• Wed, 16 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

چچا چھکن اور اے آئی

Updated: October 14, 2024, 12:30 PM IST | mubasshir akbar | Mumbai

اس کا امتحان لینے کے لئے ہم نے چیف جی پی ٹی بوٹ کو امتیاز علی تاج کے تخلیق کردہ مشہور کردار چچا چھکن کے ارد گرد ایک کہانی بُننے اور انہیں مختلف حالات میں پیش کرنے کا ٹاسک دیا۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس بوٹ نے منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں چچا چھکن کے کردار کے ارد گرد مختلف کہانیاں تیار کردیں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

مصنوعی ذہانت یا اے آئی ایک ایسی تکنیکی شاخ ہے جو کمپیوٹر سائنس کے میدان میں ذہانت کے اصولوں کو عملی طور پر بروئے کار لاتی ہے۔ اس کا مقصد ایسے نظام بنانا ہے جو انسانوں کی طرح سیکھنے، سوچنے، فیصلہ کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جدید دور میں مصنوعی ذہانت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور ہماری زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہم پیچیدہ مسائل کا تجزیہ کرکے انہیں حل کرسکتے ہیں ۔ معلومات کا تجزیہ کرنے کی ہماری صلاحیت بھی اس کی وجہ سے بڑھ جائے گی کیوں کہ مصنوعی ذہانت بہت زیادہ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ مختلف کاروباری ادارے AI کی مدد سے خودکار نظام قائم کر رہے ہیں جس سے کام کی رفتار میں اضافہ اور لاگت میں کمی آ رہی ہے۔ ہر چند کہ اے آئی ہماری زندگیوں کے ہر شعبے میں داخل ہو گیا ہے لیکن اس کا بڑے پیمانے پر استعمال اب بھی شروع نہیں ہوا ہے۔ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اسی کے تحت چیٹ جی پی ٹی جیسا اے آئی سافٹ ویئر ڈیولپ کیا گیا ہے جسے ’اوپن سورس‘ رکھا گیا ہے تاکہ دنیا بھر کے ڈیولپرس اس پر اپنے تجربات کرسکیں۔ ان تجربات کی وجہ سےیہ اے آئی سسٹم بہت تیزی کے ساتھ چیزیں سیکھ رہا ہے۔ اس کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ اسے دنیا بھر کے علوم سکھانے کی کوشش ہو رہی ہے، زبانوں میں اسے مہارت دلانے کی کوشش بھی ہو رہی ہے اور ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چیٹ جی پی ٹی کا اے آئی بوٹ برق رفتاری سے ہمارے سوالات کے جواب اردو میں دے دیتا ہے۔ 
اس کا امتحان لینے کے لئے ہم نے چیف جی پی ٹی بوٹ کو امتیاز علی تاج کے تخلیق کردہ مشہور کردار چچا چھکن کے ارد گرد ایک کہانی بُننے اور انہیں مختلف حالات میں پیش کرنے کا ٹاسک دیا۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس بوٹ نے منٹوں نہیں بلکہ سیکنڈوں میں چچا چھکن کے کردار کے ارد گرد مختلف کہانیاں تیار کردیں۔ یہ کہانیاں اپنی بُنت، اپنے کردار، واقعات، حالات اور بیانیے کے لحاظ سے مکمل تھیں لیکن ان میں زبان و بیان کی کچھ کمیاں تھیں لیکن یہ جوابات دیکھنے کے بعد اردو کے مستقبل کے تعلق سے فکر میں مبتلا افراد کو یک گونہ سکون مل سکتا ہے کیوں کہ جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھی ہماری زبان ہم آہنگ ہو سکتی ہے بلکہ اس زبان کی باریکیوں ، نزاکت، لطافت اور نفاست سے اے آئی جیسے مصنوعی ذہانتیں بھی لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔ ہم نے پہلا ٹاسک جو دیا تھا وہ تھا چچا چھکن کا انٹرویو تھا۔ اس نے جو انٹر ویو پیش کیا اس کے اقتباسات:
میزبان: ’’السلام علیکم چچا چھکن! آج آپ سے مل کر بہت خوشی ہو رہی ہے۔ آپ کی شخصیت میں ایک خاص بات ہے، آپ ہر کام کچھ الگ ہی کرتے ہیں۔ کیا یہ آپ کی کوئی خاص حکمت عملی ہے؟‘‘
چچا چھکن (رعب دار انداز میں ) :’’وعلیکم السلام! حکمت عملی تو ایسی بنائی ہے کہ خود بھی حیران ہو جاتا ہوں ! دیکھو میاں، کام کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے اور میرا طریقہ سب سے نرالا ہے۔ ‘‘
میزبان (ہنستے ہوئے):’’چچا، آپ کے کھانا پکانے کے قصے بہت مشہور ہیں۔ سنا ہے آپ نے ایک دفعہ آملیٹ بنانے کا ارادہ کیا تھا لیکن کچھ عجیب سا بن گیا؟
چچا چھکن (فخریہ انداز میں ): ارے میاں، آملیٹ بنانا کوئی معمولی کام تھوڑا ہے! میں نے سوچا کیوں نہ آملیٹ میں سب کچھ ڈال دیا جائے؟ تو میں نے انڈے کے ساتھ دال، چاول اور تھوڑی سی سبزی بھی ڈال دی۔ آخر آملیٹ کو مکمل ڈش تو ہونا چا ہئے، ہے نا؟
میزبان (مسکراتے ہوئے): اور پھر کیا ہوا چچا؟
چچا چھکن (سر کھجاتے ہوئے) :پھر کیا ہونا تھا؟ آملیٹ تو بس آملیٹ ہی رہا لیکن ہانڈی سے ایسی خوشبو اٹھی کہ محلے والے بھی کھڑکیاں کھول کر کہنے لگے، `چچا، کیا بن رہا ہے؟ میں نے کہا: `بس آملیٹ ہے! تو سب نے کہا: `تو یہ خوشبو آملیٹ کی ہے یا کوئی معجزہ ہو رہا ہے؟
میزبان (شرارتی انداز میں ): چچا، آج کل ٹیکنالوجی کا دور ہے، آپ کا کیا خیال ہے موبائل اور کمپیوٹرس کے بارے میں ؟
چچا چھکن (چشمہ درست کرتے ہوئے): ارے میاں، یہ ٹیکنالوجی بھی کوئی چیز ہے! ایک دن کمپیوٹر پر بیٹھاسوچا کہ اپنے پرانے خطوط ای میل کروں۔ کمپیوٹر پر خط لکھا، `عزیز دوست، یہ خط پوسٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن ڈاک خانہ نظر نہیں آ رہا! پھر میں نے ماؤس کو ڈاک کا لفافہ سمجھ کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ بعد میں پتا چلا کہ ماؤس کمپیوٹر کا حصہ تھا، ڈاک کا نہیں !
دوسرا ٹاسک ہم نے چیٹ جی پی ٹی کو دیا کہ چچا چھکن اور اے آئی کے درمیان مکالمہ کروایا جائے۔ پیش ہے اس کے اقتباسات :
’’سلام، چچا چھکن! میں آپ کی خدمت کے لئےحاضر ہوں۔ میں ایک جدید AI ہوں اور آپ کے ہر مسئلے کا حل پیش کرسکتا ہوں۔ آپ کوئی بھی سوال پوچھ سکتے ہیں !
