Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

چوکھٹ

Updated: March 17, 2025, 1:44 PM IST | Ghani Ghazi | Lakhanwara/Buldhana

دوارزہ کے چوکور چوبی گھیرے کو چوکھٹ کہا جاتاہے۔ دوکھڑی لکڑیاں ایک آڑھی لکڑی پر کھڑے ہوکر دوسری لکڑی کو سر پر اٹھائے نظر آئے تو سمجھ لو کہ چوکھٹ ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

دوارزہ کے چوکور چوبی گھیرے کو چوکھٹ کہا جاتاہے۔ دوکھڑی لکڑیاں ایک آڑھی لکڑی پر کھڑے ہوکر دوسری لکڑی کو سر پر اٹھائے نظر آئے تو سمجھ لو کہ چوکھٹ ہے۔ اسی کو لوگ دہلیز، راہ داری، ڈیوڑھی یاباب بھی کہتے ہیں۔ اسی چوکھٹ کے عمودی بازؤں میں دوپٹ جڑ د ئیے جاتے ہیں تویہ مجموعہ دروازہ کہلاتا ہے۔ گویا دروازہ کا وجود چوکھٹ کا مرہونِ منت ہے اور یہی چوکھٹ گھر کی شان بھی ! چوکھٹ کے بنا دروازہ چہ معنی دارد ! نیز دروازہ کے بغیر گھر کا تصور ادھورا بلکہ نا ممکن ہے۔ 
  زمانہ قدیم میں ٹیڑھی میڑھی چار لکڑیوں سے چوکھٹ بناکر تی تھی۔ بعد میں پترے کے پٹ لگائے جانے لگے۔ اُس وقت بھی چوکھٹ لازم و ملزوم تھی۔ امروز و فردا لوہے اور سیمنٹ کی چوکھٹیں بازار میں دستیاب ہیں۔ فائبر اور لوہے کی شیٹ کے سنگل یا ڈبل پٹ بھی مل جاتے ہیں۔ ترقی کرتے کرتے چوکھٹ سنگ مرمر یا گرینائٹ کی خوب صورتی میں ڈھل گئی لیکن اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
 یہ دراصل امیروں کے ٹھاٹھ باٹ ہیں البتہ غریب بے چارے کھڑکیوں دروازوں کی چوکھٹ کالے کڑپوں ہی سے سجا لیتے ہیں۔ سونے چاندی کے ورق چڑھادو، لکڑی پر نقاشی کرادو، لوہے، دھات یاسیمنٹ میں بنوالو مگر وہ اپنی شناخت سے کسی بھی صورت کوئی بھی حال میں سمجھوتہ نہیں کرتی۔ وہ ہر شکل میں چوکھٹ ہی کہلاتی ہے۔ 
  نیم ببول جیسی لکڑیوں کی چوکھٹوں نے اگلا قدم شیشم اور ساگوان کی طرف بڑھایا مگر انہیں برسات، سردی، گرمی کو برداشت کرنا پڑتا تھا! زمانہ بدلا تو اسکے سر پر پترے کے شیڈ لگائے گئے اب کہیں جاکر کانکریٹ کے چھجے حفاظت کے لئے تعینات رہتے ہیں۔ اپنے پاؤں زمیں میں گاڑھے، بازوؤں میں دونوں پٹوں کا بوجھ سنبھالے، سر پر گھر کا بارا ٹھائے برسہا برس تک مستقل مزاجی ، صبر و تحمل کے ساتھ ڈٹے رہ کر چوکھٹ گھر اور گھروالوں کی عزت آبرو اور راز ہائے سربستہ کی محافظ بن جاتی ہے۔ 
