ادب کا رشتہ ماضی سے بھی اتنا ہی ہے جتنا حال سے ہے اور وہ مستقبل سے بھی اتنا ہی قریب ہے جتنا ماضی اور حال سے، کیونکہ ادب میں انسانی زندگی کی تمنائیں اور آرزوئیں بھی شامل ہوئی ہیں۔
EPAPER
Updated: January 19, 2025, 3:57 PM IST | Athar Parvez | Mumbai
ادب کا رشتہ ماضی سے بھی اتنا ہی ہے جتنا حال سے ہے اور وہ مستقبل سے بھی اتنا ہی قریب ہے جتنا ماضی اور حال سے، کیونکہ ادب میں انسانی زندگی کی تمنائیں اور آرزوئیں بھی شامل ہوئی ہیں۔
آرنلڈ نے شاعری کو ’’زندگی کی تنقید‘‘ کہا ہے لیکن جس طرح شاعری میں زندگی کی تنقید ملتی ہے، اسی طرح نثر میں بھی ہمیں زندگی کی تنقید نظر آتی ہے۔ اس لحاظ سے ہم نہ صرف شاعری بلکہ مجموعی طور پر ادب کو ’’زندگی کی تنقید‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ادب چاہے کسی ملک و قوم کا ہو، اس کا لکھنے والا مرد ہو یا عورت، اس میں ہمیں انسانوں کے احساسات، ان کے خیالات اور جذبات کا اظہار ملے گا۔ وہاں اگر مناظر فطرت کی عکاسی ملے گی تو اس کے سینے میں ہمیں انسان کے دل کی دھڑکن سنائی دے گی۔ انسان جس ماحول میں رہتا ہے اس کا جس سماج سے تعلق ہے وہ ماحول اور سماج اس کے ادب سے ظاہر ہوگا۔ ادب میں اگر دیوپریوں کا ذکر ہوگا تو ان میں ہمیں انسانی خصلتیں نظر آئیں گی۔ دیوتاؤں کے غیظ و غضب میں انسانی جلال اور اپسراؤں کے چہرے پر انسانی جمال کی جھلکیاں ملیں گی۔ غرض مافوق الفطرت میں بھی فطرت کا اظہار ہوگا۔
ہر ادبی تخلیق زندگی سے زندگی حاصل کرتی ہے اور اس کے مطالعے کے بعد ہم اپنے آپ کو زندگی سے زیادہ قریب محسوس کرتے ہیں۔ ادب دراصل ایک ایسی دستاویز ہے جس میں انسان نے جو کچھ دیکھا، سمجھا اور محسوس کیا ہے سب قلمبند ہے۔ یہاں انسانوں کے تجربوں کی یادگاریں نظر آتی ہیں۔ ادب کا رشتہ ماضی سے بھی اتنا ہی ہے جتنا حال سے ہے اور وہ مستقبل سے بھی اتنا ہی قریب ہے جتنا ماضی اور حال سے، کیونکہ ادب میں انسانی زندگی کی تمنائیں اور آرزوئیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ یہاں زندگی پانی کے تالاب کی طرح ٹھہرتی نہیں بلکہ آبشار کی مانند متحرک اور صاف شفاف نظر آتی ہے۔ انسان نے جب تہذیبی و تمدنی زندگی کی طرف قدم اٹھائے تو ادب نے انسان کی مدد کی۔ چنانچہ زندگی کے اس قافلہ میں ادب کی حیثیت ہمسفر کی بھی رہی ہے اور راہبر کی بھی۔ ادب کا موضوع تمام انسانی اعمال و خیالات ہیں۔ گویا ایک طرح سے ادب بڑے ادب کے ساتھ زندگی کی تبلیغ کرتا ہے۔ ارد کے معروف نقاد ممتاز حسین کا کہنا ہے کہ ’’ادب کا تعلق براہ راست انسانوں کی زندگی سے ہے۔ ان کے نفسیاتی اور سماجی مظہر سے جن کا مطالعہ کسی بھی طبقاتی سماج میں غیرجانبدارانہ ہوسکتا ہے۔ ‘‘ اسی مضمون میں وہ آگے چل کر کہتے ہیں کہ ’’زندگی کا صرف ایک نقطۂ نگاہ ہے اور وہ متحرک اور پھیلتی ہوئی زندگی ہے۔ زندگی پر تنقید صرف اسی نقطۂ نظر سے ہونی چاہئے۔ ‘‘