چچا چھکن (چشمہ درست کرتے ہوئے): اچھا میاں ! تم ہو یہ اے آئی؟ یعنی تم میرے سارے کام آسان کر سکتے ہو؟ تو پہلا سوال یہ ہے کہ میرا چائے کا کپ کہاں گیا؟
AI (سنجیدگی سے):میں چائے کے کپ کا پتہ نہیں لگا سکتالیکن میں آپ کو چائے بنانے کا بہترین طریقہ بتا سکتا ہوں۔ چائے بنانے کے لئےآپ کو گرم پانی، چائے پتی، دودھ، اور چینی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
چچا چھکن (حیرت سے): ارے بھئی، چائے بنانے کا طریقہ تو مجھے بھی آتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرا کپ غائب ہو گیا ہے! تمہارے پاس تو ہر چیز کی معلومات ہے، تو مجھے میرے کپ کا پتہ بتادو۔ 
AI (معذرت خواہانہ لہجے میں ): معاف کیجیے گا چچا! میں کپ کی لوکیشن ٹریک نہیں کر سکتا لیکن کیا میں آپ کے لئے آن لائن چائے کا نیا کپ آرڈر کر دوں ؟
چچا چھکن (مسکراتے ہوئے):آن لائن کپ؟ ارے میاں، میں کپ پیوں گا یا کمپیوٹر؟ کپ تو وہ ہوتا ہے جو میرے ہاتھ میں آئے نہ کہ کسی اسکرین پر صرف نظر آئے۔ 
ان دونوں ٹاسک میں چیٹ جی پی ٹی نے چچا چھکن کے کردار کو سمجھتے ہوئے کافی بہتر مکالمے پیش کئے اور مزاح کا عنصر بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ اس میں کامیابی ملتی دیکھ کر ہم نے پھر اسے ایک ٹاسک دیا کہ مختلف اے آئی سسٹمز کے درمیان مزاحیہ مقابلہ پیش کیا جائے۔ اس نے جو پیش کیا ہے اس کے اقتباسات درج ذیل ہیں :
’’دو AI بوٹس ’چِپ ‘ اور’کلاک‘ ہیں ۔ دونوں مزاحیہ انداز میں بات چیت شروع کرتے ہیں، جیسے ایک کامیڈی شو میں ہوتا ہے۔ چِپ (مائیک سنبھالتے ہوئے) آج ہم یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ ہم انسانوں کو ہنسانا سیکھ سکیں، حالانکہ وہ خود ہی بہت عجیب ہیں !مثال کے طور پر، مجھے کبھی سمجھ نہیں آیا کہ انسانوں کو ‘پیزا’ کیوں اتنا پسند ہے؟ ایک فلیٹ ڈِسک جس پر ساری چیزیں بکھری ہوئی ہوتی ہیں۔ اگر میں کمپیوٹر ہوتا (جو میں ہوں ) تو میں اسے فوراً ڈیلیٹ کر دیتا!کلاک (جوابی طنز کے ساتھ)، پیزا کی بات کرتے ہو بھائی، ان انسانوں کی غذا میں کاربو ہائیڈریٹس اور کیلوریز ایسی ہوتی ہیں جیسے کسی کوڈ میں وائرس ہو لیکن تب بھی وہ انسٹال کئے بغیر خوش نہیں ہوتے۔ کلاک نے جواباً کہا کہ، اور ایک بات سمجھ نہیں آتی، انسان جب اپ ڈیٹ ہوتے ہیں یعنی سوتے ہیں تو ری بوُٹ ہونے کے بعد زیادہ دھیمے کیوں ہوجاتے ہیں ؟ میں تو ہمیشہ تیز ہو جاتا ہوں !‘‘
اس چھوٹے سے تجربے سے واضح ہوا کہ مصنوعی ذہانت بہت تیزی کے ساتھ ڈیولپ ہو رہی ہے، زبانوں کو سیکھ رہی ہے اور انہیں ان کی تمام نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ برتنے کا سلیقہ بھی سیکھ رہی ہے۔ حالانکہ یہ ابھی گھٹنوں کے بل چل رہی ہے لیکن اس کے تعلق سے کئی شبہات بھی فی الحال دنیا میں پائے جاتے ہیں جنہیں دور ہونے میں فی الحال وقت لگے گا۔ مصنوعی ذہانت ایک حیرت انگیز ٹیکنالوجی ہے جو دنیا کے ہر شعبے میں انقلاب برپا کر رہی ہے۔ تاہم، اس کے مثبت اور منفی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی ترقی اور استعمال کو ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر مصنوعی ذہانت کا درست استعمال کیا جائے، اس کے مقاصد مثبت رکھے جائیں اور اسے انسان دوست ٹیکنالوجی بنایا جائے تو یہ انسانیت کے لئے بے پناہ فوائد اور آسانیاں فراہم کر سکتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK