Inquilab Logo

بادشاہ برہنہ نہیں ہے

Updated: June 24, 2024, 12:08 PM IST | Waseem Aqil Shah | Mumbai

وہ اپنی کھولی کے دروازے پر کھڑا اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ تبھی اس کی نظر اپنے آٹھ سالہ بیٹے پر پڑی جو گردن جھکائےکسی انہماک سے بے سدھ سا بیٹھا تھا ـ۔ اس نے کام پر جانے کا ارادہ ترک کیا اور بیٹے کو ساتھ لئےبادشاہ کا تماشا دیکھنے نکل پڑا ـ۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

تو ہوا یوں کہ خدا نے ننگے بادشاہ کے وزیرِ خاص کو ملعون قرار دیا اور اُسے دوبارہ جنم دے کر ایک غریب مزدور کے گھر پیدا کیا ـ۔ جب وہ بڑا ہوا اور خود بھی مزدور بن کر دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور بھوگنے لگا تو اسے پچھلے جنم میں کئےگئے اپنے گناہِ عظیم پر بہت افسوس ہوا ـ۔ 
نئے جنم کی نئی دنیا میں بادشاہ کا وزیر مزدور بن کر مارے شرم کے ڈوبا ڈوبا سا رہتا اور خود کو کوسا کرتا، ’’ہائے ! کیسا گناہ مجھ سے سرزد ہوا ! میں نے ہی بادشاہ کو سب سے پہلے برہنہ دیکھا تھا، ـ کاش کہ میں ہی سب سے پہلے اسے بتا دیتا کہ بادشاہ سلامت جلاہوں نے آپ کے ساتھ دھوکا کیا ہے، آپ کے تن پر ایک دھاگا تک نہیں ہے، آپ مکمل برہنہ ہیں ؛ تو شاید میں گناہ گار نہ بنتا اور نہ عرش سے یوں فرش پر پٹخ دیا جاتا ـ۔ ‘‘
کبھی کبھی وہ سوچا کرتا کہ، ’’کیوں ہلکان ہوا جاتا ہوں، ایک معصوم بچے نے سارا بھانڈا تو پھوڑ ہی دیا تھا، پھر گناہ کیسا ـ‘‘ لیکن پھر ذہن پر زور دیتے ہوئے خود سے کہتا کہ، ’’دیکھ کر اندیکھی کا گناہ تو آخر گناہ ہی تھا کہ جس نے کئی عام و خواص کو گمراہ کر دیا تھا ـ۔ ‘‘ بہر حال وہ رنج اور پچھتاوے کا بوجھ لادے زندگی جئے جا رہا تھا۔ ـ دن بھر سخت محنت مزدوری کرتا اور شہر کے پرلے کنارے گندی بستی میں رہ رہے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ـ، روندا جاتا، دھتکارا جاتا، غرض کہ کئی طرح سے استحصال کا شکار ہوتا، مگر صبر کے ساتھ سب کچھ برداشت کرتا اور خدا سے کوئی شکایت نہ کرتا۔ ـ پچھلے جنم میں کئے گئے اپنے گناہِ عظیم کا پچھتاوا اس کے صبر و تحمل کو گویا پختگی عطا کرتا تھا ـ۔ 
ایک دن وہ کام پر جانے کے لئے نکل رہا تھا کہ اس کے پڑوسی سے اس نے سنا کہ ملک کا بادشاہ لاکھوں روپے مالیت کا سوٹ پہن کر اس کی نمائش کے لئے شہر میں گھوم رہا ہے ـ اور اس سوٹ کی خاصیت یہ ہے کہ وہ صرف عقلمندوں اور دور اندیشوں ہی کو نظر آتا ہے ـ یہ سن کر پہلے تو وہ بڑا حیران ہوا، پھر دیر تک سوچ بچار کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ بادشاہ بھی یقینی طور پر اس کے بادشاہ کی طرح اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنے والا پرلے درجے کا احمق ہے ـ وگرنہ وہ دو ٹکے کے درزیوں سے کیسے بے وقوف بن پاتا۔ ـ مزدور کو یہ بھی یقین تھا کہ ایسے بادشاہ کے وزراء، خدام اور رعایا سبھی عقل کے اندھے ہوتے ہیں ـ اس خیال سے ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر ابھری ـ۔ 
وہ اپنی کھولی کے دروازے پر کھڑا اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ تبھی اس کی نظر اپنے آٹھ سالہ بیٹے پر پڑی جو گردن جھکائےکسی انہماک سے بے سدھ سا بیٹھا تھا ـ۔ اس نے کام پر جانے کا ارادہ ترک کیا اور بیٹے کو ساتھ لئےبادشاہ کا تماشا دیکھنے نکل پڑا ـ۔ 
کچھ ہی دیر میں وہ شہر کے وسط میں پہنچ گیا ـ یہاں اس نے دیکھا کہ بڑی سڑک کے دونوں کناروں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگ باگ کھڑے بادشاہ سلامت کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ـ کھچا کھچ بھری اس بھیڑ میں اس نے بھی بڑی جانفشانی سے اپنے لئے ایک مناسب جگہ بنائی اور وہاں کھڑے ہو کر بیٹے کو کاندھوں پر بٹھا لیا۔ ـ بہت دیر انتظار کرنے کے بعد بادشاہ کی کاروں کا قافلہ مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے یہاں آ پہنچا۔ ـ درجنوں کاروں کے درمیان ایک ٹرالی نما بڑی سی موٹر گاڑی میں بادشاہ پوری طرح برہنہ کھڑا ہاتھ ہلا ہلا کر ہر کسی کی داد و تحسین وصول کر رہا تھا۔ ـ جب بادشاہ مزدور کے بالکل قریب سے گزرنے لگا تو اس نے کاندھوں پر بیٹھے اپنے بیٹے سے کہا : 
’’بیٹا، دیکھا تم نے بادشاہ نے کتنا خوبصورت سوٹ پہنا ہوا ہےـ۔ ‘‘’’ ہاں ـ ـ ـ ـ ہاں بابا، واقعی ـ ‘‘،  بیٹے کی مخمور سی آواز ذرا دیر سے اس کے کان پر پڑی ـ۔  وہ بری طرح چونکا، مگر ضبط کے ساتھ اپنی آواز کو بھینچتے ہوئے بولا :’’ بیٹا، کیا بادشاہ ننگا نہیں ہے؟ ’’نہیں بابا، بادشاہ نے بہت ہی خوبصورت سوٹ پہنا ہوا ہے۔ ‘‘
بیٹے کے جواب پر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ـ اس نے گردن ٹیڑھی کر کے بیٹے کو دیکھا، اور دیکھا تو کیا دیکھا کہ اس کا آٹھ سالہ بیٹا گردن جھکائے موبائل فون پر نظر گاڑے ہوئے ہے۔ ـ مزدور کو احساس ہوا کہ شاید کندھے پر بیٹھتے ہی بیٹے نے اس کے شرٹ کی جیب سے موبائل نکال لیا تھا۔ ـ اب کے اس نے بیٹے کو تقریباً جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا :’’کیا بادشاہ ننگا نہیں ہے؟‘‘
بیٹے نے موبائل فون کی اسکرین پر نظر جمائے رکھی اور بنا گردن اٹھائے ناگواری سے بولا :’’نہیں بابا ـ ـ ـ ـ بادشاہ ننگا نہیں ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK