سلیک کے چند جملے افسانے سے متعلق عرض کرنے کے بعد کہا ’’کیا کبھی آپ کا اس شہر سے کوئی تعلق رہا ہے؟‘‘جواباً اس نے کہا ’’جی ہاں میرے بچپن کے دوسال تو وہیں گزرے ہیں ، عربی کی ابتدائی تعلیم بھی وہیں حاصل کی تھی۔‘‘وہ روانی میں بولتا جارہا تھا اور میں سنتا جارہا تھا۔ پتہ نہیں اسے پھر کچھ یاد آیا تو کہنے لگا’’کیا اب بھی مسجد کے صحن میں چمیلی کے پھولوں کا وہ درخت ہے اور آم کا وہ درخت جس پر کوئل بیٹھا کرتی تھی اور مہندی کی وہ کیاریاں موجود ہیں ؟
میں نے جواباً کہا بھیا اب تو زمانہ بیت گیا ، چمیلی کا درخت مہندی کی کیاریاں تو عرصہ ہوا اجڑ گئیں ، جن کی خوشبوؤں سے شام مہک اٹھتی تھی ، آم کا وہ درخت تو ہےاور اس پر موسمی بہار بھی آتی ہے مگر پتہ نہیں کیوں کوئل روٹھ کر کہیں چلی گئی ہے۔احاطے کا کھلا پن جو تھا وہ کمپاؤنڈکی دیواروں سے ڈھک گیا ہے۔ سامنے میدان فلک بوس عمارتوں سے بھر گیا ہے۔ ویسے بھی شہر اب ویسا نہیں رہا جیسا اُس وقت ہوا کرتا تھا۔ میں روانی میں بولے جارہا تھا۔قدرے توقف کے بعد میں نے پھر کہا اب تم سناؤ، ’’یہاں سے جانے کے بعد کیسے گزری؟‘‘
میرے اس سوال پر پہلے تو وہ خاموش رہا پھر کہنے لگا۔تم نے ماضی کے دھندلے اوراق پلٹے ہیں تو سنو۔’’وہاں سے نکل کر کچھ عرصہ ہم نے اورنگ زیب کے اس تاریخی شہر میں گزارے جو دروازوں کا شہر ہے مگر یہاں سے بھی جب دانہ پانی اٹھ گیا تو سر سید کے شہر میں جا بسے۔ یہ شہر شہر اور بستی بستی کا سفر کیوں ہو رہا تھا مجھے نہیں معلوم۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ والد کسی سلسلے میں ایک سفر پر نکلے، ان کا یہ سفر اتنا طویل ہوجائے گا ، معلوم نہ تھا۔وہ سفر ان کا سفر آخرت ثابت ہوا۔اجنتاکی پہاڑیوں کے دامن میں ایک بستی میں وہ پیوند خاک ہوئے۔مریدوں اور ان کے چاہنے والوں نے وہیں ان کا مزار بنا دیا جو اَب مر جع خلائق بنا ہوا ہے۔کچھ ہی عرصے بعد والدہ بھی راہیٔ ملک عدم ہو گئیں۔ دو چھوٹی بہنوں کی پرورش کی ذمہ داری بھی اللہ نے پوری کروائی۔ وہ بہنیں اپنے اپنے گھر آسودہ ہیں۔ تعلیمی شہر میں آنے کے بعد کچھ عرصہ کبھی اس کے گھر تو کبھی اس کے گھر چھوٹے موٹے کام کرتے ہوئے گزرا۔ قسمت کو رحم آیا تو دوسرے سال اسکول میں داخلہ ہوا اور سوئے اتفاق ہوسٹل میں رہائش بھی مل گئی۔ تعلیم کے ساتھ چھوٹے موٹے کام کرتا رہا جس سے اخراجات کی کچھ حد تک تلافی ہوتی گئی۔کلاس ختم ہو نے کے بعد میں اکثر اُن کے گھر چلا جاتا جن سے میرا کوئی رشتہ نہ تھا مگر ان کے برتاؤ کے آگے رشتے داری بھی ماند پڑ گئی تھی۔ ہوسٹل کے محدود کھانے کی تلافی وہاں ہونے لگی تو پتہ نہیں کیسے میں بھی ان کے گھر کا فرد بن گیا۔ تعلیم کا سلسلہ جاری رہا اور میں کامیابی کی منزلیں طے کرتا رہا۔دن رات کی محنت رنگ لائی اور میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوکر روزگار کے مواقع ڈھونڈنے عروس البلاد کی طرف چلا گیا یہاں آیا تو ایک عجیب و غریب دنیا سے واسطہ پڑا۔ میں نے دیکھا کہ یہاں تو ہر شخص دوڑ رہا ہے۔اس میں بوڑھے بھی ہیں جوان بھی ہیں حتیٰ کہ بچے اور خواتین بھی ہیں۔دو وقت کی روٹی کی خاطر صبح سے شام ہورہی ہے جس میں زبان کے ساتھ تہذیب بھی داؤ پر لگی ہے۔میرے لئے چند مہینے بھی یہاں عذاب سے کسی طرح کم نہ تھے۔
اسے سوئے اتفاق ہی کہا جائے گا کہ قدرت کو مجھ پر رحم آگیا اور پہلی ہی درخواست جو میں روانہ کرکے بھول گیا تھا اس کو قبولیت ملی اور میں آفیسر بن کر پھر سے اپنے شہر آگیا۔پھر کیا تھا احباب کے ساتھ کرم فرماؤں نے فوری طور پر بھلی سی لڑکی بھی تلاش کر لی اور دو ہاتھوں کے چار ہاتھ کردئیے۔ زندگی نے رفتار پکڑ لی۔ اس دوران چند ہی برسوں میں ننھے منوں کی آمد نے سرشار کردیا۔ میں خوش تھا کہ زندگی صحیح رخ چل پڑی ہے، لہٰذا شریک سفر کی دلجوئی میں مصروف رہا۔ اس نے دن کو رات کہا ، رات کو دن میں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور اس طرح زندگی کی مسافت بڑھتی گئی۔ دیکھتے دیکھتے ننھے پودے درختوں میں بدل گئے۔ حالانکہ شروع ہی سے بیوی کی زیادتیوں کو برداشت کرتا رہا کہ گھر میں امن قائم رہے۔ایک آئیڈیل شوہر اور مشفق باپ بننے کی سعی کرتے ہوئے خود کو پامال کرتا چلا گیا۔صرف اس امید میں کہ بیٹے سمجھ دار ہوجائیں گے تو سہارا بنیں گےلیکن ایسا ہوا نہیں۔ انہیں شروع ہی سے زہریلا بنانے کی قواعد کارفرما رہی۔
اختلاف یہ تھا کہ میں اپنی بہنوں سے نہ ملوں بلکہ ان سے کوئی تعلق بھی نہ رکھوں۔اگر چہ میں نےیہ بھی کیا۔ عرصہ دراز تک بہنوں سے قطع تعلق اختیار کیا کہ تپش میں تیزی نہ بڑھے۔اب چونکہ عمر کی آخری منزل میں ہوں۔جسمانی طورپربہت کمزور ہوں۔بڑھاپے کے کئی عارضے گھیرے ہوئے ہیں۔ ایک روز بہنوں کی محبت نے زور مارا اور میں کچھ بہانہ کرکے تین دن کے لئے ان سے ملنے چلا گیا۔ ادھر بیوی کے جاسوسوں نے مخبری کردی۔ بس غضب ہوگیا۔ واپس آیا تو میدان جنگ تیار تھا ، اس قدر لتاڑ پڑی، اس قدر بے عزت کیا گیا ، مجھ پر جھوٹا اور مکار ہونے کا الزام لگا۔بیٹا اچھل اچھل کر بدتمیزی کرنے لگا ، اگر میں چپ چاپ نہ رہتا تو وہ مجھ پر ہاتھ اٹھانےسے بھی دریغ نہ کرتا۔ اس کو اس گناہ سے باز رکھنے کے لئے میرے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو جان دے دوں یا چپکے سے گھر چھوڑ کر چلاجائوں۔میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ سب کی نظروں سے بچتا ہوا، جو کپڑے پہنے ہوئے تھا اسی میں گھر چھوڑ کر نکل آیا۔ ویسے بھی ابتدائی زندگی تو جدوجہد میں گزاری تو یہ آخری بھی اسی طرح گزر جائے گی۔اب ایک انجانی راہ پر نکل گیا ہوں ، منزل کا پتہ نہیں ، ارادہ ہے، بقول غالب :
ر ہئے اب ایسی جگہ جہاں کوئی نہ ہو = ہم سخن کوئی نہ ہو، اور ہم زباں کوئی نہ ہو
اس روز جب اس نے اپنی کہانی سنائی تو یقین جا نئے میرے دل ودماغ پر تو جیسے اچانک سناٹا پسر گیا۔یوں لگا جیسے میری آواز پر کرفیو لگ گیا ہو۔ الفاظ ڈر کر سہم کر مجھ سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ایسے ناگفتہ بہ حالات میں میں اسے کیا تسلی دیتا۔مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ نہیں بلکہ میں ہی گھر سے نکل کر سڑک پر آگیا تھا۔