یہ بات اصولی طور پر صحیح ہے لیکن اس اصول کا میکانیکی عمل کسی مصنف کو گمراہ بھی کرسکتا ہے جیسا کہ اردو کے بعض ترقی پسند ادیبوں کے یہاں ہوا اور انہوں نے زندگی کے اس بحر بیکراں کو ایک جوئے کم آب میں محدود کردیا ہے اور بندگی کی مخالفت کرتے ہوئے بھی بندگی کرنے لگے۔ ادیب یا شاعر زندگی کو خانوں میں نہیں بانٹتا، وہ اسے ذاتی تعصب کے تحت نہیں پیش کرتا۔
جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ ادب زندگی کی تنقید ہے اور اس رشتے سے ادب حال پر بھی اکتفا نہیں کرسکتا۔ تنقید کا مقصد ہمیشہ نئی تعمیر ہوتا ہے اور تعمیر کے لئے مستقبل کے میلان اور اس کے تصور کی ضرورت ہے جس کا دوسرا نام تخیل ہے اور اس تخیل کی مدد سے وہ اپنے تصورات پیش کرتا ہے اور زندگی کے مستقبل اور اس کے امکانات پر روشنی ڈالتا ہے۔ اسی لئے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ادیب خواب دیکھتا ہے لیکن ان خوابوں میں حقیقت کی زبردست آمیزش ہوتی ہے۔
زندگی ایک میلہ ہے جس میں رنگارنگ مناظر نظر کے سامنے آتے ہیں اور جو ایک دوسرے میں ایسے گھل مل جاتے ہیں کہ ان رنگوں میں کبھی کبھی تمیز کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ زندگی ایک سیل رواں ہےجس میں سبک اور تند موجیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور ایک دوسرے سے ملتی رہتی ہیں، ایک قوس قزح ہے جس میں بے شمار کرنوں کی جلوہ گری ہے۔ کچھ ایسا ہی حال انسان کے دل کا ہے۔ محبت اور نفرت، خودپسندی اور ایثار، ہمدردی اور لاتعلقی، رحم اور بے رحمی، یہ تمام متضاد کیفیتیں انسانی دل پر گزر جاتی ہیں۔ ادب انہیں احساسات کا آئینہ دار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ آئینہ محض عکاسی نہیں کرتا بلکہ اپنی طرف سے اس میں رنگ آمیزی بھی کرتا ہے۔
ادب محض زندگی کا عکاس نہیں
ایک انگریز نقاد نے صحیح کہا ہے کہ ہم ادب کا مطالعہ اس لئے نہیں کرتے کہ اس میں ہمیں کسی غیرمعمولی تجربہ کی گہرائی نظر آئے گی لیکن ہم ادیب سے یہ توقع ضرور کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ لکھے وہ اس کی شخصیت کا بہترین اظہار ہو اور یہ بات اس کی اپنی ہو، مانگے کا اجالا نہ ہو۔ یہ آوازیں حقیقی ہوں، بازگشت نہ ہوں اور جو ادب اس طرح تخلیق ہوگا لوگ اس کی طرف توجہ دینگے۔ ضروری نہیں ہے کہ کسی ادیب یا شاعر کا تجربہ وسیع ہو یا یہ کہ جن لوگوں نے زندگی میں زیادہ تجربات حاصل نہیں کئے ہیں وہ ادبی تخلیقات نہیں کرسکتے بلکہ جو تجربہ بھی ہو وہ خارجی یا داخلی طور پر اس پر گزر چکا ہو۔ یہ تجربہ مختصر ہوسکتا ہے، لمحاتی ہوسکتا ہے لیکن ادیب اور شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ اس تجربے کے ہر پہلو پر نظررکھے اور پورے طور پر اسے اپنی شخصیت میں سمو کر پیش کرے۔ واقعات اور تجربات کو ہر پہلو سے اس لئے دیکھنا چاہئے تاکہ ہم اس کی سچائی کو صحیح طور پر سمجھ سکیں ورنہ ہوسکتا ہے کہ ہم فوٹوگرافر کی طرح حقیقت کو محض جامد طور پر پیش کردیں جو رونق حیات سے ماورا ہو۔
ادیب کا کام یہ نہیں ہے کہ خارجی حقیقتوں کو اس کے جامد تصور میں دیکھے کیونکہ ہمیں ان حقیقتوں سے واقعاتی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اس کے سیاق و سباق کی روشنی میں ہم اس کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ادیب اس حقیقت کو متحرک اور زندہ شکل میں اپنے ذاتی اور جذباتی تاثرات کے ساتھ پیش کرتا ہے تاکہ پڑھنے والا اس کا اثر قبول کرے کیونکہ اس کی دلچسپی اس کے جذباتی اور حسیاتی ردعمل سے ہے۔ ادیب ذاتی مشاہدہ سے مدد لیتا ہے لیکن اس کے تخلیقی عمل میں مشاہدہ سے زیادہ قوت تخیل اس کی مدد کرتی ہے۔ تخیل کا وصف یہ ہے کہ وہ انسانی تجربات میں وقعت دیتا ہے۔ مثلاً آپ سڑک پر سے گزر رہے ہوں اور کوئی فاقہ زدہ شخص آپ کو ملے اور یہ بتائے کہ ’’پانچ روز سے ایک دانہ بھی میرے منہ میں نہیں گیا۔ بھوک کے مارے بے دم ہورہا ہوں ‘‘ تو فاقے کی یہ کیفیت اور اس کی شدت کو آپ بھرپور طور پر محسوس کرلیں گے خواہ آپ نے زندگی میں کبھی ایک وقت کا فاقہ بھی نہ کیا ہو اور آپ کو فاقہ کشی کا تجربہ نہ ہو۔ یہ دراصل تخیل کی کارفرمائی ہے اور اسی طرح تخیل ادیب کی رہبری بھی کرتا ہے۔
ادب کا مقصد
ادیب اپنی آنکھوں کو خوردبین کے طور پر استعمال کرتا ہے اور سچائی کا متلاشی ہے، گویا سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے کا کام کرتا ہے۔ وہ پانی کی سطح کو نہیں دیکھتا بلکہ جو موجیں زیر آب پیچ و تاب کھاتی ہیں ان پر نظر رکھتا ہے۔ وہ فطرت کے رازوں کو افشا کرتا ہے۔ یہاں اس کی قوت متخیلہ اور اس کے احساسات اس کی مدد کرتے ہیں اور ہم غالبؔ کی طرح کہہ اٹھتے ہیں :
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
یہی عظمت تھی جس نے بڑے بڑے شاعروں سے پیغمبری کے فرائض ادا کروائے ہیں اور ادب شناس کہہ اٹھے کہ ’’شاعری پیغمبری کا ایک حصہ ہے۔ ‘‘ شاعر فطرت اور حقیقت کا نباض ہوتا ہے، وہ اسباب و نتائج دونوں پر نظر رکھتا ہے۔ یہاں وہ فرد کا ہی نہیں، قوموں کا نباض نظر آتا ہے۔ وہ قوموں کے عروج و زوال کی داستانوں میں اپنی رہبری کے فرائض نہیں بھولا ہے۔ ایلیا اہرن برگ نے اسی سے متاثر ہوکر کہا ہے کہ ’’کسی ادیب کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ایسے ادب کی تخلیق کرے جو ہمیشہ کیلئے ہو بلکہ اسے ایسے ادب کی تخلیق پر بھی قادر ہونا چاہئے جو خواہ ایک لمحے کیلئے ہو لیکن اس ایک لمحے میں قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا ہو۔ ‘‘
ہم اس نقطۂ نظر سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ ہم مادر گیتی کے بیٹے ہیں اور اگر ماں پر کوئی آنچ آئے تو فن کیا زندگی بھی نچھاور کی جاسکتی ہے۔
(مآخذ: ادب کا مطالعہ)