 بے چارے مزدور دھن والوں کی چوکھٹ پر ناک رگڑتے ہیں تو عاشقانِ نامراد محبوب کی گلی سے دبے پاؤں گزرتے ہوئے اس کی چوکھٹ پر بڑی حسرت سے نظر ڈالتے ہیں۔ اولاد دیر سے گھر پہنچے یا پردیسی بیٹے کاخط لانے والے قاصد کے انتظار میں والدین اسی چوکھٹ پر اپنی آنکھوں کے چراغ رکھ دیتے ہیں جہاں دیوالی میں روشنی کے لئے دئیے جلائے جاتے ہیں۔ دیہاتوں میں آج بھی شادیوں کے موقع پر رنگ ریز عورتیں دولہا دولہن اور ان کے رشتہ داروں کے گھر کی چوکھٹوں کو کاغذ کے پھول پتو ں سے مڑ دیتے اور بدلہ میں بانس کی ٹوکری بھر اناج پاتی ہیں۔ شریف زادیوں کے لئے چوکھٹ لق ودق صحرا یا گہرای کھائی سے کم نہیں ہوتی وہ اپنی چوکھٹ نانگھنا خلافِ تہذیب سمجھتی ہیں۔ 
  دور جدید میں چو کھٹ سے باہر قدم رکھنا بعض کے لئے فیشن بن چکا ہے مگر ایک بار اپنی چوکھٹ سے باہر نکلنے والے یا والیاں در بدر کی ٹھوکر یں کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ فقیر چوکھٹ پر صدا دے کر خیرات لے کر گزرجاتا ہے مگر چوکھٹ پر کھڑی موت ہر لمحہ گھر کے اندر پوشیدہ زندگی کو آواز دیتی رہتی ہے۔ خدا ترس ایک ہی چوکھٹ پر سر جھکا تے ہیں ۔ موت کی ہر آواز پر لبیک کہنے کو ہر آن تیار رہتے ہیں۔ 
  پردے دروازوں کی زینت ہوتے ہیں لیکن انھیں بھی چوکھٹ ہی کا سہارا لینا پڑتاہے۔ غریبوں کے دروازوں پر ٹاٹ کے میلے کچیلے پردے لٹکے ہوتے ہیں تو امیروں کے دروازں پرنت نئے رنگا رنگ پردے لہراتے ہیں۔ اب تو کرن دار اوردوسالی چوکھٹیں بھی گھروں ، عمارتوں ، مکانوں، بنگلوں اورفلیٹوں کی زیبائش میں چار چاند لگا رہی ہیں۔ دنیا کتنی بھی ترقی کرلے فیشن کتنے ہی لباس بدل لے چوکھٹ کی آج بھی ضرورت اہمیت و افادیت ہے اور کل بھی رہے گی۔ 
  بلاشبہ گھر کی بیوی جو چوکھٹ عظمت اور شان کا اونچا نشان جبکہ بیٹی گھر کی تہذیب کی غمازہوتی ہے جو شادی کے وقت گھر کی چوکھٹ سے روتی رُلاتی جاتی ہے مگر سسرال کی چوکھٹ پر جاکر ہنستی اور سب کو ہنساتی ہے۔ دل کے دروازہ میں بھی چوکھٹ ہوتی ہے جس پر ہر پل دھڑکنیں دستک دیتی ہیں۔ 
  شاعر کے دل کی چوکھٹ پر یاد ِ محبوب تو غم روز گار کے ستائے ہوئے ذہنوں کی چوکھٹ پر پرورش ِاولاد کی فکر مسلسل دستک دیتی ہے۔ تصویروں کے اندر سے مصور کی بے زبان ہنر مندی جھانکتی ہے آئینہ کی چوکھٹ کو بھلے ہی چوکھٹا کہہ لیں مگر وہ اپنے اندر کے شیشہ کو حق گوئی، حق نمائی اور حق شناسی کی تعلیم دیتا رہتا ہے۔ 
 چوکھٹ کھڑکیوں کی بھی ہوتی ہے جن پر دبیز پردے پڑے ہوتے ہیں۔ دروازوں سے مایوس ہوکردل گر فتہ عاشق انھیں حسرت سے دیکھتے ہیں اور ذراسا پردہ ہوانے بھی ہلا دیا تو ان کے دلوں کی چوکھٹوں پر دھڑکنیں دستک دینے لگتی ہیں۔ بے چاروں کی چپلیں گھس جاتی ہیں مگر پردوں کو ذرا بھی رحم نہیں آتا کہ چوکھٹ سے ذراسرک جائیں تو چلمن سے لگے بیٹھنے والے کا دیدار ہوجائے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK